"MIK" (space) message & send to 7575

لگی بندھی سوچ کے کھمبے

سب کچھ بدل رہا ہے۔ ہمارے ماحول میں پتا نہیں کیا کیا داخل اور شامل ہو گیا ہے۔ نئے آلات کی بھرمار ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کے شاہکار ہیں کہ کمالات دکھانے پر تُلے ہوئے ہیں‘ اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم بھی نئی دنیائیں پیدا کرنے پر کمربستہ، بلکہ بضد ہیں۔ زندگی کو آسان سے آسان تر بنانے والی چیزیں تلاش کرنے کی عادت نے ایسی مشکلات پیدا کر دی ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ موڈ اور مزاج سے عادات تک سب کچھ اتنا بدل گیا ہے کہ کبھی کبھی تو اپنے آپ کو پہچاننا بھی مشکل ہو جاتا ہے! ہر وقت کچھ نیا تلاش کرنے کی لت ڈال کر میڈیا نے خبروں اور ان پر تبصروں یا تجزیوں کا ایسا چسکا لگایا ہے کہ ہر گھنٹے کے آغاز پر ہیڈلائنز دیکھنا اب غیر محسوس عمل ہو کر رہ گیا ہے۔ لوگ اب کھائے بغیر تو تین چار گھنٹے رہ سکتے ہیں، کسی طرح کی ''اپ ڈیٹ‘‘ کے بغیر ایک گھنٹہ گزارنا سوہانِ روح ٹھہرا ہے۔ سیل فون پر ایس ایم ایس کی گھنٹی بار بار بجتی ہے اور انہماک کے سلسلے کو تہس نہس کر دیتی ہے۔ 
ویسے تو خیر کیا کیا نہیں بدلا مگر ایک چیز ہے کہ نہیں بدلی یا بدل نہیں بدل پا رہی‘ اور اس کے نہ بدلنے سے وہ سب کچھ بے معنی سا ہے جو بدلا ہوا یا بدلتا ہوا سا دکھائی دے رہا ہے۔ ہم سیاسی شعور کی بات کر رہے ہیں۔ سیاسی تحرّک کے پرنالے اب تک وہیں بہہ رہے ہیں جہاں بہتے آئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاسی سطح پر ہر چیز، ہر بات نے تبدیل ہونے کی قسم کھا رکھی ہے۔
بلدیاتی انتخابات جمہوریت میں بنیادی یا سب سے نچلی سطح پر واقع ہوئے ہیں اور عوام نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ سیاسی شعور کے حوالے سے بھی آخری پائیدان پر ہیں‘ یعنی اب تک اونچا اٹھنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ ثابت کر گیا کہ عوام کی نفسی ساخت یعنی ذہن میں گڑے ہوئے کھمبوں کو اکھاڑنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ اس کے لیے تو شاید صدیوں کی کاوش درکار ہے۔
پاکستانیوں کے شوق بھی نرالے ہیں۔ زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کے چکر میں زیادہ سے زیادہ مشکل بناتے ہیں اور اس پر خوش بھی دکھائی دیتے ہیں۔ جب سے موبائل فون عام ہوئے ہیں اُن کے استعمال کی لت تو پڑی ہے سو پڑی ہے، ماڈلز تبدیل کرتے رہنے کا ٹرینڈ بھی ایسا چلا ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ ایک ماڈل خریدا جاتا ہے، ڈیڑھ دو یا ڈھائی تین ماہ استعمال کرکے بچی کھچی وارنٹی اور تھوڑے بہت خسارے کے ساتھ بیچا جاتا ہے اور نیا ماڈل خریدا جاتا ہے۔ ڈھائی تین ماہ بعد پھر یہی ہوتا ہے۔ بیشتر لوگوں اور بالخصوص نئی نسل نے موبائل فون کے ہر نئے ماڈل کو آزمانا اپنے آپ پر فرض کر لیا ہے۔ 
آپ سوچیں گے اِس میں بُرا کیا ہے۔ نئی ٹیکنالوجی سے مستفید تو ہونا ہی چاہیے۔ ٹھیک ہے مگر محض اِس قدر تو کافی نہیں۔ اس مرحلے سے آگے بھی بہت کچھ ہے۔ ہمیں ملا ہی کیا ہے؟ گنتی کی کچھ سانسیں۔ اور کیا یہ سانسیں اس لیے ملی ہیں کہ ہر وقت دل بہلانے میں لگے رہیں اور زندگی کا معیار بلند کرنے کے بارے میں نہ سوچیں؟ 
موبائل فون اس لیے نہیں ملے کہ ہم ان میں گم ہو کر رہ جائیں۔ بالکل اسی طرح جمہوریت بھی ہمیں دل بہلانے کے لیے نہیں ملی کہ اس سے کھیلیں، بلکہ کھلواڑ کریں۔ مگر وائے ناکامی کہ ہم ایسا ہی کر رہے ہیں۔ یعنی اس امر پر بضد ہیں کہ دنیا کہیں پہنچ جائے، ہم شعوری اعتبار سے وہیں کھڑے رہیں گے جہاں کھڑے ہیں۔ بلدیاتی نشستوں کے لیے حالیہ پولنگ سے کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ہم لگی بندھی سوچ کے گڑھے میں اُسی طرح گِرے ہوئے ہیں جس طور کسی گاڑی کا پچھلا پہیّہ گڑھے میں پھنسنے کے بعد محض گھومتا رہتا ہے، گاڑی آگے نہیں بڑھتی۔ رائے دہی کا حق ایک بار پھر اُسی طرح استعمال کیا گیا‘ جس طور استعمال کیا جاتا رہا ہے‘ یعنی کسی حقیقی تبدیلی کی راہ پر گامزن ہونے سے واضح طور پر اجتناب برتا گیا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ عوام کے ذہنوں میں کئی پرتوں پر مشتمل ایسا خوف جاگزیں ہے جس کا تدارک تو بعد کا مرحلہ ہے، تعبیر و تشریح بھی آسان نہیں۔ نفسی ساخت کی گہرائی میں کہیں بہت نیچے ایسے بہت سے گڑھے ہیں جو تحفظات اور خدشات سے بھرے ہوئے ہیں۔ لوگ گھروں میں کوئی معصوم سا جانور پالیں یا نہ پالیں، دلوں میں بھیانک اور عجیب النوع خوف ضرور پال رکھے ہیں۔ اور ہر خوف کو کسی نہ کسی بہانے اِس طور خوراک دیتے رہتے ہیں کہ وہ فربہ و توانا ہوتے جاتے ہیں۔ 
ہمارے سیاسی شعور کا عالم یہ ہے کہ ایک طرف نسلی تعصب ہے اور دوسری طرف برادری کی طرف جھکاؤ۔ نظریات اور مسالک کا باہمی تصادم بھی قدم قدم پر جلوہ فرما ہے۔ پھر طبقاتی فرق بھی تو اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ رونق افروز ہے۔ اور شہری و دیہی سوچ کے تفاوت کو آپ کیونکر نظر انداز کر پائیں گے؟ یعنی تحت الشعور کو بروئے کار لا کر بھرپور کوشش کی جا رہی ہے کہ کچھ رہ نہ جائے، کوئی چیز چھوٹ نہ جائے۔ 
ایک بار پھر وہی لوگ کامیاب ہو کر سامنے آئے ہیں‘ جو گفتار کے غازی ہیں، کردار کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ لوگوں نے پھر انہی کو اپنی حمایت سے نوازا‘ جنہیں پہلے بھی کئی بار نمائندگی کا شرف بخشا جا چکا ہے۔ جہاں جو جیتتا آیا ہے وہاں وہی جیتا ہے۔ سیاست میں تقسیم در تقسیم کا عمل صرف خرابیاں پیدا کرتا ہے‘ اور ہماری ''سیاسی بصیرت‘‘ کا عالم یہ ہے کہ آنکھوں دیکھی مکھیاں نگلے جا رہے ہیں یعنی ہر طرف سوچنے پر مجبور کرنے والے معاملات دیکھ کر بھی کچھ سوچنے کے لیے تیار نہیں۔ گویا گاڑی کے دونوں پچھلے پہیّے گڑھے میں ایسے پھنسے ہیں کہ انجن پوری طاقت سے انہیں گھما رہا ہے مگر گاڑی اپنے مقام سے ایک انچ بھی بڑھنے کی پوزیشن میں نہیں۔ 
سب کچھ دیکھ کر بھی نہ دیکھنا اور سمجھ کر بھی نہ سمجھنا اپنے حق میں انتہائے غضب کے سوا کیا ہے؟ ایک تو یہی مصیبت کیا کم ہے کہ حکومت سازی کے لیے رائے دہی کا موقع کم کم ملتا ہے‘ اور کبھی کبھار ملنے والے موقع کو ضائع کرنا؟ اسے کفرانِ نعمت نہ کہیے تو اور کیا نام دیجیے! اگر کسی حلقے میں اچھے خاصے باصلاحیت، باکردار اور پُرعزم امیدوار دکھائی بھی دیں تو لوگ انہیں نمائندہ بنانے کے مقابلے میں انہی کو ووٹ دینا پسند کرتے ہیں جو عشروں سے نمائندگی کے منصب پر فائز رہے ہیں مگر اب تک ایسا کچھ نہیں کیا جو حالات اور معاملات کو درست کرنے کی راہ ہموار کرتا ہو۔ 
جمہوریت خواہ کسی شکل میں ہو، ہمیں تبدیلی کا بہترین موقع عنایت کرتی ہے۔ اس موقع سے کماحقہ مستفید ہونا اور رائے دہی کے حق کو احسن طریقے سے بروئے کار لانا ہمارے بس کی بات ہے۔ پولنگ خواہ کسی سلسلے کی ہو، قدرت کا انعام اور امانت ہے۔ اپنے حالات بدلنے کا اس سے اچھا موقع کیا ہو سکتا ہے کہ بیلٹ پیپر پر اپنی مرضی کے مطابق نشان لگائیے؟ رائے دہی کے حق کو عملاً زندگی بدلنے کا ہنر بناکر اپنی رائے بیلٹ بکس میں ڈالنے کا عمل بے اعتنائی نہیں بلکہ بھرپور توجہ اور دیانت کا طالب ہوا کرتا ہے۔ نمائندگی کے لیے بہترین افراد کے انتخاب سے آپ کو کس نے روکا ہے؟ 
پولنگ بلدیاتی اداروں کے لیے ہو یا صوبائی و وفاقی سطح کے اداروں کے لیے، آپ کو حالات کے بدلنے کا بھرپور موقع ملتا ہے اور اس موقع سے پوری طرح مستفید ہونا آپ کے اختیار میں ہے۔ اگر نظام کو بدلنا ہے تو اہل لوگوں کو اپنانا ہو گا۔ ہر طرح کا جھکاؤ ایک طرف ہٹا کر صرف حقیقت پسندی کے دائرے میں رہتے ہوئے سوچنا ہو گا۔ تبھی معاشرہ مثبت تبدیلیوں سے ہمکنار ہو گا اور معاملات اصلاح کی طرف بڑھیں گے۔ 
پورے جوش و جذبے کے ساتھ پولنگ میں حصہ لینا ہی کافی نہیں، یہ بات بھی یقینی بنانا ہو گی کہ متعلقہ ایوان میں وہی لوگ پہنچیں جن کی نیت میں اخلاص ہو اور جو اپنی کمیونٹی یعنی حلقے کے لوگوں کے لیے کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہوں۔ زبان، نسل، برادری یا عقیدہ و مسلک کی بنیاد پر فیصلہ کرنے سے خرابیاں دور نہیں ہوں گی، پیچیدہ تر ہوتی جائیں گی۔ لگی بندھی سوچ کے جو کھمبے ذہنوں میں مضبوطی سے گڑے ہوئے ہیں اُنہیں اکھاڑے بغیر ہم آگ نہیں بڑھ پائیں گے۔ قدم قدم پر یہ کھمبے ہماری راہ کی دیوار بن جاتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ محدود سوچ کے ان کھمبوں کو اکھاڑا جائے اور خدشات کی فصل جڑ سے کھرچ کر پھینکی جائے تاکہ ذہن کی زمین کو نئی، بارآور اور منافع بخش فصل کے لیے تیار کیا جا سکے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں