"MIK" (space) message & send to 7575

’’دِلیرانہ‘‘ آئے، صدا کر چلے

ہر طرف ایک ہنگامہ برپا ہے، گام گام شور و غل ہے جو دل و دماغ کو ہیجان میں مبتلا رکھتا ہے۔ ویسے تو خیر ہر انسان کو کچھ نہ کچھ کرتے ہی رہنا چاہیے کہ یہی زندگی کی بنیاد ہے‘ مگر شور؟ کچھ کرنے کا شور سے کیا تعلق؟ قدم قدم پر علامہ اقبالؔ یاد آتے ہیں‘ جنہوں نے ایک دل خراش حقیقت کی طرف اشارا کرتے ہوئے کہا تھا: ع 
سُکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں 
مگر پھر خیال آتا ہے کہ محال قرار دینے کے معاملے میں علامہ صرف سُکون کی منزل پر کیوں رک گئے؟ اور بھی بہت کچھ ہے جس کا پانا یا برقرار رکھنا اب محال ہو کر رہ گیا ہے۔ اور سب کچھ ایک طرف، فی الحال صرف انہماک کا سوچیے۔ کیا آپ کے لیے اب کسی بھی معاملے میں جامع اور قابل رشک انہماک ممکن رہا ہے؟ کیا آپ ایک طرف بیٹھ کر کسی بھی معاملے پر پوری ذہنی توانائی کے ساتھ اور مکمل منہمک ہوکر غور کر سکتے ہیں؟ 
علامہ ہی نے کہا تھا ؎ 
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سُراغِ زندگی 
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن 
علامہ کی بات غلط کیسے ہو سکتی ہے؟ ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ کسی اور کے بنیں یا نہ بنیں، اپنے تو بن ہی جائیں۔ مگر کوئی ایسا ہونے تو دے، ہمیں ایسا کرنے تو دے۔ جب بھی ہم اپنے من میں ڈوب کر سُراغِ زندگی پانے کی کوشش کرتے ہیں، کوئی نہ کوئی صدائے دل خراش فضا میں بلند ہو کر کان کے سُوراخ سے ہوتی ہوئی دماغ تک پہنچ کر ہمارے انہماک کو ڈس لیتی ہے۔ 
خلا نورد بیان کرتے ہیں کہ خلا میں کہیں کوئی صدا نہیں، ہر طرف سنّاٹے کا راج ہے۔ خلا میں کوئی صدا ہو بھی کیسے سکتی ہے؟ کائنات بھر کا شور اور ہنگامہ تو زمین کے نصیب میں لکھ دیا گیا ہے! زمین پر ہر آن ہنگامہ برپا ہے اور باقی کائنات خاموشی کا لبادہ اوڑھے چَین کی بنسی بجا رہی ہے۔ 
جنگل پر بہت بُرا وقت آیا ہوا ہے کہ ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں اُسے بات بات پر جنگل قرار دینے کا رواج سا چل پڑا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں جنگل کا قانون نافذ ہے۔ ہم ایسی کسی رائے کی تائید نہیں کر سکتے کیونکہ جنگل میں بہرحال کچھ نہ کچھ اُصول ہوتے ہیں جن پر عمل بھی کیا جاتا ہے! کبھی کہا جاتا ہے کہ ہم جنگلی جانوروں جیسے رویّوں کے حامل ہوتے جا رہے ہیں۔ جنگلی جانور بھی چند ایک معاملات میں اپنی حدود جانتے اور سمجھتے ہیں اور ان سے تجاوز نہیں کرتے۔ اس لیے انسانی رویّوں کو حیوانی رویّوں سے مماثل قرار دینا بے زبان جانوروں پر تمہت کے سوا کچھ نہیں! 
ہاں، اگر ہم اپنے معاشرے کو آوازوں کا جنگل قرار دیں تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ قدم قدم پر کوئی نہ کوئی ایسی صدا اُبھرتی ہے جس کی ہیبت ناکی دل و دماغ کو کچھ کا کچھ بنا دیتی ہے۔ خاموشی کے چند لمحات حاصل کرنا یا برقرار رکھنا اب جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیا ہے۔ یہ بھی محاورتاً اور مروّتاً ہی کہہ رہے ہیں تاکہ جوئے شیر کی کچھ لاج رہ جائے ورنہ سچ تو یہ ہے کہ جُوئے شیر لانا اب بہت آسان ہے اور چند پُرسُکون لمحات کا حصول؟ ع 
جان پر بن آئے گی، کوشش تو کرکے دیکھیے 
اب یہی دیکھیے کہ آپ کوئی کتاب ہاتھ میں لیے بیٹھے ہیں اور مطالعے میں ایسے غرق ہیں کہ کھانے کا ہوش باقی رہا ہے نہ پینے کا۔ ہر کتاب ایک الگ دنیا کے مانند ہوتی ہے۔ جو پورے انہماک کے ساتھ اِس دنیا میں قدم رکھتا ہے وہ اِسی کا ہو رہتا ہے۔ آپ بھی کتاب میں گم ہیں اور ذوقِ مطالعہ سے خوب محظوظ ہو رہے ہیں کہ اچانک ایک تیز آواز اُبھرتی ہے۔ چند لمحات تک تو آپ کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ہوا کیا ہے۔ پھر خیال آتا ہے کہ کہیں کسی نے کسی کو چُھرا تو نہیں گھونپ دیا۔ آپ گھبرا کر کتاب ایک طرف رکھتے ہیں، کھڑکی تک پہنچتے ہیں اور جھانک کر دیکھتے ہیں تو گلی میں ایک ٹھیلا دکھائی دیتا ہے جس پر بُھوسی ٹکڑوں کا ڈھیر محشر کی سی افراتفری کا منظر پیش کر رہا ہے‘ اور ٹھیلے کے ڈرائیور صاحب پھیپھڑوں کی پوری قوت سے صدا لگا کر اہل محلّہ کو بُھوسی ٹکڑوں سے جان چُھڑانے کی تحریک دے رہے ہیں۔ 
سبزی اور پھل بیچنے والے بھی اپنے اپنے ٹھیلوں کے ساتھ گلی میں داخل ہو کر آپ کے دروازے تک آتے ہیں اور پورا کھیت یا باغ آپ کی دہلیز پر ڈھیر کر دیتے ہیں۔ اور دام پوچھیے تو بہت معصومانہ انداز سے ایسا جواب دیتے ہیں کہ آپ کو بے ساختہ فیضؔ یاد آ جاتے ہیں جنہوں نے کہا تھا ع 
پیو کہ مفت لگا دی ہے خونِ دل کی کشید 
اور جب دام بیان کرنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو آپ کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ اب آپ کے خونِ دل کی کشید کون پینا پسند کرے گا! رعایت طلب کیجیے تو دام میں کچھ اِس طرح کی کمی کی جاتی ہے کہ حاتم طائی کی رُوح سُن لے تو شرمندہ ہو کر پھر جان دے دے! 
آپ کے انہماک کی رہی سہی مِٹّی پلید کرنے کے لیے صدا بھی ایسی لگائی جاتی ہے کہ دو تین بار سُننے پر بھی کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ جب تجسّس کا دریا طغیانی پر آتا ہے تو آپ مجبور ہو کر پھر کھڑکی سے گلی میں جھانکتے ہیں تاکہ اموال دیکھ تو لیں، سمجھ تو لیں۔ آپ یہ سوچ کر خوش ہوتے ہیں کہ چلیے، پاؤ ڈیڑھ پاؤ انگور خرید کر بن پیے کچھ خُمار آلود ہو لیں گے مگر گلے میں کھڑے ہوئے ٹھیلے پر کھوپرے کی قاشیں آپ کا منہ چڑا رہی ہوتی ہیں۔ 
ایک زمانہ تھا کہ دروازے پر لگی ہوئی گھنٹی گھر کا سُکون غارت کرنے کے لیے کافی تھی۔ اب خیر سے ٹی وی کے ڈرامے ہیں بھی جن کے کرداروں کا ''اندازِ تکلّم‘‘ دل دہلاتا ہے اور ذہن کو منتشر کرکے دم لیتا ہے۔ ساتھ ہی صدا بردار وڈیو گیمز ہیں جن کا الگ ہی ٹائپ کا شور بچوں کو حیران اور بڑوں کو پریشان کرتا ہے۔ اور پھر موبائل فون بھی تو ہیں جن پر آنے والے ایس ایم ایس کی گھنٹی سکول کے گھنٹے کی طرح طرح سَر پر دَھنا دَھن برستی ہی رہتی ہے۔ 
میر تقی میرؔ بھی کیا اچھے زمانے میں پیدا ہوئے تھے کہ ماحول قدرے خاموش اور پُرسُکون تھا۔ صدائیں کم کم تھیں اور جو تھیں اُن میں ترحّم کا سمندر موجزن رہتا تھا۔ کوئی صدا اُبھرتی بھی تھی تو اُس میں خلوص اور حِلم نمایاں ہوتا تھا۔ اِسی لیے تو میرؔ نے کہا تھا ؎ 
فقیرانہ آئے، صدا کر چلے 
میاں خوش رہو، ہم دعا کر چلے 
وہ میرؔ کا نصیب تھا کہ لوگ گلی میں فقیرانہ آتے تھے اور صدا لگا کر خوش رہنے کی دعا دیتے ہوئے رخصت ہوتے تھے۔ ایک ہم ہیں کہ گھر کی حدود میں بھی سُکون میسر نہیں کہ لوگ ''دِلیرانہ‘‘ آتے ہیں اور دھڑلّے سے صدا کرکے سمع خراشی کا باعث بنتے ہیں! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں