واحد سپر پاور کا صدر منتخب ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے ایسی پلٹی کھائی ہے کہ دنیا حیران رہ گئی ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ انتخابی مہم کے دوران ایسا بہت کچھ کہنا پڑتا ہے جو دل سے نہیں نکلتا بلکہ دماغ کے تابع ہوتا ہے۔ انتخابی مہم کی منصوبہ بندی کرنے والے بھی امیدوار کو بہت کچھ سمجھاتے ہیں تاکہ ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ رکھنا ممکن اور آسان ہو۔
انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمانوں کے بارے میں پتا نہیں کیا کیا کہا تھا۔ غیر قانونی تارکین وطن کو بیک جنبشِ قلم ملک سے نکال دینے کے اعلان نے بھی ہنگامہ برپا کیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ ٹرمپ نے ہندوؤں کو خوش کرنے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ یہی سبب ہے کہ ان کی کامیابی پر بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں نے مٹھائی بانٹی۔
مگر یہ کیا؟ انتخابی کامیابی کا اعلان ہوتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ کا لہجہ ایسا تبدیل ہوا کہ دیکھنے اور سننے والے حیران رہ گئے۔ کہاں تو وہ مسلمانوں پر امریکا کے دروازے بند کرنے کی باتیں کر رہے تھے اور کہاں یہ یو ٹرن کہ انہوں نے پاکستان سے محبت کا اظہار کرنے میں بُخل سے کام لیا نہ تاخیر و تساہل سے۔ پاکستانی اُن کے بارے میں پتا نہیں کیا کیا گمان کر رہے تھے۔ ایسے میں اُنہوں نے ہماری بدگمانیوں کے غبارے کو محض ایک جملے کی پِن مار کر پھاڑ دیا۔ ایک مداح کو وڈیو بناتے دیکھ کر ٹرمپ کیمرے کے سامنے آکر بولے کہ وہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں!
یہ خبر پڑھ کر ہم حیران تو کیا ہوتے، سہم کر ضرور رہ گئے۔ فوری طور پر اور کچھ تو نہ سُوجھا، لتا منگیشکر کا گایا ہوا 1950 میں ریلیز ہونے والی فلم ''نرالا‘‘ کا ایک گیت یاد آگیا جس کا مکھڑا تھا ع
ایسی محبت سے ہم باز آئے
ہمارا سہمنا بالکل جائز تھا۔ بین الاقوامی تعلقات پر بہت گہری نظر نہ سہی مگر عامل صحافی ہونے کے ناتے پاک امریکا تعلقات کو، سرسری طور پر ہی سہی، ہم بھی جانتے ہیں۔ پاک امریکا تعلقات کی نوعیت ایسی رہی ہے کہ اگر ان تعلقات کو اشعار یا گیتوں کی شکل میں بیان کیا جائے تو کم از کم تین چار صخیم جلدیں تیار ہوسکتی ہیں!
ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان سے محبت کی بات کہی تو ہم لتا منگیشکر کے سامنے سے گزرتے ہوئے میڈم نور جہاں تک پہنچ گئے جنہوں نے 1950 کے عشرے میں ریلیز کی جانے والی فلم ''انار کلی‘‘ میں نہایت رسیلے گیت گائے تھے۔ انہی میں سے ایک گیت کا مکھڑا تھا ع
کہاں تک سُنوگے، کہاں تک سناؤں؟
ہزاروں ہی شکوے ہیں، کیا کیا بتاؤں؟
اسی گیت کے ایک انترے میں انار کلی نے صاحبِ عالم یعنی شہزادہ سلیم کے مہربان و ملتفت ہونے پر سراسیمگی اور شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے میڈم کی زبانی کہا تھا ع
حضور آپ پر اِک جہاں کی نظر ہے
نگاہِ کرم سے بھی مجھ کو یہ ڈر ہے
جہاں کی نظر میں کہیں آ نہ جاؤں!
ایک زمانے سے ہم پر امریکا کی نظر ہے۔ ہم پر نظر تو خیر اور بھی کئی عالمی شہزادوں نے کی ہے مگر امریکا ہمیں ہر حال میں ''اپنا‘‘ بناکر رکھنا چاہتا ہے۔ یہ ''اپنا پن‘‘ ہمیں کتنا مہنگا پڑا ہے یہ صرف ہم جانتے ہیں۔ ہم بے زبانی کی زبان سے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ع
مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا!
امریکا نے جس پر ''کرم‘‘ کی نظر کی ہے وہ پھر کم ہی کسی کو نظر آیا ہے۔ بقول ابن انشاؔ مرحوم بِلّے نے چِڑے کے سَر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور پھیرتا ہی چلا گیا! امریکا کی خاص الخاص خاصیت یہ رہی ہے کہ وہ مسکراتے ہوئے جس کی طرف متلفت ہوتا ہے وہ یا تو مسکرانا بھول جاتا ہے یا پھر مسکرانے کے قابل ہی نہیں رہتا ؎
زمانہ ہوا ہے مجھے مسکرائے
محبت میں کیا کیا نہ صدمے اٹھائے
کسے یاد رکھوں، کسے بھول جاؤں؟
امریکا سے دوستی کا یارا کس کو ہے؟ جن کا یہ دعوٰی ہے کہ وہ امریکا سے نبھاکر رہ سکتے ہیں، چل سکتے ہیں اُن کی راہوں میں اِتنی رکاوٹیں کھڑی کردی جاتی ہیں کہ چلنا محال ہو جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جب کبھی امریکا ''نگاہِ التفات‘‘ ڈالتا ہے تب بہت سے چھوٹے ممالک کے لیے دردِ سر بڑھ جاتا ہے۔ یہ لاچار ممالک امریکا کے آگے ہاتھ جوڑ دیتے ہیں کہ ؎
اب تماشا ''محبت‘‘ کا رہنے دو
تم نکھر جاؤگے، ہم بکھر جائیں گے!
امریکا کو دعوٰی ہے کہ ترقی کی ہے تو بس اُس نے اور ترقی کے گُر سکھا سکتا ہے تو صرف وہ، اور کوئی نہیں۔ یعنی آؤ، گلے لگو اور ''اکتساب‘‘ کرو! یہ دعوت قبول کرتے ہوئے، یعنی اپنی موت کو دعوت دیتے ہوئے، جو قوم آگے بڑھتی ہے باقی دُنیا اُس کے حوصلے کو رشک اور دماغی صحت کو شک کی نظر سے دیکھتی ہے!
واحد سپر پاور کی حیثیت سے اب امریکا ہی کھیل کے اُصول طے کرتا ہے۔ جو کچھ وہ کہہ دے اُسے محض اُصول نہیں بلکہ قانون کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ قصور وار ہوتے ہوئے بھی بے قصور قرار پاتا ہے اور کمزور ممالک ع
خطا بس یہی ہے کہ میں بے خطا ہوں
کی تصویر بن کر رہ جاتے ہیں۔
امریکا کی پالیسیاں اور ''طریقِ واردات‘‘ ایسا ہے کہ بیشتر معاملات میں وہ خرابیاں پیدا کرنے کے باوجود صاف بچ نکلتا ہے اور بعض معاملات میں تو اقوامِ عالم صاف محسوس کرتی ہیں ع
وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب اُلٹا
پاکستان کے لیے بھی امریکا سے ''یاری‘‘ ہمالیہ سے اونچی اور دنیا بھر کے پہاڑوں کے مجموعی وزن سے بھاری ثابت ہوئی ہے۔ اور حتمی تجزیے میں یعنی فیصلہ کن رائے ہم غریبانِ وطن سے لی جانی چاہیے کہ قبر کا حال تو مُردے ہی جانتے ہیں!
بارہا ایسا ہوا ہے کہ ہم (یعنی پاکستانی قوم) نے یہ کہتے ہوئے کسی اور طرف جانے کی کوشش کی ہے کہ ؎
نہ تم بے وفا ہو نہ ہم بے وفا ہیں
مگر کیا کریں اپنی راہیں جُدا ہیں!
مگر امریکا بہادر نے ہمارا ہاتھ اس قدر مضبوطی سے تھام رکھا ہے کہ چُھڑانا مشکل ثابت ہوتا رہا ہے۔ مجموعی کیفیت یہ رہی ہے کہ ہم تو کمبل کو چھوڑتے ہیں مگر کمبل ہمیں نہیں چھوڑتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوستی نے ''پارٹنر شپ‘‘ کی شکل اختیار کی ہے۔ آج کی سفارت کاری میں دوستی ووستی کوئی چیز نہیں۔ جو بھی کچھ ہے وہ خالص کاروباری سطح پر ہے۔ صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا ملے گا اور کیا دینا پڑے گا۔ باقی سب مایا ہے۔ واحد سپر پاور کے ساتھ ''پارٹنر شپ‘‘ ہی نے معاملات کو اِس نہج تک پہنچادیا ہے کہ جب کبھی امریکا نے ''ببانگِ دُہل‘‘ ہمیں دوست کی حیثیت سے ''اون‘‘ کیا ہے، ہمارے دلوں سے بے ساختہ نکلا ہے ع
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو!
جب جب امریکا نے ''محبت‘‘ جتائی ہے، ہم بساط بھر سہم سہم گئے ہیں۔ اوروں کی طرح ہم نے بھی مشاہدہ کیا ہے کہ جس کسی نے بھی امریکا سے کسی حد تک تصادم کی پالیسی اپنائی ہے وہ معقول حد تک کامیاب رہا ہے۔ مگر اب جھوٹ کیا بولیں، اِتنی سکت ہے نہ حوصلہ ورنہ ہم بھی کہہ گزرتے کہ ؎
نفرت بھی کریں آؤ کہ حسرت ہی نہ رہ جائے
چاہت کا تجربہ تو بہت خوب رہا ہے!
بہر کیف، ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ویب سائٹ سے وہ بیان ڈیلیٹ کردیا ہے جس میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ صدر منتخب ہونے پر وہ امریکا کے دروازے مسلمانوں پر بند کردیں گے۔ گویا پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ بیان انتخابی مہم کے ایک بنیادی تقاضے کے تحت دیا گیا تھا۔ اور یہ کہ اب اُن کا دل بدل چکا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہو تو کیا بات ہے۔ مگر کم و بیش سات عشروں کے تجربے کو دیکھتے ہوئے یقین تو نہیں آتا ؎
تو ... اور خیالِ خاطرِ اہلِ وفا کرے
اُمّید تو نہیں ہے مگر ہاں خدا کرے