ہر معاملے اور ہر بات کی کوئی نہ کوئی حد ضرور ہوتی ہے اور جب وہ حد آجائے تو آگے بڑھنا جہالت کے سِوا کچھ نہیں ہوتا۔ جس طور کسی بھی معاملے میں حد سے گزرتے رہنے کی ایک حد ہوا کرتی ہے بالکل اسی طرح کسی بھی معاملے کو سہتے رہنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ اب وہ حد آگئی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جو کچھ ہوتا آیا ہے اس کی بھی ایک نہ ایک حد تو تھی ہی۔ معاملات نے جو رخ اختیار کیا ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا دشوار نہیں کہ اب ایک نئی راہ پر گامزن ہونے کا وقت آگیا ہے۔
نریندر مودی نے جو سفارتی مہم جُوئی کی ہے اس کے حوالے سے تبصروں کے چراغ جل اٹھے ہیں، بلکہ چراغ سے چراغ جلائے جارہے ہیں۔ اور یہ فطری امر ہے۔ ہم میڈیا کے دور میں جی رہے ہیں۔ جب سبھی کچھ میڈیا کی مٹھی میں ہے تو سیاست و سفارت جیسا اہم معاملہ بھلا کیونکر نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ اور معاملہ بھی ایسا جیسے بِلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ گیا ہو! مودی کی محض دو گھنٹے کے لیے لاہور آمد میڈیا پر چھاگئی ہے۔ تبصروں اور تجزیوں کی جھڑی لگ گئی ہے۔ اور کیوں نہ لگے؟ مودی نے جو کچھ کیا وہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان معاملات جس طور چل رہے ہیں اس کی روشنی میں اس نوعیت کے اقدام کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔
سوال یہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نے جو کچھ کیا اسے مثبت کیوں نہ لیا جائے۔ ہر معاملے کو نفی اور انکار کے زمرے میں رکھنے کی عادت نے ہمیں اب اس قابل نہیں چھوڑا ہے کہ کسی بھی اقدام کا کوئی مثبت پہلو تلاش کرنے پر مائل ہوں۔ ریاست کو چلانا بچوں کا کھیل نہیں اور سنجیدگی کا متقاضی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مخاصمت، کشیدگی، دشمنی اور لڑائی کی تاریخ ہے۔ اب تک تین باضابطہ جنگیں لڑی جاچکی ہیں۔ سوچنے والے سوچ سکتے ہیں کہ پہلی کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری جنگ کا بھی کسی نے نہ سوچا ہوگا۔ تو پھر چوتھی کا کیوں نہ سوچا جائے؟ مگر اہم تر سوال یہ ہے کہ جنگ ہی کو آپشن کی حیثیت سے سامنے کیوں رکھا جائے۔ جب دنیا بھر میں قربت کی ہوائیں چل رہی ہیں تو پاکستان اور بھارت کیوں حالتِ جنگ کی سی حالت میں رہیں؟ تین جنگوں نے اتنا تو بتا اور سِکھا ہی دیا ہے کہ جنگ سے کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا۔ اور آئندہ بھی کوئی جنگ ہوئی تو نتیجہ وہی برآمد ہوگا جو اب تک برآمد ہوتا آیا ہے یعنی معاملات مزید خرابی کی طرف جائیں گے۔ معاملہ یہ ہے کہ معاملات صرف عوام کے لیے خراب ہوتے ہیں۔ جنگ ہو یا سرد جنگ، خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ دو یا اس سے زیادہ ممالک کو جنگ کی بھٹی میں جھونکنے والوں کو کچھ نہیں بگڑتا۔ ان کی جیبیں بھری رہتی ہیں، گڈی اونچی ہی اڑتی رہتی ہے۔
پاکستان اور بھارت دونوں ہی کی سیاست میں ایسے عقاب پائے جاتے ہیں جو خود بھی مخاصمت اور تصادم کی فضاء میں سانس میں لیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک بھی اِنہی فضاؤں میں پرواز کریں۔ ان کے پَر کترنے کی کوششیں اب تک نمایں حد تک بارآور ثابت نہیں ہوئیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ عوام کا مزاج بھی انتہا پسند بنادیا گیا ہے۔ وہ بھی اب سیاسی عقابوں ہی کی طرح سوچتے ہیں اور لڑنے بِھڑنے ہی کو زندگی کا مقصد سمجھ بیٹھے ہیں۔
اصل مسئلہ پیراڈائم شفٹ کا ہے یعنی سوچنے کا پورا ڈھنگ اور ڈھانچا ہی بدلنا پڑے گا۔ یہ کوئی ایسا کام نہیں کہ جادو کی چھڑی گھمائیے اور ہوجائے۔ راتوں رات کچھ بھی تبدیل نہیں ہوتا اور وہ بھی اقوام کی سوچ اور مزاج؟ اللہ کی پناہ۔ اقوام کے مزاج کو تبدیل ہونے کے لیے صدیاں درکار ہوا کرتی ہیں۔ اس وقت پاکستان اور بھارت کو جس بنیادی مسئلے کا سامنا ہے وہ یہی پیراڈائم شفٹ کا ہے۔ دنیا بدل گئی ہے مگر ہماری سوچ وہیں کی وہیں کھڑی ہے۔ دونوں ممالک کے سیاسی عقاب ایک دوسرے کو ناقابل قبول قرار دینے پر تُلے ہوئے ہیں اور رائے عامہ پر بُری طرح اثر انداز ہوکر معاملات کو اپنے حق میں کیے ہوئے ہیں۔ بھارت میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے لیے پاکستان سے بڑا ''ملچھ‘‘ کوئی نہیں۔ اور اِدھر پاکستان میں بھی دائیں بازو ہی کے شدت پسند اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بھارت سے دوستی کئی اعتبار سے غداری کے مترادف ہے۔ ان کے خیال میں بھارت کو ختم یا تتر بتر ہوجانا چاہیے۔
نریندر مودی کی لاہور آمد پر حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس نے بھی خاصا شور مچایا ہے۔ کانگریس کے ترجمان منیش تیواری کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کو امن کے مچّھر نے کاٹ لیا ہے اور اب وہ امن کا نوبل انعام حاصل کرنے کے فراق میں ہیں! منیش تیواری کے اس جملے کا اس کے سِوا کیا مفہوم اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کو کسی بھی حالت میں پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور امن کی بات تو بالکل نہیں کرنی چاہیے! گویا خون خرابے کا سلسلہ جاری رکھنے کے حق میں آواز بلند کرنے والے متحرک ہیں اور نہیں چاہتے کہ مودی اور نواز شریف مل کر امن کو ایک موقع اور دیں۔
بھارت سے دوستی، مفاہمت اور امن کی خواہش رکھنا اور اس حوالے سے متحرک ہونا اچھی بات ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خوش فہمی اور خوش گمانی کے گڑھے میں گِر جائیے۔ بھارت کی پالیسیاں بھی راتوں رات تبدیل ہونے والی نہیں۔ دوستی کے شادیانوں کی صدائیں اپنی جگہ مگر ان کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں تلخی اور بدگمانی کی گونج بھی باقی رہے گی۔ بھارت سے تعلقات بہتر بناتے وقت غیر معمولی احتیاط اور توازن شرط ہے۔
بھارت سے تعلقات معمول پر لانے کے مخالفین یہی دلیل دیتے ہیں کہ بھارت سے ہر معاملے میں بہتری کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ یہ سب کچھ درست سہی مگر پھر بھی دوستی کو بھول کر صرف دشمنی کا راگ الاپا نہیں جاسکتا۔ عملی سطح پر یہ شدید نقصان دہ ہے۔ تین جنگیں لڑ کر بھی اگر ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا تو ہمارے افکار و اعمال سب لاحاصل ہی رہیں گے۔
اچھا ہے کہ پاکستان اور بھارت کی منتخب قیادت کو امن کا مچّھر کاٹے بلکہ زور سے کاٹتا رہے۔ اکیسویں صدی میں ہر ریاست کے لیے سب کچھ بدل چکا ہے۔ چند روزہ لڑائی پوری ریاست کو عشروں پیچھے دھکیل سکتی ہے۔ ایسی کسی بھی صورت حال کا اب پاکستان متحمل ہوسکتا ہے نہ بھارت۔ اور بھارت کا معاملہ تو یہ ہے کہ امن اور استحکام اس کی مجبوری ہے۔ عشروں کی محنت کے بعد وہ اپنی معیشت، سیاست اور سفارت کو ایک قابل رشک مقام تک لانے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ ایسے میں مخاصمت اور کشیدگی کی فضاء پورے خطے کو کم اور بھارتی معیشت و سیاست کو زیادہ نقصان پہنچائے گی۔ علاقائی سطح پر سب سے بڑی معیشت ہونے کا ہدف حاصل کرنے کے بعد اب بھارتی قیادت چاہتی ہے کہ عالمی سیاست میں بھی کچھ ڈھنگ کی طبع آزمائی کی جائے۔ ایسے نازک مرحلے میں پاکستان سے مخاصمت اور کشیدگی؟ توبہ کیجیے، اس کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
اگر مودی کو امن کے مچّھر نے کاٹا ہے تو کچھ حیرت کی بات نہیں۔ پاکستان کا کچھ زیادہ داؤ پر نہیں لگا ہوا۔ گوٹ بھارت کی پھنسی ہوئی ہے۔ اب یہ ہماری قیادت پر منحصر ہے کہ گوٹ پھنسنے پر امن کی بات کرنے والے بھارت سے کیا اور کتنا کشید کرسکتی ہے!
جو لوگ مودی کی آمد کو نجی سطح کا معاملہ قرار دے رہے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ریاستی امور میں کچھ بھی نجی یا انفرادی نہیں ہوتا۔ مودی خطے کے سب سے بڑے ملک کے وزیر اعظم ہیں اور ان کی لاہور آمد کو اِسی تناظر میں دیکھنا حقیقت پسندی کا مظہر ہوگا۔ سیاسی عقابوں کے لیے سوچ بدلنے کا نہیں، ترک کرنے کا وقت ہے۔ اب انہیں دوستی اور مفاہمت کی فضاء میں اُڑنے کا فن سیکھنا ہے کہ وقت کا یہی تقاضا ہے۔ اور جو وقت کا تقاضا سمجھنے کے لیے تیار نہیں اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ع
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں!