چین اور اٹلی کے ڈاکٹرز نے انتہائی خطرناک اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان ہے سَر کی پیوند کاری کا۔ یعنی انسان یا کسی اور جاندار کے دھڑ سے سَر کو الگ کرکے کسی دوسرے جانور کے سَر کی پیوند کاری۔ ایک اطالوی ڈاکٹر نے پہلے مرحلے میں بندر کے سَر کی پیوند کاری کا اعلان کیا ہے۔ چین کے ڈاکٹرز بھی اس ''نیک‘‘ کام کا آغاز بندر سے کرنا چاہتے ہیں۔
علامہ اقبالؔ نے کہا تھا کہ ؎
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
علامہ نے چینیوں کے سنبھلنے کی طرف اشارا تو کردیا تھا مگر خود انہیں بھی اندازہ نہ ہوگا کہ چینی کبھی اس قدر سنبھل جائیں گے کہ عجیب و غریب تجربات میں الجھ کر ایک دنیا کو نہ سنبھلنے پر مجبور کردیں گے!
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عجیب و غریب تجربات، مہم جُوئی اور معرکہ آرائی کے ذریعے ایک زمانے کو پریشانی سے دوچار رکھنے والی مغربی دنیا میں سَر کی پیوند کاری کا اعلان خود دِلی سے قبول نہیں کیا گیا۔ امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ (یورپی) ممالک کے ماہرین نے سَر کی پیوند کاری کو محض مذاق قرار دیا ہے۔ انہوں نے چینی اور اطالوی ڈاکٹرز کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایسا کوئی بھی تجربہ کرنے سے باز رہیں۔ اُن کے خیال میں ایسا کوئی بھی تجربہ موجودہ ٹیکنالوجیکل ترقی کی بدولت کامیابی سے ہمکنار نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی انسان ابھی اُس مقام تک نہیں پہنچا کہ کسی کے کٹے ہوئے سَر کو جوڑ دے، اُس کے وجود کو نئی زندگی بخش دے۔
ہوسکتا ہے امریکی پالیسی میکرز کو سَر کی پیوند کاری کے اعلان سے خیال آیا ہو کہ یہ کون آگیا کٹے ہوئے سَر کو پھر سے جوڑنے والا۔ امریکہ کا تو کام ہی سَر اتارنا ہے۔ سَر جوڑنے والے میدان میں آگئے تو امریکی پالیسیوں کا سارا رونق میلہ دم توڑ دے گا!
عجیب و غریب نوعیت کے تجربات انسان کو موت کی وادی میں بھی دھکیل سکتے ہیں۔ کامیابی کا امکان زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ ایسی حالت میں کون ہے جو آپریشن ٹیبل پر لیٹنے کے لیے تیار ہوگا؟ قابل غور بات یہ ہے کہ اطالوی ڈاکٹر کو سَر کی پیوند کاری کے لیے ایک روسی رضاکار مل بھی گیا ہے۔ یہ رضا کار، خالصاً اپنی ذمہ داری پر، آپریشن ٹیبل پر لیٹنے اور ہر مرحلے سے گزرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ چین کے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ وہ سَر کی پیوند کاری کے لیے متعلقہ مریض یا رضاکار کو چار ماہ تک کوما میں رکھیں گے۔ ویسے کوما میں رکھنے والی بات بھی خوب ہے۔ اس وقت بھی چین اور امریکہ کی لڑائی نے عالمی سیاست و معیشت کو کسی حد تک کوما کی کیفیت ہی سے دوچار کر رکھا ہے۔ جب سے پاور شفٹ کا مرحلہ شروع ہوا ہے یعنی طاقت کے مرکز کا مغرب سے مشرق کی طرف کھسکنا شروع ہوا ہے، بہت سی ترقی پذیر اور پس ماندہ اقوام اِس عمل کے اثرات کے ہاتھوں کوما جیسی کیفیت ہی میں مبتلا ہیں۔
انسان ترقی کی راہ پر پتا نہیں کہاں تک جانا چاہتا ہے؟ وہ فی الحال اپنے لیے کوئی منزل مقرر کرنے کے موڈ میں نہیں۔ کائنات میں جتنے بھی امکانات ہوسکتے ہیں انسان ان تمام کو گلے لگاکر بروئے کار لانے کے لیے بے تاب ہے، بلکہ اتاؤلا ہو رہا ہے۔
انسان اپنی ہر خواہش کو پورا کرنا چاہتا ہے۔ ذہن میں ابھرنے والے ہر تصور کو عملی شکل دینا اُس کے مزاج کا حصہ ہوکر رہ گیا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ وہ منزل کا تعین کیے بغیر بڑھتا ہی جارہا ہے۔ کسی منزل کا تعین نہ کرنے میں فائدہ یہ ہے کہ جس مقام پر بھی دل تھوڑا سا اطمینان محسوس کرے اُسے منزل سمجھ کر خوش ہو رہیے۔
ہم نے جب سَر کی پیوند کاری سے متعلق خبر پڑھی تو ہم پر بھی حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ آج تک ہم یہی سمجھتے تھے کہ سَر گیا تو سب کچھ گیا۔ یعنی زندگی کا مدار اِس بات پر ہے کہ سَر سلامت رہے۔ حادثات میں بھی وہ لوگ بمشکل بچ پاتے ہیں جن کے سَر پر شدید چوٹ لگی ہو اور خون زیادہ بہہ گیا ہو۔ اب پتا چلا کہ سَر کے بغیر بھی انسان کا جسم کارآمد رہتا ہے یعنی کوئی اور اُس کا اپنا یا کوئی اور سَر جوڑ کر سانسوں کا ربط بحال کیا جاسکتا ہے۔
جن طبی ماہرین نے سَر کی پیوند کاری کا اعلان کیا ہے انہوں نے یہ صراحت نہیں کی کہ سَر اصلی جوڑا جائے گا یا کوئی دوسرا۔ اگر سَر وہی رہے تو پھر نیا کیا ہے! اور اگر کسی اور کا سَر لگایا جائے گا تو پھر اُس دھڑ کا کیا بنے گا؟
اگر ماہرین سَر جوڑنے میں کامیاب ہوگئے تو دنیا بھر میں سَر دھڑ کی بازی لگانے والوں کی تعداد بڑھ جائے گی۔ سَر دے کر بھی زندگی دوبارہ پانا ممکن ہو تو پھر کون ہے جو سَر کٹانے سے ڈرے گا، انکار کرے گا؟
ویسے تو خیر بیسویں صدی کا انسان بھی کم حیرت انگیز نہ تھا مگر اکیسویں صدی کا انسان تو واقعی بہت عجیب ہے۔ وہ آج تک کی بھرپور ترقی کو نچوڑ کر اپنے لیے ایک ایسی دنیا معرض وجود میں لانا چاہتا ہے جس میں کچھ بھی ناممکن نہ ہو۔ یعنی ذہن میں جو بھی امکان ابھرتا ہو وہ عملی زندگی میں، حقیقت کی دنیا میں دکھائی دے۔
آج کا انسان پوری کائنات کو اپنی مٹھی میں لینا چاہتا ہے۔ بہت سے کام ایسے ہیں جن کے نہ کرنے سے بھی کچھ فرق پڑنے والا نہیں مگر پھر بھی انسان بضد ہے کہ سب کچھ کرکے دم لے گا۔ بہت سے انتہائی مشکل کام ایسے بھی ہیں جن کی کمرشل ویلیو زیادہ نہیں۔ یعنی بہت کچھ ایسا ہے جو ممکن بنا بھی لیا جائے تو تجارتی سطح پر فوائد بٹورنا محض خواب ہی رہے گا مگر پھر بھی ماہرین وہ سب کچھ کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ انسان کچھ بھی کرسکتا ہے۔ یعنی معاملہ اپنے ذہن کی وسعت کو ظاہر اور ثابت کرنے کا ہے۔ جو فاصلہ اس وقت فضائی سفر میں سات گھنٹے کا ہے اُسے طیارے میں راکٹ کا انجان نصب کرکے سات منٹ کا کرنے پر بھی کام ہو رہا ہے۔ یعنی فضائی سفر کی ٹیکنالوجی میں بھی سَر کی پیوند کاری جیسا ہی کام کیا جارہا ہے!
پرندوںکی طرح اڑنا بھی انسان کی خواہش ہے۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ رات دن کوشاں رہتا ہے۔ اڑنے والی ایسی کاریں تیار کرنے پر عرصۂ دراز سے کام ہو رہا ہے جو عام آدمی کی دسترس میں بھی ہوں اور وہ اُنہیں چلا بھی سکے۔ اِس پہلو پر کوئی غور نہیں کر رہا کہ فضاء میں لاکھوں گاڑیوں کو آپس میں ٹکرانے سے کیسے روکا جاسکے گا! ہم سے زمین پر دوڑنے والی ذاتی گاڑیاں تو کنٹرول نہیں ہو پارہیں، ایسے میں اڑنے والی گاڑیوں کو حدود و قیود کا احساس دلانا کیسے ممکن ہوگا؟
یہی اصل مسئلہ ہے۔ ٹیکنالوجی کی مدد سے کچھ بھی بنایا جاسکتا ہے اور بنایا جارہا ہے۔ بہت پہلے کی بات ہے کہ انسان کچھ بھی بنانے، تیار کرنے یا دریافت کرنے سے اُس کے ممکنہ فوائد کے ہر پہلو پر غور کرتا تھا۔ آج کا معاملہ یہ ہے کہ کچھ بھی بنانے والے بعد میں سوچتے ہیں کہ اب اِس کے منفی اثرات سے کیونکر بچا جائے! بہت کچھ ہے جو ہماری ضرورت کے تحت نہیں مگر پھر بھی ہماری زندگی کا حصہ ہے اور ہم اُسے گلے لگائے رکھنے پر مجبور ہیں۔ ماہرین طب کے ہوں یا کسی اور شعبے کے، ایسا بہت کچھ بنانا چاہتے ہیں جو محض صلاحیت کے اظہار کی خواہش کے تابع ہے۔ منظر عام پر یا مارکیٹ میں لائی جانے والی ہر چیز ہمارے کام کی نہیں ہوتی۔ بہت کچھ ہے جو محض نقصان پہنچا رہا ہے مگر بنانے والوں کو اِس سے کیا غرض؟ اُن کے لیے تو معاملہ سراسر فائدے کا ہے!
ہم نہیں جانتے کہ سَر کی پیوند کاری کبھی کامیابی سے ہمکنار ہو بھی سکے گی یا نہیں مگر سوال اِس تجربے کی کامیابی سے کہیں زیادہ اِس کے مفید ہونے کا ہے۔ جو سَر ہماری گردنوں پر اِس وقت قائم ہیں اگر اُنہی کو ہم بہتر انداز سے بروئے لاسکیں تو بڑی بات ہے۔ پیوند کاری کے بعد اگر اِنسانی سَر کی کارکردگی اور گئی گزری ہوگئی تو اِس دنیا کا کیا بنے گا؟ ماہرین اگر سَر بدلنے کی تیاریوں میں مصروف رہنے کے بجائے موجودہ سَروں ہی کو زیادہ کارآمد بنانے پر توجہ دیں تو یہ دنیا کسی حد تک جنّت نظیر ہوجائے!