محتاط اور قریب ترین اندازے کے مطابق اس وقت دنیا کی آبادی 7 ارب 40 کروڑ ہے۔ یہ زمین ہی کا ظرف، حوصلہ اور کمال ہے کہ انسانوں کو سینے سے لگا رکھا ہے یعنی اِس کشش کے بندھن کو توڑنا انسان کے لیے ممکن نہیں ہو پایا ہے۔ اگر زمین میں یہ کشش، یہ قوتِ تجاذب نہ ہوتی تو جب جی میں آتا تب زمین سے دامن چُھڑاکر انسان نظامِ شمسی میں اور اس سے باہر خدا جانے کہاں کہاں کتنا اور کیسا فساد برپا کرتا پھرتا! کائنات کو نہ سہی، کم از کم نظامِ شمسی کے دیگر سیّاروں کو تو زمین کا شکر گزار ہونا ہی چاہیے!
مقناطیس کا ذکر اس لیے ہو رہا ہے کہ امریکہ میں ایک شخص کے جسم میں حیرت انگیز طور پر مقناطیسی قوت پیدا یا بیدار ہوگئی ہے۔ جیمی کیٹون حیران، خوش اور پریشان ہے۔ جسم میں مقناطیسی قوت کا پیدا ہوجانا حیرت انگیز ہے۔ اس خاصیت سے شہرت مل رہی ہے اس لیے وہ بہت خوش ہے۔ اور پریشان اس لیے ہے کہ بہت سی دھاتی اشیاء خواہ مخواہ اس کی طرف کھنچی چلی آتی ہیں۔ جس طور دنیا بھر کے لوگ امریکہ کی طرف کھنچے جاتے ہیں بالکل اُسی طرح دھاتی اشیاء جیمی کیٹون کے جی کا روگ ہوگئی ہیں، بالخصوص پِن، سُوئی اور دیگر چھوٹے آئٹم۔ مشروب کے خالی کین اس کے سر سے چپک جاتے ہیں۔ یہی حال دوسری ہلکی پھلکی دھاتی اشیاء کا ہے۔ جس طور دنیا بھر کے تجزیہ کار اب تک امریکی پالیسیوں کی اصل جاننے میں ناکام رہے ہیں اُسی طور جیمی کیٹون کے جسم میں پیدا ہونے والی مقناطیسی قوت کی اصلیت جاننے میں بھی کسی ڈاکٹر کو اب تک کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ کئی ٹیسٹ ہوچکے ہیں مگر جیمی کیٹون کا جسم اب بھی مقناطیس کی حیثیت سے کام کرنے پر بضد ہے اور طِبّی ماہرین کی حالت اُس شخص کی سی ہے جو کسی تاریک کمرے میں ایسی کالی بِلّی تلاش کر رہا ہو جو وہاں موجود ہی نہ ہو!
فی زمانہ شہرت کا معاملہ جیک پاٹ جیسا ہے، جیسے اچانک کسی کی لاٹری لگ جائے۔ کسی بھی سطح پر منصوبہ بندی اور محنت کے بغیر کوئی بھی شخص بھرپور شہرت پاسکتا ہے۔ اب شہرت کے لیے کوئی پیمانہ مقرر نہیں۔ کوئی بلندی سے گِرنے پر بھی بچ جائے تو راتوں رات شہرت پا جاتا ہے۔ یہی حال جیمی کیٹون کا ہے۔ جسم میں مقناطیسی قوت کے پیدا ہونے میں اس کا کیا کمال ہے؟ مگر پھر بھی شہرت کی دیوی نے اُسے ڈھونڈ نکالا ہے اور اُس پر کِرپا کے ڈول انڈیل رہی ہے!
جیمی کیٹون قوتِ تجاذب کے معاملے میں ہمارے سامنے نہیں ٹِک سکتا۔ جیمی کیٹون کا جسم تو محض دھات کی یعنی دکھائی دینے والی اشیاء کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہے، ہم ایک قدم آگے جاکر بہت کچھ ایسا بھی اپنی طرف کھینچتے ہیں جو دکھائی نہیں دیتا۔ اب یہی دیکھیے کہ دنیا بھر سے ہر رنگ و نسل کے لوگ پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں! نمایاں ترین مثال لاکھوں افغان باشندوں کی ہے جو غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے کے بعد ماحول میں ایسے رچ بس گئے ہیں کہ اب اُنہیں شناخت کرکے الگ کرنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ پاکستانی سرزمین کی کشش کے قربان جائیے کہ سوویت قابض افواج کے نکل جانے کے بعد بھی افغان باشندے پاکستان سے نہ نکل پائے، یہیں کے ہو رہے۔
دنیا بھر میں ریاستیں اپنے لیے چند اصول مرتب کرتی ہیں۔ ایک نمایاں اصول یہ ہے کہ کوئی بھی، کہیں سے بھی آکر یونہی، اپنی مرضی کے مطابق آباد نہیں سکتا۔ چند ایک شرائط کا پورا کیا جانا لازم ہے۔ ان شرائط کو پورا نہ کر پانے والوں کو متعلقہ ریاست میں آباد ہونے کی اجازت تو کیا ملے گی، زیادہ مدت تک قیام بھی نہیں کرنے دیا جاتا۔ اور اِدھر ہماری حالت یہ ہے کہ ع
جو آئے آئے کہ ہم دِل کشادہ رکھتے ہیں!
ہماری زمین اور معاشرے میں چاہے جتنی بھی کشش ہو، اِن میں اصولوں اور تعیّنات کو اپنی طرف کھینچے رکھنے کی صلاحیت بہرحال نہیں! ہم جو بھی اصول اپناتے ہیں وہ کچھ ہی مدت بعد ون وے ٹکٹ کٹواکر ہم سے دامن چُھڑاتا ہے اور دُور خلاء میں کہیں گم ہوکر واپس آنے سے صاف انکار کردیتا ہے!
کھانے پینے کی اشیاء ہوں یا روزمرّہ استعمال کے آئٹم، کیا ہے جو ہم سے معانقے کیلئے بے تاب و بے قرار نہیں؟ ہماری زمین بہترین قسم کا اناج اگاتی ضرور ہے، اُسے اپنے سینے سے چمٹائے رکھنے کی خاصیت سے محروم ہے۔ ہماری زمین سے نکلا ہوا بہترین قسم کا اناج بہت تیزی سے اپنا مسکن چھوڑ کر دنیا کی سیر کو نکل پڑتا ہے اور دنیا بھر میں زمین کا اُگلا ہوا انتہائی پست معیار کا اناج ہماری طرف کھنچا چلا آتا ہے۔ ہماری معیاری دالیں اور دیگر اجناس ترقی یافتہ ممالک کے لوگ کھاتے ہیں اور ہم اُن کی زمین پر اگنے والی وہ تمام چیزیں بخوشی قبول کرلیتے ہیں جو بلا مبالغہ جانوروں کو کھلائے جانے کے قابل ہوتی ہیں! بہت سے ممالک میں باضابطہ سرکاری سطح پر مسترد کی جانے والی اشیائے خور و نوش ہماری طرف کھنچی چلی آتی ہیں اور ہم اُنہیں خوشی خوشی قبول کرکے چٹ کر جاتے ہیں!
ذاتی مفاد کی خاطر اجتماعی یا قومی مفاد کو کا گلا گھونٹنے والے رذیل قومی وسائل کیلئے مقناطیس بن جاتے ہیں اور ناجائز طریقے سے بہت کچھ اپنی جھولی میں کھینچ لینے کے بعد یہ لوگ ملک سے اِس طور بھاگ نکلتے ہیں جیسے مقناطیس کے دو مخالف سِرے ایک دوسرے کے نزدیک لائے جانے پر پوری قوت سے دور بھاگتے ہیں!
اور معاملہ صرف تارکین وطن اور مختلف اشیاء تک کہاں محدود ہے؟ زمانے بھر کے ناکارہ و بے مصرف نظریات اور فیشن بھی تو موقع پاتے ہی ہماری جانب یُوں کھنچے چلے آتے ہیں جیسے صدیوں کے بچھڑے ہوئے پریمی ایک دوسرے سے ملنے کو بے تاب ہوں! جن اقدار، نظریات اور فلسفوں کو دنیا صدیوں پہلے ٹھکرا چکی ہے وہ آج بھی ہماری نفسیاتی ساخت سے یُوں چمٹے ہوئے ہیں جیسے ہمارے ساتھ جینے اور اپنے ساتھ لے کر مرنے کی قسم کھا رکھی ہو۔
آج بھی ہمارے فکر و عمل میں بہت کچھ ایسا ہے جو روئے زمین پر انسان کے اوّلین دور کی یاد دلاتا ہے۔ اُس دور کا انسان جو کچھ سوچتا تھا اور جس طور عمل کی دنیا میں فعال رہتا تھا ہم اُسی کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہر ناکارہ خیال کیلئے ہماری نفسیاتی ساخت مقناطیس میں تبدیل ہوچکی ہے کہ وہ آئے اور چپک کر رہ جائے۔ اور اِس کا جو نتیجہ ہم نے اب تک بھگتا ہے اسے دیکھ کر ایک دنیا نے عبرت کو اپنی طرف کھینچا اور دانتوں سے پکڑا ہے!
دل کو جلاکر راکھ کردینے والی حقیقت یہ ہے کہ ہم میں وہ قوت تجاذب اب تک پیدا نہیں ہوسکی جو صلاحیت کو بروئے کار لانے، محنت کے ذریعے عالمی برادری میں کسی مقام تک پہنچنے کی راہ ہموار کرنے اور واضح شناخت قائم کرنے والی عادات کو اپنی جانب کھینچ سکے۔ دل کشادہ رکھنا اوصافِ حمیدہ میں سے ہے مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تمام اصولوں کو تج کر اور ممکنہ اونچ نیچ کے حوالے سے محتاط ہوئے بغیر مقناطیس کی طرح زمانے بھر کی اُلٹی سیدھی چیزوں، لوگوں اور افکار کو کھینچ کر سینے سے لگالیا جائے اور پھر پل پل اپنی بربادی کا ماتم کیا جائے۔ دل کی کشادگی بھی ہم سے اعتدال ہی کا تقاضا کرتی ہے۔