"MIK" (space) message & send to 7575

غزل اُس نے چھیڑی …

اردو کے عظیم انشائیہ نگاروں کی صفِ اول میں سجاد حیدر یلدرم اہم مقام پر ہیں۔ اُن کا ایک انشائیہ ''مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ‘‘ اِس قدر مقبول ہوا کہ آج بھی اُس کی مثال دی جاتی ہے۔ ہم نے بھی یہ انشائیہ پڑھا ہے اور ہم بھی یلدرم صاحب کی عظمت کے مزید قائل ہوئے مگر یہ بات کہے بغیر ہم رہ نہیں سکتے کہ یلدرم صاحب نے محض انشائیہ لکھنے کے چکر میں اپنے دوستوں کو کچھ زیادہ ہی بدنام کر ڈالا۔ ہوسکتا ہے کہ اُن کے دوستوں نے ''دوستی‘‘ کا حق ادا کرنے کی کچھ زیادہ کوشش کی ہو مگر مرحوم کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اِس دنیا میں اور بھی بہت سے ہیں جو اپنے دوستوں کے ہاتھوں اُن سے کہیں زیادہ تنگ ہیں مگر شرم کے مارے چُپ رہتے ہیں یا پھر اُنہیں انشائیہ لکھنا نہیں آتا! 
سجاد حیدر یلدرم مرحوم کا انشائیہ ہمیں یُوں یاد آیا کہ ہماری صفِ دوستاں میں بھی کچھ ایسے لوگ در آئے ہیں جنہیں اللہ نے شعر گوئی کا ہنر سے لیس کرکے اِس دنیا میں بھیجا ہے۔ شعر کہنے اور پھر سُنانے کے معاملے میں یہ لوگ میرزا محمد رفیع سوداؔ کے اِس مصرع کی تجسیم ہیں کہ ع 
ناوک نے تیرے صَید نہ چھوڑا زمانے میں 
اور ہم چونکہ اُن کی ''رینج‘‘ میں ہیں اِس لیے اُن کے ہنر کی گہرائی اور گیرائی ہم سے بڑھ کر کون جان سکتا ہے؟ ویسے اِن ''اہلِ کمال‘‘ کو ہم گھس بیٹھیے بھی قرار نہیں دے سکتے کہ اِنہیں اپنی طرف خود ہم نے بھی بلایا ہے۔ اِسے آپ کسی حد تک ''آ بیل، مجھے مار‘‘ والا معاملہ قرار دے سکتے ہیں۔ یعنی یہ کہ اِدھر آپ نے سُخن شناس اور شاعر نواز ہونے کا ثبوت دیا اور اُدھر اُنہوں نے آپ کو نشانے پر لیا! 
سجاد حیدر یلدرم سے ملنا ہمارے نصیب میں ہوتا تو ہم انہیں بتاتے کہ بے وقت آکر پریشان کرنے والے دوستوں سے بڑھ کر ستم پرداز تو وہ ہیں کہ بے وقت آنے ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ بدہضمی اور کسی اور پریشانی کے باعث رات بھر بیدار رہ کر جو کچھ موزوں کیا ہوتا ہے وہ ہمارے کانوں میں انڈیل کر ہمارے دماغ میں خلل، معدے میں شدید بدہضمی اور مزاج میں تکدّر کی کیفیت پیدا کرتے ہیں! 
ہم خود بھی تقریباً تین عشروں سے شعر کہہ رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اِتنی مدت سے مشقِ سُخن کرتے رہنے پر بھی ہم نے آج تک وہ طریقِ واردات نہیں اپنایا جو بیشتر شعراء نے اپنا رکھا ہے اور کسی حد تک اِسی کے ذریعے تھوڑی بہت مقبولیت بھی پاسکے ہیں۔ 
سُنا ہے کوئی ایسی ویسی بات ہونے والی ہو تو بائیں طرف کی پلک جھپکنے لگتی ہے اور اگر کوئی مہمان آنے والا ہو تو منڈیر پر کوّا کائیں کائیں کرنے لگتا ہے۔ جن احباب کو ترکش سے تیر نکال کر ہم جیسوں پر چلانے کا شوق ہے وہ پلک کے جھپکنے اور کوّے کے کائیں کائیں کرنے کی راہ نہیں دیکھتے بلکہ آگے بڑھ کر مینا و ساغر اٹھالیتے ہیں! 
ہمارے احباب میں یعقوب غزنوی اور خالد عمران مطہرؔ بھی ہیں اور مظہرؔ ہانی بھی۔ یعقوب غزنوی سے ہم اشعار یوں سُن لیا کرتے تھے کہ وہ ریڈیو پاکستان کے کراچی اسٹیشن میں بزمِ طلباء کے پروڈکشن اسسٹنٹ تھے اور ہمیں برمِ طلباء کے پروگراموں میں شرکت کا شوق تھا! خالد عمران مطہرؔ سے ہم اُن کا کلامِ بلاغت نظام اِس لیے سُن (اور جھیل) لیا کرتے تھے کہ وہ ہر ایک کے کام آتے تھے اور ظاہر ہے کہ ہماری بھی معاونت کیا کرتے تھے! یعنی خالد عمران مطہرؔ سے ہمارا معاملہ ''کیا خوب سودا نقد ہے ...‘‘ والا تھا! مظہرؔ ہانی کی مشقِ سُخن ہم اس لیے جھیل جاتے ہیں کہ موصوف یاروں کے یار ہیں۔ گھر جائیے تو خوب تواضع کرتے ہیں، ڈٹ کر کھلاتے پلاتے ہیں۔ جب مہمان نوازی کے تقاضے نبھائے جاچکے ہوں تو مہمان کا اخلاقی فرض ہے کہ میزبان کی دو تین غزلیں پوری توجہ سے سُنے اور اخلاقی اصولوں کے تحت فریضہ جان کر (یعنی نہ چاہتے ہوئے بھی) داد دے! 
نصف صدی پہلے کے شُرفاء ادب کی دنیا میں اِسی طور اپنا کُھونٹا گاڑا کرتے تھے۔ بہت سے صاحبانِ ثروت ایسے تھے کہ کسی دوسرے شہر سے آئے ہوئے شعراء کو گھر میں ٹھہراکر اپنی طبع کے نتائج اُن کی نذر کیا کرتے تھے اور مہمان شعراء بھی ''نظریۂ ضرورت‘‘ کی نزاکتوں کو سمجھتے ہوئے میزبان کی مشقِ سُخن کا مآل محض سُنتے نہیں تھے بلکہ یہ تاثر دے کر اُن کی آتشِ شوق کو مزید بھڑکایا کرتے تھے کہ ع 
تو مشقِ ناز کر، خونِ دو عالم میری گردن پر! 
اور میزبان بھی موقع غنیمت جان کر یعنی مہمانوں کا خیال رکھنے پر آنے والے اخراجات کو ذہن میں رکھتے ہوئے سُخن، ناز اور ستم ... ہر معاملے میں بھرپور مشق کر گزرتے تھے! 
زندگی بھی ایک غزل ہے مگر اب شہر آشوب کا سا ماحول لیے ہوئے ہے۔ فی زمانہ زندگی کی غزل جس کیفیت سے دوچار ہے اُسے ناصرؔ کاظمی نے یُوں بیان کیا ہے ؎ 
گزر رہے ہیں عجب مرحلوں سے دیدہ و دل 
سَحر کی آس تو ہے، زندگی کی آس نہیں 
اب زندگی کی غزل کا ہر مصرع کڈھب ہے یا بحر سے خارج۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ شعر کا کوئی مصرع بے بحر تو نہیں ہوتا مگر ہر مصرع الگ بحر میں ملتا ہے! بعض شعراء جب سُخن کی دنیا پر ظلم ڈھانے کی ٹھان لیتے ہیں تو بحر کے تجربے کرتے ہیں اور پھر اِس تجربے کے سمندر میں اپنی محنت اور دوسروں کا وقت بہت عمدگی سے غرق کرنے کے بعد ہی سکون کا سانس لیتے ہیں! 
غزل گوئی میں تجربے کی روایت کو نئی زندگی دینے میں بھائی حسنؔ کا جواب نہیں۔ وہ اساتذہ کی تراکیب کے دلدادہ ہیں اور قدیم رنگ میں شعر کہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اُنہوں نے کسی استاد شاعر کی غزل سُنائی جس کی ردیف تھی ''زیرِ پا، بالائے سَر!‘‘ استاد شاعر آذرؔ حفیظ مرحوم کہا کرتے تھے کہ غزل میں ردیف بولتی ہوئی ہونی چاہیے یعنی خوب موزوں ہو اور نِبھ جائے۔ بھائی حسنؔ نے جو غزل سُنائی اُس کی ردیف ہی نہیں بلکہ قافیے سمیت مصرع کے دیگر اجزاء بھی محض بولتے ہوئے ہی نہیں، بلکہ چیختے ہوئے تھے۔ جس طور پولیس اہلکاروں کی دوڑیں لگ جاتی ہیں اُسی طرح اُستادانہ غزل سُننے والوں کی بھی چیخیں نکل گئیں! ہم نے بھائی حسنؔ کو سمجھایا کہ بھائی! اتنے قدیم رنگ کی غزلیں نہ سُنایا کرو کہ سُننے والے مبہوت، بلکہ بُھوت ہوجائیں! ویسے بھی دوستی کوئی گیا گزرا جذبہ نہیں جسے نامطلوب غزلوں کی چوکھٹ پر قربان کردیا جائے! 
ہمارے احباب میں عدیلؔ اور ان کے بھائی عبدالحسیب بیک وقت انتہائی انتہا پسند اور بلا کے عقل مند واقع ہوئے ہیں۔ تازہ کلام سنانے کے معاملے میں ہم نے اُنہیں ہمیشہ ''ہر گھڑی تیار، کامران ہیں ہم‘‘ پایا ہے! آپ جانتے ہیں کہ عقل مند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے۔ یہ دونوں بھائی بھی پچیس تا پچاس اشعار کی غزل صرف کہنے ہی کے شوقین نہیں ہیں۔ دونوں بھائی موافق اشارہ دیکھتے ہی یعنی موقع ملتے ہی از خود نوٹس کے تحت اپنی تازہ و طویل غزلیں سُناکر وہی ماحول پیدا کردیتے ہیں جو کسی زمانے میں پی ٹی وی کے طویل دورانیے کے ڈراموں سے پیدا ہوجایا کرتا تھا! ہم مزاج آشنا ہیں اِس لیے انہیں آمادہ بہ غزل دیکھتے ہی صفی لکھنوی مرحوم کا مصرع تھوڑے سے تصرّف کے ساتھ گنگناتے ہوئے پتلی گلی سے نکل لیتے ہیں ع 
''غزل اُس نے چھیڑی ہے، ہُشیار رہنا!‘‘ 
طاہرؔ عباس آج کل کوئٹہ کی یخ بستہ فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں اس لیے ہم اُن کی ''تازہ‘‘ غزلوں سے محروم (یعنی محفوظ!) ہیں۔ موصوف شعر کہنا کئی سال پہلے ترک کرچکے ہیں مگر اشعار سُنانے پر آمادہ یعنی بضد رہتے ہیں! احباب اُن کی ایک ایک غزل بیس بیس مرتبہ سُن کر مزید ستم نہ ڈھانے کا التماس بھی کرچکے ہیں مگر طاہرؔ عباس شعر گوئی کی طرح ''شعر نوازی‘‘ میں بھی کہنہ مشق ہیں! ''طریقِ واردات‘‘ بھی منفرد ہے۔ اہلِ خانہ سے سیٹنگ ہے۔ جیسے ہی یہ اپنی دو تین پُرانی غزلیں بیسویں یا پچیسویں مرتبہ سُنا چکتے ہیں، گھر سے کسی نہ کسی کی کال آجاتی ہے اور یہ مزے سے دامن جھاڑ کر ''گھر پر مہمان آئے ہوئے ہیں‘‘ کہتے ہوئے اُٹھ کر چل دیتے ہیں۔ سُننے والے اپنے کلام کا پرچہ تھامے خُون کے گھونٹ پی کر رہ جاتے ہیں۔ پھر کچھ خُون اُن کی آنکھوں میں بھی اُتر آتا ہے! ؎ 
اُس نے اپنی تو سُنادیں، مِری غزلیں نہ سُنیں 
مِری آنکھوں میں جو اُترا ہوا خُوں ہے، یُوں ہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں