"MIK" (space) message & send to 7575

اقرار اور انکار کے درمیان

بات تھی ہی کچھ ایسی کہ جو نہ روئے وہ انسان نہیں، پتھر کہلائے۔ جم منینی اور سِنڈی کی محبت نے تو رُلا رُلا دیا۔ 
جس زمانے میں ہم جی رہے ہیں اُسے پتا نہیں کیا کیا کہا جاتا ہے۔ یہ بات بہت دھڑلّے سے کہی جاتی ہے کہ مروّت اٹھ چکی ہے، شرافت مر چکی۔ اور یہ کہ کوئی کسی کا نہیں۔ کسی کو کسی کا احساس نہیں۔ اور بھی بہت کچھ کہا جاتا ہے مگر کوئی کتنا یاد رکھے۔ 
ایسے ماحول میں اگر کوئی اپنی محبت کو ثابت کرنے پر تُل جائے اور ثابت کرکے دم لے تو؟ اُسے تو داد دینا ہی پڑے گی۔ کینیڈا کے جم منینی نے کچھ ایسا کر دکھایا ہے کہ جو متاثر نہ ہو وہ بے حِس اور بے دِل کہلائے۔ منینی اور سِنڈی کی شادی 24 سال قبل ہوئی تھی۔ یہ محبت کی شادی تھی۔ اور محبت بھی ایسی کہ لوگوں نے روزِ اول سے محسوس کی۔ دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ بیٹا کرس جوان ہوا تو جم منینی کو گردوں کا کینسر ہو گیا۔ گزشتہ ماہ اُس کی حالت نازک ہو گئی اور ڈاکٹرز نے جواب دے دیا۔ جم منینی کو ہسپتال میں داخل کیا گیا تو صدمے کے مارے سِنڈی کو دل کا دورہ پڑ گیا۔ اُسے بھی ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ میاں بیوی کے کمرے ساتھ ساتھ تھے۔ منینی کے بچنے کی کوئی امید نہ رہی تو اُس نے ڈاکٹرز کو اپنی خواہش بتائی جسے سُن کر وہ حیران رہ گئے۔ منینی چاہتا تھا کہ جب دم نکلے تب بیوی اُس کے سامنے ہو۔ ڈاکٹرز اُسے بیوی کے کمرے میں لے گئے۔ منینی نے سِنڈی کا ہاتھ تھام لیا۔ سِنڈی کو خواب آور ادویہ دے کر سُلایا گیا تھا۔ وہ ابھی محوِ خواب ہی تھی کہ منینی کا دم نکل گیا۔ مرتے وقت اُس نے سِنڈی کا ہاتھ تھام رکھا تھا! یہ منظر ان کے بیٹے کرس نے کیمرے کے ذریعے محفوظ کر لیا۔ یہ تصویر انٹرنیٹ پر کروڑوں افراد دیکھ چکے ہیں۔ یہ دل گداز منظر دیکھ کر نہ جانے کتنے ہی دل پگھل گئے اور کتنی ہی آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے۔ کرس نے بتایا کہ اس کے والد اپنی محبت کو دیکھے بغیر اِس دنیا سے جانے کے لیے تیار نہ تھے! 
ہم یہ کہتے نہیں تھکتے کہ مغربی معاشرہ سراسر، یکسر مادّہ پرست ہوچکا ہے۔ اور یہ کہ وہاں خلوص، محبت اور اقدار کی کوئی قدر یا قیمت نہیں رہی۔ مغرب کی ترقی کو ظاہری چمک دمک قرار دیا جاتا ہے۔ یہ رونا بھی رویا جاتا ہے کہ مغرب میں جو کچھ ہے وہ محض دکھاوا ہے۔ اور یہ کہ اب وہاں ترقی، سکھ چَین اور آسائش ہی سب کچھ ہے، انسان کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ جم منینی اور سِنڈی نے مغربی معاشرے کو کوکھلا کہنے والوں کو زنّاٹے دار تھپّڑ رسید کیا ہے۔ اِن دونوں کی محبت سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ محبت وقت اور مقام کے اثرات سے بہت دور اور آزاد ہے۔ 
ہم آج بھی یہ راگ الاپتے نہیں تھکتے کہ مشرقی معاشرے میں اقدار زندہ ہیں۔ اور یہ کہ یہاں اب تک خلوص اور مروّت نے دم نہیں توڑا۔ ہم محبت، انسان دوستی اور شرافت کے دعویدار ہیں۔ یقیناً شرافت اور انسان دوستی ہمارا بہت بڑا اثاثہ تھی اور ہے۔ آنکھ میں شرم اور مروّت دو بڑے ستون ہیں جن کے سہارے ہمارے معاشرے کی عمارت کسی نہ کسی طور اب بھی کھڑی ہے۔ مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سب کچھ اچھا ہے۔ 
اپنی تمام خرابیوں کے باوجود مغربی معاشرہ اِس بات پر تو داد کا حقدار ٹھہرتا ہی ہے کہ وہ منافق نہیں، دو رُخے پن کا حامل نہیں۔ وہاں جو کچھ بھی ہے، سامنے ہے اور سب پر عیاں ہے۔ جھوٹ سمیت بہت سی اخلاقی خرابیوں کو مغربی معاشرے سے دیس نکالا دیا جاچکا ہے۔ جھوٹ بولنے والے کو معاف کرنے کی روایت مغرب نے ترک کر دی ہے۔ حد یہ ہے کہ صدر بھی جھوٹ بولے تو مواخذے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بل کلنٹن نے مونا لیونسکی سے جو ناجائز تعلق استوار کیا تھا وہ امریکی معاشرے کے لیے قابل اعتراض نہ تھا۔ سارا جھگڑا صرف اس بات پر تھا کہ صدر نے جھوٹ بول کر قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کی تھی! 
اہل مغرب نے دنیا کو پانے کے لیے بہت کچھ کھو دیا ہے۔ ان کے نزدیک یہ دنیا ہی سب کچھ ہے۔ روحانیت کو اپنی زندگی سے کھرچ کر پھینکنے والے اب شاید پچھتا بھی رہے ہیں۔ مگر خیر، یہ بات بھی قابل غور اور قابل داد ہے کہ اہل مغرب نے جو سوچا اُس پر پورے اخلاص سے عمل کیا۔ دنیا کو پانے کے لیے جو کچھ بھی کیا جا سکتا تھا وہ انہوں نے کیا۔ یہ دنیا محنت کرنے والوں کے ہاتھ آتی ہے۔ دنیا کو اپنا بنانے کے لیے اہل مغرب نے کئی صدیوں تک ان تھک محنت کی ہے اور اب اس محنت کا پھل کھا رہے ہیں۔ اس دنیا میں گزارنے کے لیے ملنے والے ساٹھ ستر برس زیادہ سے زیادہ آسائش اور سکون سے گزریں اس امر کو یقینی بنانے کے لیے انہوں نے صدیوں منصوبہ بندی کی ہے اور پھر اس پر عمل بھی کیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ان کی زندگی میں سکھ چَین اور آرام ہے۔ کوئی بھی معترض ہو سکتا ہے کہ اہل مغرب نے بہت کچھ کھو دیا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اہل مغرب نے دنیا کو پانے کے لیے بہت کچھ گنوایا بھی ہے مگر یہ کیا کم ہے کہ وہ ریا کاری اور منافقت سے کوسوں دور چلے گئے ہیں! 
ہم آج بھی معلّق ہیں۔ ہم اِس دنیا کو بھی پانا چاہتے ہیں اور آخرت میں بھی بہت کچھ حاصل کرنے کے متمنی ہیں مگر اس کے لیے جو کچھ کرنا ضروری ہے وہ کرنے سے یکسر گریزاں ہیں۔ دنیا کو پانے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے، ذاتی قابلیت کا گراف بلند کرنا پڑتا ہے، دوسروں کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ آخرت میں کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب ہم نے اس دنیا میں اپنا وقت اچھی طرح گزارا ہو، کسی کو تکلیف نہ دی ہو، کسی کا برا نہ کیا ہو۔ اگر ہم اپنی زندگی کا پوری دیانت اور مکمل غیر جانب داری سے جائزہ لیں تو اندازہ ہو گا کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں وہ ہمیں دنیا دلا سکتا ہے نہ آخرت۔ ہم پورے دل سے تو اس دنیا کے بھی نہیں ہو سکے۔ ایسے میں کیونکر تسلیم کر لیا جائے کہ آخرت ہماری ہوگی؟ یہ دنیا کمرۂ امتحان کے مانند ہے۔ جو کچھ بھی ہم یہاں کرتے ہیں اُس کی بنیاد پر ہمیں اُخروی زندگی میں مارکس ملیں گے۔ اس نکتے پر تو غور کرنا ہی پڑے گا کہ ہم یہاں ایسا کیا کر رہے ہیں کہ وہاں ہماری توقیر ہو، اچھا صِلہ ملے۔ 
جس معاشرے کو ہم کھوکھلا قرار دے کر لتاڑتے نہیں تھکتے وہ کسی نہ کسی سطح پر زندہ دکھائی دیتا ہے۔ اُخروی زندگی کو مغربی معاشرے میں اس وقت کچھ خاص اہمیت حاصل نہیں مگر اس دنیا میں اپنا وقت ڈھنگ سے گزار کر مغربی معاشرے کے لوگ اُخروی زندگی کا سامان تو کر رہے ہیں۔ عمومی سطح پر انسان دوستی اور احساس تو پایا ہی جاتا ہے اور نظر بھی آتا ہے۔ ہم محض دعووں کی منزل پر رُکے ہوئے ہیں۔ ہم اس بات پر فخر کرتے نہیں تھکتے کہ ہمارے شادی کا ادارہ اب بھی قائم و دائم ہے۔ ٹھیک ہے مگر کس طور؟ کیا ہم اس ادارے کے ذریعے اپنی زندگیوں کو حقیقی راحت سے مُزیّن کر پا رہے ہیں؟ ہمارے ہاں مرد و زن شادی کے بندھن میں بندھ کر چالیس پچاس بھی ساتھ تو رہ لیتے ہیں مگر اس تعلق میں وہ خلوص شامل نہیں ہو پاتا جو ازدواجی زندگی کا بنیادی تقاضا ہے۔ محض نبھاتے رہنے کو ازدواجی زندگی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 
جم منینی کا تعلق ایک ایسے معاشرے سے تھا جس میں شادی جیسا ادارہ برائے نام رہ گیا ہے۔ جب نبھتی نہیں تو لوگ الگ ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی بیشتر جوڑوں میں نبھتی نہیں مگر محض دِکھاوے کے لیے وہ ساتھ رہتے ہیں۔ اہل مغرب میں یہ ''خوبی‘‘ نہیں پائی جاتی۔ اُن کا اچھا، بُرا سب سامنے ہے۔ 
مشرقی معاشروں پر حقیقت پسندی کا قرض چڑھا ہوا ہے۔ ہم اب تک اقرار اور انکار کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔ نوبت جھوٹے اقرار کو بچانے کے لیے سچے انکار سے ہاتھ دھو بیٹھنے تک آپہنچی ہے! 
اس مرحلے پر ہمیں ''شرابی‘‘ کا ایک جملہ یاد آ رہا ہے کہ ''مونچھیں ہوں تو نتھو لعل جیسی ہوں، ورنہ نہ ہوں!‘‘ مغرب یہ رمز پا چکا ہے۔ ہم اب تک مونچھیں رکھنے کی نفسیاتی تیاری نہیں کر پائے اور دکھاوا یہی کر رہے ہیں کہ ہماری مونچھیں گھنی ہیں! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں