ماحول پر ظلمت چھائی ہو تو ذرا سی روشنی بھی کائنات کی سب سے بڑی نعمت معلوم ہوتی ہے۔ ہر طرف جرائم کے ارتکاب کا بازار گرم ہو تو جرائم کی بیخ کنی کے لیے کی جانے والی ہر کوشش پورے معاشرے پر عظیم احسان سی نظر آتی ہے۔
کراچی پر تین عشروں کے دوران جو کچھ گزری ہے وہ اس نوعیت کی ہے کہ ذرا سی اچھائی بھی خیر کا منبع محسوس ہونے لگتی ہے۔ قتل و غارت کا بازار اس قدر گرم رہا ہے کہ امن کی بحالی کے نام پر اٹھایا جانے والا ہر قدم گویا منزل کے مماثل ہے۔ بہتری کی جو بھی صورت نکل رہی ہو اسے دیکھ کر لوگ پہلے انگشت بہ دنداں رہ جاتے ہیں اور پھر انجانی خوشی کے دریا میں غوطے کھانے لگتے ہیں۔ پیاسے کے لیے تو ایک کٹورا پانی بھی دریا ہوتا ہے۔ ہر چیز کی قدر کا تعین اس کی ضرورت کے تناظر میں کیا جاتا ہے۔ بے امنی کے سمندر کی بے رحم موجوں میں جان بچانے کی خاطر ہاتھ پاؤں مارنے والے کراچی کے لیے خدا خدا کرکے کفر ٹوٹا۔ اسلام آباد کی پرسکون فضاؤں میں سانس لینے والوں کو یاد آیا کہ اسی مملکت کی حدود میں کراچی نام کی ایک بستی بھی ہے جو خرابیوں کی نذر ہوتے ہوتے اب خرابے کی سی شکل اختیار کرچکی ہے۔ اور یہ کہ اب اسے بھی بہتر حالات کی ضرورت ہے تاکہ زندگی میں کچھ معنویت پیدا ہو، شب و روز بامقصد ڈھنگ سے بسر ہوں۔
زہے نصیب! کراچی کے بارے میں سوچنے کی ابتدا ہوئی۔ انتظامی مشینری کے چند پُرزوں میں حرکت پیدا ہوئی اور بگڑے کام بنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ امیدوں کا تنفّس بحال ہوا۔ آرزوئیں پھر توانا ہوئیں۔ پوری آب و تاب اور تحرّک کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی لگن دِلوں میں پھر انگڑائیاں لینے لگی۔ جو کچھ کرسکتے ہیں اگر وہ کچھ کرنے پر آجائیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ با اختیار طبقے کی طرف سے جب کسی کام کی ٹھان لی جاتی ہے تو پورا ماحول تبدیل ہونے لگتا ہے۔ کچھ کر دکھانے یا کر گزرنے کا عزم اگر ایک بار پھر نیّت کا حصہ بن جائے تو عمل کی ہر کجی کا رنگ پھیکا پڑنے لگتا ہے۔
کراچی بھی چند ماہ کے دوران ایسی ہی کیفیت سے گزرا ہے۔ قوانین کو جب قوتِ نافذہ کی توجہ حاصل ہوئی تو ہر الجھن کا زور ٹوٹنے لگا اور وہ وہ سلجھن میں تبدیل ہونے کی راہ پر گامزن ہوئی۔ پژمردہ چہرے کِھل اٹھے۔ ریاستی مشینری کی بے عملی دیکھ کر حوصلہ ہار بیٹھنے والے ایک بار پھر زندگی کی طرف لوٹ آئے۔
اہل کراچی کا جینا حرام کرنے اور انہیں خون کے آنسو رلانے والوں کو لگام دینے کا عمل شروع ہوا تو لوگ رگ جاں میں آکسیجن سے زیادہ امیدیں اور سرخوشی محسوس کرنے لگے۔ شہرِ قائد کے باسیوں سے دامن چھڑاکر رخصت ہونے والی ہر خوشی پلٹ آئی۔ رمضان المبارک سے قبل شہر کی بحالی کا جو عمل شروع ہوا تھا وہ شہریوں میں بھرپور انداز سے جینے کا حوصلہ پیدا کرنے میں اس قدر کامیاب رہا کہ شہر کچھ کا کچھ دکھائی دینے لگا۔ محض مکانات کے ہجوم پر مبنی شہر گھر سا محسوس ہونے لگا۔
مگر پھر وہی ہوا جو اب تک ہوتا آیا ہے۔ جنہیں اپنے ہاتھوں سے سب کچھ جاتا دکھائی دے رہا تھا وہ پہلے تو بے حواس سے دکھائی دیئے۔ پھر کچھ ہوش آیا تو انہیں فکر لاحق ہوئی کہ جرم اور لاقانونیت کی جو ''سلطنت‘‘ انہوں نے اپنا بہت کچھ، بلکہ تقریباً سب کچھ کھوکر بنائی ہے اسے برباد ہونے سے روکا جائے۔ فطرت کا قانون ہے کہ ہر عمل کا یکساں اور مخالف سمت میں ردعمل ہوتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والوں نے بگڑا ہوا آوا درست کرنے کی کوشش کی تو حیرت سے پلکیں جھپکانے والوں نے سہم کر آنکھیں بند کرلیں۔ اور کچھ وقت گزرنے پر اپنی ''سلطنت‘‘ بچانے کے لیے کسی نہ کسی طور کمر کَس کر میدان میں آگئے۔
کراچی کے بیشتر علاقے جرائم سے مکمل پاک ہوچکے تھے۔ جہاں سے گزرتے ہوئے لوگ دن کے وقت بھی ڈرتے تھے وہاں سے رات کے تین بجے بھی بلا خوف گزرنے لگے تو بدمعاشی اور جرائم کے ذریعے پرتعیّش زندگی بسر کرنے والوں کو خیال آیا کہ میدان میں آکر کچھ رنگ جمایا جائے ورنہ سارا رنگ اکھڑ جائے گا، پھیکا پڑجائے گا۔ اس خیال کے آتے ہی انہیں ایسا جوش آیا کہ اپنی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچانے کے لیے وہ کچھ بھی کر گزرنے پر تُل گئے۔
چند ماہ سکون سے گزرے تھے۔ اب پھر شہر کے متعدد علاقوں میں ''وارداتیے‘‘ دندناتے پھر رہے ہیں۔ بہت سے مقامات پر دن کے وقت لُوٹ مار کچھ اس انداز سے کی جارہی ہے کہ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے اس سے ہٹ کر بھی کچھ محسوس ہو رہا ہے۔ اسٹریٹ کرائمز ایک بار پھر جس انداز سے بڑھے ہیں وہ محض مال بٹورنے کی کوشش نہیں۔ معاملہ اس سے کچھ آگے کا دکھائی دے رہا ہے۔ جرائم کے ارتکاب کا گراف راتوں رات بلند کرکے بظاہر یہ پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جو تم سے بن پڑے وہ کرلو مگر ہم باز آنے والے نہیں۔ عوام کے ذہن کی دیواریں ایک بار پھر خوف سے رنگی جارہی ہیں۔ ایک بار پھر بے یقینی اور بے حواسی کا زہر خیالات کی رگوں میں اتارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ رات کی تاریکی میں بھی خوف سے نا آشنا ہوجانے والے شہریوں کو یاد دلایا جارہا ہے کہ کبھی تم دن کے اجالے سے بھی ڈرتے تھے اور وہ زمانہ پھر آسکتا ہے!
جن کے پیٹ میں سدا حرام کا مال گیا ہو اور جنہوں نے کبھی کماحقہ محنت نہ کی ہو وہ بھلا کیوں یہ برداشت کریں گے کہ انہیں ''معمول‘‘ کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جائے؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن کے خون میں اب غیر معمولی کام کرتے رہنے کی ادا سماگئی ہے وہ بھلا کس طور معمول کی زندگی بسر کرسکتے ہیں؟ جنہیں کبھی محنت کے ذریعے حلال رزق حاصل کرنے کی تربیت ہی نہیں دی گئی، ڈھنگ سے جینا تعلیم ہی نہیں کیا گیا وہ حساب کتاب کی زندگی کی طرف کیسے آئیں گے؟ اس مرحلے پر غلام محمد قاصرؔ خوب یاد آئے۔ کہتے ہیں ؎
کروں گا کیا جو محبت میں ہوگیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا!
جن کا مدار صرف جرائم کی کمائی پر رہا ہو وہ ہماری آپ کی طرح کیونکر جی سکیں گے؟ حرام کی کمائی میں جو چٹخارا ہے اُسے بچانے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اور جا ہی رہے ہیں۔ کراچی میں دس پندرہ دنوں میں اسٹریٹ کرائمز کی بڑھتی ہوئی وارداتیں اس امر کی گواہی دے رہی ہیں کہ چراغ بجھنے سے پہلے بھرپور تمکنت سے بھڑکنے کی تیاری کر رہا ہے۔ جن کے ہاتھوں میں شہر کو دوبارہ پرامن بنانے کا اختیار یا مینڈیٹ ہے اُنہیں نتائج کا سوچنا ہے نہ احتجاج سے متاثر ہونا ہے۔ جو کچھ کر گزرنا اب لازم ہے وہ کر گزرنا ہے۔ جن کے ہاتھوں شہر کا امن غارت ہوا، شہر کے مکینوں کا جینا حرام ہوا اور خوش حالی کی راہیں مسدود ہوئیں اُن کا مقسوم اس کے سوا کیا ہے کہ انہیں انہی کے مزاج میں پائی جانے والی سفّاکی سے ختم کردیا جائے۔ سیاسی سطح پر کسی ''پلی بارگین‘‘ کی بھی گنجائش نہیں۔ کوئی نہیں جس نے جرائم کی دنیا میں مجبوراً قدم رکھا ہو۔ سب سوچ سمجھ کر آتے ہیں، مال بٹورتے ہیں اور اپنی راہ لیتے ہیں۔ یہ اور کوئی کام کر ہی نہیں سکتے اِس لیے معافی کی کوئی گنجائش نہیں۔ معافی دے کر انہیں لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر بنانے کی کوشش نہ کی جائے۔
کراچی کے حالات درست کرنے کی ذمہ داری جنہیں سونپی گئی ہے انہیں بھی ثابت کرنا ہے کہ انہیں بھی اور کوئی کام نہیں آتا! یعنی دل چاہے کہ نہ چاہے، شہر کو معمول کی زندگی سے آشنا کرنے کے سوا آپشن نہیں۔ جنہیں قانون سے ٹکرانے کے سوا کچھ نہیں آتا انہیں حرفِ غلط کی طرح مٹا ڈالنے ہی میں معاشرے کی بقاء مضمر ہے۔ اس سیل کی راہ میں جو آئے اسے خس و خاشاک کی طرح بہا لے جانا ہے۔ ایسا ہونے ہی پر وہ ہوگا جس کی تمنا دلوں میں پنپتی رہی ہے اور جو ہونا ہی چاہیے۔