"MIK" (space) message & send to 7575

انار کلی ڈِسکو چلی

کل صبح ناشتے کے بعد موڈ خاصا خوش گوار تھا۔ آپ سوچیں گے اِس میں نیا کیا ہے۔ پیٹ بھرا ہوا ہو تو انسان کو سب کچھ اچھا دکھائی دیتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایسے میں موڈ خراب ہونے کا امکان بھی بہت کمزور ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے مگر ہم کچھ اور کہنا چاہتے ہیں۔ اچھے خاصے موڈ کو ایک ایس ایم ایس نے برباد کرکے رکھ دیا۔ ایس ایم ایس ڈاکٹر شکیل فاروقی کی طرف سے تھا جو کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی کے صدر ہیں۔ ان کی مہربانی ہے کہ ہمیں یاد رکھتے ہیں۔ یونیورسٹی میں ٹیچرز سوسائٹی کے زیر اہتمام کوئی تقریب، پریس کانفرنس، احتجاجی مارچ وغیرہ ہو تو مدعو کرنا نہیں بھولتے۔ ایس ایم ایس کسی پریس کانفرنس یا احتجاجی مارچ وغیرہ سے متعلق نہیں تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے تو صرف یاد دہانی کرائی تھی کہ بجٹ کا زمانہ چل رہا ہے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر بجٹ تیار کیے جارہے ہیں۔ ایسے میں کیا ہی اچھا ہو کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کو یاد دلایا جائے کہ تعلیم بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور خاص طور پر اعلیٰ تعلیم کہ جس کے بغیر کسی بھی قوم کا مجموعی طور پر پیش رفت کے قابل ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ 
ڈاکٹر شکیل فاروقی کا ایس ایم ایس اعلیٰ تعلیم سے متعلق اعداد و شمار پر مبنی تھا۔ اُنہوں نے یاد دلایا کہ ملک کی آبادی 20 کروڑ ہے۔ پھر یہ بتایا کہ ہمارے ملک کو ویسے تو عمومی تعلیم کی بھی ضرورت ہے مگر اعلیٰ تعلیم کی کچھ زیادہ ہی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ڈاکٹر صاحب نے اعلیٰ تعلیم کے لیے مختص کیے جانے والے فنڈز بھی بتائے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ فنڈز کا حجم جان کر ہمیں شرم سی محسوس ہوئی، ایس ایم ایس پڑھتے ہوئے پلکوں کے ساتھ گردن بھی جھک گئی۔ نہیں نہیں، آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ ارے بھئی، تعلیم کا ذکر ہو تو ہماری گردن اس لیے نہیں جھکتی کہ ہم پڑھے لکھے نہیں ہیں! ٹھیک ہے، فی زمانہ کالم نگاری پڑھا لکھا ہونے کی دلیل نہیں مگر ہم واقعی تھوڑا بہت پڑھ لکھ گئے تھے جس کی بدولت اتنا ضرور سمجھ میں آگیا کہ اِس معاشرے میں زیادہ پڑھنے لکھنے کا کچھ خاص فائدہ نہیں! بس یہی سوچ کر ہم بہت پہلے یعنی بھری جوانی میں اخباری دنیا کے ہولیے۔ 
آئیے، دوبارہ ڈاکٹر شکیل فاروقی کی طرف چلتے ہیں۔ انہوں نے ایس ایم ایس کے ذریعے بتایا کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے صرف 75 ارب روپے مختص کیے جاتے ہیں۔ ہماری سالانہ فی کس آمدن 1512 ڈالر ہے جبکہ اعلیٰ تعلیم پر سالانہ صرف چار ڈالر فی کس مختص کیے جاتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی کی سالانہ آمدن 100 روپے ہو اور وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے صرف 25 پیسے مختص کرے۔ 
ڈاکٹر شکیل فاروقی نے ہمیں تحریک دینے کی کوشش کی کہ بجٹ کی تیاری کے دنوں میں متعلقہ محکموں، وزارتوں اور حلقوں کی طرف اس بات کی طرف دلائیں کہ اعلیٰ تعلیم کے بغیر اِس دنیا میں آگے بڑھنے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا اس لیے اعلیٰ تعلیم کا بجٹ بڑھایا جائے۔ 
ایس ایم ایس پڑھنے کے بعد کچھ دیر کے لیے ہماری تو سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا کہ ڈاکٹر صاحب آخر چاہتے کیا ہیں۔ پھر جب بات کچھ کچھ سمجھ میں آئی تو وہی ہوا جو ایسے مواقع پر ہوا کرتا ہے۔ یہ کہ ہم بہت زور سے ہنسے! آپ (اور ڈاکٹر شکیل فاروقی) برا نہ مانیں تو ہم عرض کریں کہ جب بھی کوئی ہمیں تعلیم کی زبوں حالی کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے تو ہماری ہنسی چُھوٹ جاتی ہے۔ آپ پھر غلط سمجھ رہے ہیں۔ ہم کوئی تعلیم پر تھوڑی ہنستے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں کچھ لوگ ہیں جنہیں ہر وقت تعلیم کی فکر کھائے جاتی ہے۔ اور جنہیں تعلیم دینے کی فکر میں یہ لوگ دُبلے ہوئے جاتے ہیں اُنہیں تو تعلیم کی ذرا بھی نہیں پڑی! یہ تو ایسا ہی معاملہ ہے جیسے آپ پلیٹ فارم پر متعلقہ افسران کی منت سماجت کرکے ٹرین کو رکوائیں، کسی کو پکڑ کر ٹرین پر سوار کرائیں اور وہ بھاگ نکلے۔ اور آپ پھر پکڑ کر لائیں تاکہ اُسے ٹرین پر سوار کرایا جاسکے اور وہ پھر بھاگ نکلے! 
ڈاکٹر شکیل فاروقی اور ان کے قبیل کے دوسرے بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ ملک میں تعلیم عام ہو۔ ان کی نیت اس قدر نیک ہے کہ صدقِ دل سے انہیں سلام کرنے کو جی چاہتا ہے ... اور جی کیا چاہتا ہے، سلام کرنا ہی چاہیے۔
تعلیم کا معاملہ ہمارے ہاں کب درست تھا؟ اور پھر اعلیٰ تعلیم! اس طرف توجہ دینے کی زحمت تو کسی نے گوارا ہی نہیں کی۔ جن کی اپنی کھوپڑیوں میں ابتدائی تعلیم بھی ڈھنگ سے داخل نہ ہو پائی ہو وہ اعلیٰ تعلیم کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کے بارے میں کیسے سوچ سکتے ہیں؟ 
تعلیم کے شعبے کو برباد کرنے میں اُن کا کردار نمایاں ہے جن کے ہاتھوں میں اقتدار و اختیار ہے مگر خیر، وہ لوگ بھی کچھ کم ذمہ دار نہیں جن کے ہاتھ میں اختیار تو نہیں ہے مگر وہ مکمل بے اختیار بھی نہیں۔ ایک عام پاکستانی کی ترجیحات میں تعلیم شامل نہیں۔ وہ بہت سے معاملات کو زندگی کا حصہ بنائے ہوئے ہے مگر تعلیم پر اس کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی اصل مسئلہ ہے۔ کسی گلی میں کچرا پڑا ہو تو کوئی بھی باہر کا آدمی اُسے اٹھاکر کہیں دور پھنکوا سکتا ہے مگر اِس سے گلی صاف نہیں ہوجائے گی کیونکہ گلی کے لوگ ہی صفائی نہ چاہیں تو اگلے ہی دن سے پھر کچرے کے ڈھیر لگتے چلے جائیں گے۔ 
اگر اہلِ پاکستان کو تعلیم یافتہ بنانا ہے تو حکومت اور غیر سرکاری ادارے ایک خاص حد تک کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ حتمی تجزیے میں تو خود پاکستانی ہی اِس معاملے کے حقیقی ذمہ دار ٹھہریں گے۔ حکومت اگر اپنی ذمہ داری پوری نہ کرے تو اُس سے جواب طلبی ضرور ہونی چاہیے مگر معاملہ صرف یہیں تک محدود نہ رکھا جائے۔ سب سے پہلے تو تمام پاکستانیوں اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنے کی تحریک دی جائے کہ انہیں پڑھنا لکھنا ہے بھی یا نہیں۔ 
تعلیم کی زبوں حالی میں ریاستی مشینری کی نا اہلی کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مگر جن کی تعلیم یقینی بنانے کے لیے احتجاج کیا جاتا ہے، شور مچایا جاتا ہے انہیں بھی سوچنا چاہیے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں، کیا کر رہے ہیں۔ فنڈز کی کمی بھی مسئلہ ہے مگر اُس سے کہیں بڑا مسئلہ ہے علم کے حصول کی سچّی لگن کا ناپید ہونا۔ قیامِ پاکستان کے بعد کم و بیش دو عشروں تک وسائل کی شدید قلّت تھی مگر کام کرنے کی لگن اور سکت کی قلّت نہ تھی۔ اور صنعتی اداروں کی طرح تعلیمی ادارے بھی محض لگن کی بنیاد پر کام کرتے رہے۔ والدین چاہتے تھے کہ ان کی اولاد پڑھ لکھ کر کچھ کرے، بہتر انسان بنے۔ 
اب ہر معاملے میں تفریح کے عنصر کو غیر معمولی اہمیت دی جارہی ہے۔ ہر معاملے کو خطرناک اور تباہ کن حد تک ہلکا پھلکا بنایا جارہا ہے تاکہ سنجیدگی کا گراف نیچا ہی رہے۔ علم کے حصول کا عمل جو بھرپور لگن اور سنجیدگی چاہتا ہے وہ اب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے پر دکھائی نہیں دیتی۔ تعلیم اور تربیت کا چولی دامن کا ساتھ مانا گیا ہے مگر اب تعلیم اور ''طربیت‘‘ اٹوٹ بندھن میں بندھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ہر سطح کے تعلیمی اداروں میں طلباء و طالبات کی خواہش ہے کہ تعلیم بالکل ہلکے پھلکے طریقے سے دی جائے تاکہ ذہن پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔ خواہش بری نہیں مگر ہر چیز ہنستے گاتے، جھومتے تھرکتے نہیں سکھائی جاسکتی۔ جہاں سنجیدہ ہونا لازم ہو وہاں سنجیدہ ہونا ہی پڑتا ہے۔ 
ڈاکٹر شکیل فاروقی اور ان کے ہم خیال افراد کی خدمت میں عرض ہے کہ قوم کسی اور راہ پر چل پڑی ہے۔ گستاخی معاف، تھوڑے سے فلمی انداز سے کہیں تو معاملہ یہ ہے کہ چھوڑ چھاڑ کے اپنے سلیم کی گلی، انار کلی ڈِسکو چلی! پہلے انار کلی کو ڈِسکو بار سے نکال کر سلیم کی گلی میں واپس لائیے۔ اس کے بعد ہی اُسے زندگی باعزت طریقے سے بسر کرنے کا ڈھنگ سکھایا جاسکے گا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں