"MIK" (space) message & send to 7575

غضب ڈھاتی تکیہ کلامی

بولنے کی صلاحیت صرف انسان کو ملی ہے۔ اور صلاحیت کیا ملی ہے، بس یہ سمجھ لیجیے کہ ایک قیامت ہی تو ہے جو برپا ہوگئی ہے۔ دل چاہے یا نہ چاہے اور ذہن ساتھ دے یا نہ دے، بولتے رہنا انسانی فطرت ہے۔ اور کبھی کبھی تو بعض لوگوں کو بولنے میں مصروف دیکھ کر کچھ اندازہ نہیں ہو پاتا کہ وہ کھانے پینے کے لیے وقت کیسے نکال پاتے ہوں گے! منہ فارغ ہو تو کچھ کھایا پیا جائے ناں! ہم نے محسوس کیا ہے کہ بہت سے جانور بولنے کی صفت کا بے دریغ استعمال دیکھ کر سہم جاتے ہیں اور یقیناً وہ اپنی بے زبانی پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوں گے! گفتگو اس کیفیت کو کہتے ہیں جس میں دو افراد خیالات کا تبادلہ کر رہے ہوں یا پھر ایک دوسرے کے سوالات کے جواب دے رہے ہوں۔ یہاں حالت یہ ہے کہ گفتگو کے نام پر کوئی ایک فریق ہی بولتا رہتا ہے۔ 
اب ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ کوئی مستقل بولے اور کسی تکنیک کا سہارا نہ لے۔ بس، یہیں سے تکیہ کلام کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ اپنے آپ پر لازم سا ٹھہرالیتے ہیں کہ گفتگو کے دوران کسی ایک لفظ یا چند الفاظ کا سہارا لیں تاکہ بات اِدھر سے اُدھر ہونے کے بجائے پٹڑی پر رہے۔ اس لفظ یا الفاظ کو تکیہ کلام کہا جاتا ہے۔ جس طرح قوّالی میں ٹیپ کا مصرع ہوتا ہے جو بار بار آتا ہے بالکل اُسی طرح بہت سے لوگوں کی گفتگو میں تکیہ کلام بھی ٹیپ کے مصرع کا کردار ادا کرتا ہے۔ یعنی بات گھوم پھر وہی پر آجاتی ہے جہاں سے چلی ہوتی ہے۔ گویا ؎ 
ہے انتہائے یاس بھی اِک ابتدائے شوق 
پھر آگئے وہیں پہ چلے تھے جہاں سے ہم 
تکیہ کلام بہت سے لوگوں کی نفسی ساخت کا حصہ بن کر رہ جاتا ہے۔ کبھی اس کا استعمال امرت کا کام کرتا ہے اور کبھی یہ ناقابل تریاق زہر بن جاتا ہے۔ جس طرح محض قافیہ ملانے سے شعر مکمل نہیں ہوتا بلکہ ردیف کو بھی نبھانا پڑتا ہے بالکل اُسی طرح تکیہ کلام بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اُس کا نِبھانا جی کا جنجال ہوجائے۔ 
لوگ اپنی گفتگو میں تکیہ کلام استعمال کرتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ اِس کا اثر کہاں تک جائے گا۔ جس طور کبھی کبھی شعر میں ردیف نہیں نِبھتی اور شعر کا بیڑا غرق کردیتی ہے بالکل اُسی طرح تکیہ کلام بھی گل و بلبل کے اچھے خاصے قصے کو دشتِ ویراں کے افسانے تک پہنچاکر دم لیتا ہے۔ کچھ لوگ بات بات پر ''ابے رہنے دے‘‘ کہتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی اُن کے سامنے کہتا ہے ''کھانا کھاکر جانا، بریانی منگوا رہا ہوں‘‘ اور جواب میں یہ کہتے ہیں ''ابے رہنے دے‘‘ ... اور میزبان واقعی رہنے دیتا ہے یعنی آتی ہوئی بریانی رُک جاتی ہے! 
بہت سے لوگ بات بات پر ''قسم اللہ کی‘‘ کہنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اس تکیہ کلام سے تنگ آکر اگر کوئی ٹوک دے اور کہے کہ بات بات پر اللہ کی قسم نہیں کھانی چاہیے تو یہ فوراً کہتے ہیں ... ''آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں، قسم اللہ کی!‘‘ یعنی باز نہیں آتے۔ اگر زِچ ہوکر آپ ڈانٹنے کے انداز میں ٹوکیں تو کہتے ہیں ... ''اب اللہ کی قسم نہیں کھاؤں گا، قسم اللہ کی!‘‘ 
''کمال ہوگیا‘‘ بھی بے حد مقبول تکیہ کلام کا درجہ رکھتا ہے۔ بعض مواقع پر یہ تکیہ کلام تازیانہ بن کر برستا ہے۔ اس تکیہ کلام کے حامل افراد جب کسی کے ہاں ولادت کی خبر سُنتے ہیں تو عادت سے مجبور ہوکر کہتے ہیں ... ''کمال ہوگیا!‘‘ لوگ سمجھاتے رہ جاتے ہیں کہ اِس میں کمال کیسا، یہ تو دنیا بھر میں ہو رہا ہے! 
بعض لوگ بات بات پر ''حد ہوگئی‘‘ کہنے کی کوئی حد مقرر نہیں کرتے۔ اُنہیں کچھ اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ لفظ ''حد‘‘ کی مار کہاں تک ہے۔ کوئی بہت دیر سے آئے تو کہا جاتا ہے حد ہوگئی۔ کوئی بہت پہلے آجائے تب بھی حد ہوگئی۔ اور اگر کوئی مقررہ وقت پر وارد ہو تب بھی کہا جاتا ہے ... ''یار، تم تو بالکل وقت پر آگئے۔ حد ہوگئی!‘‘ 
کچھ لوگ بات بات پر ''دیکھو ذرا‘‘ کی گردان کرتے رہتے ہیں۔ فریق ثانی قدم قدم پر چونک پڑتا ہے کہ کیا کیا اور کب تک دیکھے! 
''دیکھ لیں گے‘‘ کے الفاظ بھی کچھ لوگ دھڑلّے سے استعمال کرتے ہیں۔ جہاں گھپ اندھیرا ہو اور ہاتھ کو ہاتھ سُجھائی نہ دے رہا ہو وہاں بھی یہ لوگ مزے سے کہہ دیتے ہیں ... ''دیکھ لیں گے!‘‘ اور سُننے والا اپنے ظاہر و باطن دونوں طرح کے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتا رہ جاتا ہے۔ 
''ابے رہنے دے‘‘ جیسے چند اور تکیہ ہائے کلام بھی ہیں جو مفادات کو نقصان پہنچاکر، بلکہ اُن کا بوریا بستر گول کرکے دم لیتے ہیں۔ مثلاً کچھ لوگ بات بات پر ''لعنت بھیج یار‘‘ جیسے الفاظ پر مشتمل تکیہ کلام استعمال کرکے اپنے لیے بہت سی راہیں بند کرلیتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے اگر پوچھیے کہ کیا کھانا پسند کریں گے تو اِن کے منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے لعنت بھیج یار! کبھی کبھی یہ تکیہ کلام ایسی صورتِ حال پیدا کر بیٹھتا ہے کہ لوگ اِن پر لعنت بھیج کر سُکون کا سانس لیتے ہیں! 
ہمارے احباب میں بھی تکیہ کلام کا تنوّع خوب پایا جاتا ہے۔ عمران راؤ ہی کی مثال پیش ہے۔ موصوف چونکہ دیہی پس منظر کے حامل ہیں اِس لیے بات بات پر دیہی ماحول کو گفتگو میں لے آتے ہیں اور وہ بھی تکیہ کلام کے ذریعے۔ کوئی بھی ایسی ویسی بات ہو جائے تو یہ فوراً ایک ایسے جانور کا نام لیتے ہیں جس کے دودھ پر ہم انسان پلتے آئے ہیں! ہم نے بارہا نوٹ کیا ہے کہ کسی بھی ایسی ویسی بات پر عمران راؤ کے منہ سے بے ساختہ ''بھینس کا منہ‘‘ کے الفاظ برآمد ہوتے ہیں! 
عمران راؤ کے تکیہ کلام پر ہمیں حیرت ہے۔ اِس معاشرے کا کمال یہ ہے کہ جو محنت کرتا ہے، خدمت انجام دیتا ہے اُسی کا بینڈ بجایا جاتا ہے۔ گدھا شکایت کیے بغیر، اوور ٹائم مانگے بغیر، بیوی بچوں کی بیماری کا بہانہ بنائے بغیر کام کرتا رہتا ہے تو اُس کا احسان ماننے کے بجائے ہر ہڈ حرام، مفت خور اور احمق کو گدھے سے تشبیہ دی جاتی ہے! یہی سُلوک بے چاری بھینس کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ کسی سے کوئی گِلہ شِکوہ نہیں کرتی مگر اِس پر بھی اُسے خراجِ تحسین پیش کرنے اور کوئی ایوارڈ دینے کے بجائے کسی بھی بے ڈھنگی صورتِ حال کو ''بھینس کا منہ‘‘ قرار دے کر احسان فراموشی کا ثبوت فراہم کیا جاتا ہے! 
عمران راؤ اکثر صرف سالن لے کر دفتر آتے ہیں۔ جب لوگ پوچھتے ہیں روٹیاں کیوں نہیں ہیں تو وہ ''بس یار کیا بتاؤں، بھینس کا منہ‘‘ کہہ کر چُپ ہوجاتے ہیں! یہ ایک جملہ اُس دن کے پورے گھریلو ماحول کو بیان کر ڈالتا ہے! اِسی طور کبھی اُن کی توجہ اُنہی کی کسی غلطی کی طرف دلائیے تو کہتے ہیں ... بس یار! پتا نہیں دماغ کہاں تھا، بھینس کا منہ! اور ہم سب اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں! 
ہم نے گھر میں تو خیر بہت سے تکیے رکھ چھوڑے ہیں جن پر ہمارا سَر تکیہ کرتا ہے مگر گفتگو کے لیے ہم نے کبھی کوئی تکیہ خریدا نہ پروان چڑھایا۔ ہمارا ''گفتگوئی کلام‘‘ کسی بھی طرح بے ہودہ یا ''باہودہ‘‘ تکیہ کلام کا محتاج نہیں۔ بعض احباب کا خیال ہے کہ ہم اپنے کالموں سے تکیہ کلام کا کام لے رہے ہیں! کبھی کبھی ہمیں اُن کی بات درست معلوم ہونے لگتی ہے! مگر خیر، ہم نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ تکیہ کلام ہوتا اور اُس پر کوئی اعتراض ہوتا تو ہم اجتناب برتنے کا سوچتے۔ کالم کے معاملے میں ہم پُختہ خیالی کے درجے پر فائز ہیں یعنی کوئی کسی بھی پیرائے میں اعتراض کر دیکھے، ہم کالم لکھنے سے ہرگز اجتناب نہ برتیں گے! ؎ 
اے شہر کے لوگو! جان لو، ہم ''لِکھنے‘‘ سے باز نہ آئیں گے
تم جتنے زخم لگاؤگے ہم اُتنے جشن منائیں گے! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں