خرابیاں بڑھ جائیں تو اُنہیں دیکھ دیکھ کر الجھن سی ہوتی رہتی ہے۔ معاشرے میں اکثریت ان کی ہے جو خرابیوں سے کومپرومائز کرلیتے ہیں یعنی ان کے ساتھ جینا سیکھ لیتے ہیں۔ کم ہی لوگ خرابیوں کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد اُن سے جان چھڑانے کے بارے میں سوچنے اور سوچے ہوئے پر عمل کرنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں۔
پاکستان میں انصاف ناپید ہے، لوگ خراب طرزِ حکمرانی کے ہاتھوں یوں جی رہے ہیں جیسے مرنے کی تیاریوں میں مصروف ہوں۔ ملک کی 60 فیصد آبادی اِس طور زندہ ہے جیسے مرنے کے لیے تیار ہو یا پھر زندہ رہنے پر مجبور ہو۔ شہری علاقوں میں معاملات کچھ بہتر ہیں۔ دیہی آبادی کا تو یہ حال ہے کہ ؎
آتی جاتی سانس کا عالم نہ پوچھ
جیسے دُہری دھار کا خنجر چلے!
وعدے بھی ہوتے رہے ہیں اور دعوے بھی کیے جاتے رہے ہیں مگر یہ سارا زبانی جمع خرچ کسی غریب کا کچھ بھلا نہیں کرسکا ہے۔ بڑھکیں مار کر سیاسی دکان چمکانے والوں کی تعداد میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہوتا گیا ہے۔
بیس سال قبل عمران خان نے کرکٹ کو خیرباد کہنے کے بعد جب سیاست کے میدان میں قدم رکھا تھا تب سارے تماشائی یعنی اہلِ وطن یہ سوچ کر کچھ دیر کو خوش ہولیے تھے کہ شاید اب کچھ ایسا ہوگا جو خواہشوں اور امنگوں کے مطابق ہوگا۔ غریبوں کو ایسا سوچنے سے کوئی روک نہیں سکتا کیونکہ سوچنے پر پہرے بٹھائے نہیں جاسکتے۔ اور پھر یہ بات بھی ہے کہ غریبوں کی یہی تو چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہوتی ہیں!
عمران خان ہماری سیاست کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اُمید کی ایک بڑی کرن بن کر پُھوٹے تھے۔ توقع تھی کہ وہ کچھ نہ کچھ ایسا کر دکھائیں گے جو معاملات کو درستی کی راہ پر گامزن کرنے میں خاطر خواہ مدد دے گا۔ مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔ ایسا کیوں نہ ہوسکا؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔ خرابیاں زیادہ ہوں تو اُنہیں دیکھ دیکھ کر الجھن میں مبتلا ہونے والوں کی پریشانی بھی بڑھتی جاتی ہے۔ وہ رات دن یہی سوچتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور ساری مشکلات ختم ہوجائیں، تمام خرابیاں مِٹ جائیں۔ یہ خواہش یقیناً ملک و قوم کے بھلے ہی کے لیے ہوتی ہے مگر کیا کیجیے کہ اِس غیر حقیقت پسند سوچ ہی نے بہت سے نئی خرابیوں کو بھی جنم دیا ہے۔
ملک کے دگرگوں حالات کو دیکھتے ہوئے جب بھی کوئی کچھ کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو چاہتا ہے کہ راتوں رات پورا نظام تبدیل ہوجائے، معاشرے کی کایا پلٹ جائے۔ خرابیوں کو راتوں رات جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی یہ ذہنیت ہی مزید خرابیاں پیدا کرتی ہے۔ عبدالحمید عدمؔ نے کیا پیارا، ہمیشہ زندہ رہنے والا مقطع کہا ہے ؎
عدمؔ ! خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں!
کسی بھی معاملے کو درست کرنے کے لیے انتہائی صبر درکار ہوا کرتا ہے۔ جو خرابی ایک زمانے میں پروان چڑھی ہو وہ راتوں رات کیسے ختم کی جاسکتی ہے؟ اُسے ختم کرنے کے لیے ذہنی تیاری، درکار ہوتی ہے۔ پہلا مرحلہ معاملات کو سمجھنے کا ہے۔ جب اِتنا شعور پنپ جائے تو اگلے مرحلے میں کچھ ایسا کرنا ہوتا ہے جو عمل کی راہ ہموار کرے۔
ہماری سیاست میں کئی شخصیات راتوں رات کچھ نہ کچھ کر گزرنے کا عزم لے کر ابھریں۔ ان کا ابھرنا ایسا تھا جیسے کوئی سورج طلوع ہوا مگر پھر پلک جھپکتے میں وہ سورج اِس طور بجھ گئے جیسے کسی ٹوٹے ہوئے تارے کے ٹکڑے زمین کی فضاء میں داخل ہونے پر رگڑ کھاتے ہی بھڑک کر راکھ کا ڈھیر ہوجاتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کا بھی بہت حد تک یہی کیس تھا۔ ان کی شخصیت سے وابستہ تمام ایسی ویسی باتیں اپنی جگہ، اِس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ وہ غیر معمولی ذہن کے مالک تھے اور بہت کچھ کرنے کے عزم سے سرشار بھی تھے۔ مگر اُن کی اپنی شخصیت ہی ان کے مقابل آگئی۔ جو کچھ عبدالحمید عدمؔ نے کہا تھا وہ ذوالفقار علی بھٹو کے معاملے میں بھی درست ثابت ہوا۔ وہ خلوص کے بندے تھے مگر افسوس کہ عجلت پسندی ان کی شخصیت سے ایسی جُڑی کہ پھر الگ نہ ہوسکی۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے اور کر بھی سکتے تھے مگر خرابی صرف اِس بات میں تھی کہ وہ ہر کام راتوں رات کرنا چاہتے تھے۔ پورے نظام کو راتوں رات تبدیل کرنے کی سوچ نے ذوالفقار علی بھٹو کے ذہن کو یوں جکڑا کہ انہیں قبر میں لِٹاکر دم لیا! بہت تیزی سے بہت کچھ کر گزرنے کی خواہش پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے وہ سب کچھ کیا جو انہیں تیزی سے مکمل تباہی کی طرف لے جاسکتا تھا اور لے گیا۔ ان کے مزاج سے معمولی سی واقفیت رکھنے والا بھی سمجھ سکتا تھا کہ وہ بہت جلدی میں ہیں۔ عجلت پسندی ہی نے ان کی تمام خوبیوں کو خرابیوں کے گڑھے میں یوں دھکیلا کہ وہ باہر نہ نکل سکیں، دفن ہوکر رہ گئیں۔
ایک مدت کے بعد عمران خان ابھرے تو اہلِ وطن اور بالخصوص نوجوانوں کی آنکھیں جگمگا اٹھیں۔ کرکٹ کی دنیا میں بھرپور نیک نامی کمانے کے بعد عمران خان نے سوچا کہ اس نیک نامی کو قوم کی بہتری کے لیے بروئے کار لایا جائے۔ پہلے انہوں نے شوکت خانم کینسر اسپتال قائم کیا۔ یہ میدان ان کے دل میں ابھرنے والی خواہشات کی تکمیل کے لیے قدرے چھوٹا تھا۔ 1996 میں انہوں نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ پارٹی کیا بنی، لاکھوں، کروڑوں دلوں میں توقعات کی منڈی سچ گئی۔ اہلِ وطن کی آنکھوں میں امید کی چمک پیدا ہوئی۔ سیدھی سی بات ہے جب بہت کچھ ہوتا ہوا دیکھنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو توقعات بھی وابستہ کی جاتی ہیں۔ عمران خان کے لیے یہی سب سے بڑا مائنس پوائنٹ تھا جو دوسروں کا پیدا کردہ تھا۔ اور رہی سہی کسر ان کے اپنے مزاج کی کجی نے پیدا کردی۔
اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اپنی بہت سے دوسری خرابیوں کے باوجود عمران خان کرپٹ نہیں؟ انہوں نے شوکت خانم کینسر اسپتال کامیابی سے چلاکر دکھایا ہے۔ اس حوالے سے کرپشن کی بات کرنا انتہائے حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ یہ تو ہوئی کردار کی بات۔ ہاں، بات اگر عمران خان کے مزاج کی ہو تو بہت کچھ کہنے کی گنجائش موجود رہی ہے اور اب بھی ہے۔ عمران خان کا مزاج ہمیشہ ہی خاصا کھٹّا، بلکہ کڑوا رہا ہے۔ وہ کرکٹ میں تھے تب بھی اچھے خاصے بدمزاج ہی تھے۔ یہی سبب ہے کہ جب سیاست میں قدم رکھا تو بہت سے ذہنوں میں یہ خدشہ ابھرا کہ وہ اپنی بدمزاجی پر قابو پانے میں ناکام رہے تو سیاست میں ناکام رہیں گے۔ بدمزاجی اپنی جگہ، عمران خان نے عجلت پسندی میں بھی بہت سوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ عدمؔ نے جو حقیقت بیان کی ہے اس کی تجسیم عمران خان نے ایسی عمدگی سے کی ہے کہ بے اختیار ہوکر ''داد‘‘ دینے کو جی چاہتا ہے! عمران خان نے سیاست کو بھی کرکٹ میچ کی حیثیت سے برتا ہے اور جب بھی ایسا سمجھا ہے، خمیازہ بھی بھگتا ہے۔ عجلت کی الجھن کو غالبؔ نے خوب بیان کیا ہے ؎
عاشقی صبر طلب اور تمنّا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
یہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ عمران خان ہر حال میں وزیر اعظم بننے کے خواہش مند ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ وہ خود کو وزیر اعظم بنانے پر تُلے ہوئے ہیں! یہ خواہش بے لگام گھوڑے کی طرح اُن کے ذہن میں دوڑتی رہتی ہے۔ کوئی لاکھ سمجھائے، ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ ایسا کچھ کرنے سے بھی گریز نہیں کا پارہے جسے دیکھ کر محسوس ہو کہ آرڈر پر مال تیار کیا جارہا ہے! اور یہ عجلت پسندی ہی تو ہے جس نے عمران خان کو خیبر پختونخوا کا نظم و نسق چلانے کے بھرپور موقع سے کماحقہ مستفید ہونے سے باز رکھا ہے! عمران خان کو سیاست سکھانے کی کوشش بہت سوں نے کی ہے۔ ہمارے خیال میں ایسا کچھ کرنے کی کوئی خاص ضرورت تھی، نہ ہے۔ عمران اگر یہ سیکھنا چاہتے ہیں کہ صبر اور سُکون سے سیاست کیسے کی جاتی ہے اور کوئی بڑا الزام جھیلے بغیر تمام مقاصد اور اہداف کس طور حاصل کیے جاسکتے ہیں تو مولانا فضل الرحمٰن کے شخصی اوصاف سے استفادہ کریں! چوہدری برادران اور محمود اچکزئی بھی اِس معاملے میں اکیڈمی کا درجہ رکھتے ہیں! عمران خان اور اُنہی کی طرح کچھ کر گزرنے، کچھ کر دکھانے کی تمنّا رکھنے والے تمام سیاست دانوں اور دیگر میدانوں کے کھلاڑیوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ چولھے پر چڑھی ہوئی معمولی سی ہنڈیا بھی پکنے کے لیے ایک خاص وقت لیتی ہے۔ تو پھر سوچیے کہ سیاست کی ہنڈیا پلک جھپکتے میں کیونکر پک سکتی ہے!
سیاست میں بھی عاشقی صبر طلب ہی ہوا کرتی ہے اور تمنّا کے نصیب میں تو بے تاب ہونا لکھا ہی ہے۔ ایسے میں خونِ جگر ہونے تک دل کا کچھ اور رنگ کرنے کی کوشش کی جائے تو رنگ میں بھنگ پڑ جاتا ہے!