سیاست کشمکش کا نام ہے۔ جو لوگ اقتدار میں ہوں انہیں اپنی مرضی کے مطابق چلنا ہوتا ہے اور جو لوگ ان کے سامنے ڈٹے ہوئے ہوں یعنی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہوں انہیں اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کو ایسا کرنے سے روکنے کی اپنی سی کوشش کرتے رہنا ہوتا ہے۔ اس کُلیے کی رُو سے دیکھیے تو ہماری سیاست بھی ''اصولی‘‘ ہے۔ دنیا بھر میں یہی تو ہوتا ہے۔ پھر ہماری سیاست میں انوکھا کیا ہے؟
ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی دیکھا ہے کہ جو لوگ منتخب ہوکر آتے اور حکومت بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ جب تک سورج چاند رہیں تب تک ان کا اقتدار بھی باقی رہے۔ اور دوسری طرف اپوزیشن کی بینچوں پر بیٹھے ہوئے لوگ چاہتے ہیں کہ حکومت کو پانچ سالہ مدت بھی پوری کرنے کا موقع نہ دیا جائے۔
سابق صدر مملکت آصف علی زرداری ایک بار پھر میدان میں آگئے ہیں اور الیکشن لڑنے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ جس پارلیمنٹ سے وہ بحیثیت صدر خطاب کرچکے ہیں اُسی میں رکن کی حیثیت سے بیٹھیں گے۔ مگر خیر، یہ کوئی ایسا انوکھا واقعہ بھی نہیں۔ فاروق احمد لغاری مرحوم بھی اس منزل سے گزر چکے ہیں۔ آصف زرداری نے واپس آتے ہی بہت کچھ واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً یہ کہ وہ کسی ڈیل کے نتیجے میں واپس نہیں آئے بلکہ واپسی ڈاکٹرز کے مشورے پر ہوئی ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ جب بھی ڈاکٹرز کہیں گے، وہ ایک بار پھر پردیسی ہوجائیں گے۔ مگر پھر بھی وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ''پردیسیوں سے نہ اکھیاں ملانا‘‘ والے راگ کے جھانسے میں نہ آئیں اور اُن پر بھروسہ کریں۔ عوام کے مفادات سے متعلق اپنی سنجیدگی ثابت کرنے کے لیے انہوں نے حکومت کے خلاف بھرپور تحریک چلانے کی ''نوید‘‘ بھی سنائی ہے۔
تحریک؟ وہ کیوں؟ یہ سوال تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان سے بھی لوگ پوچھ پوچھ کر تھک چکے ہیں۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ جس طور نام کا اثر انسان کی شخصیت پر ضرور مرتب ہوتا ہے بالکل اُسی طور پارٹی یا تنظیم کے نام کا اثر اُس کے قائدین کی نفسی ساخت پر ضرور مرتب ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ عمران خان نے اپنی پارٹی کے نام کی لاج رکھنے کے لیے ہر وقت کوئی نہ کوئی تحریک چلاکر اُس سے انصاف کرنے کی قسم کھائی ہوئی ہے! ہمیں یقین ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ ''مقتضائِ طبیعتش اینست‘‘ والا معاملہ نہیں ہے۔ یعنی خان صاحب مزاجاً ایسے ہی نہیں۔ بات یہ ہے کہ ؎
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جُنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوان بنا دیتے ہیں!
خان صاحب کرکٹ میں تھے تو ان میں سخت گیری بھی تھی اور اصول پسندی بھی۔ ٹیلنٹ کو پرکھنے والی نظر بھی اُن کے پاس تھی اور جس میں ٹیلنٹ ہو اُس سے بھرپور کام لینے کی صلاحیت بھی۔ تو پھر اب ایسا کیا ہوگیا ہے؟ لوگ پی ٹی آئی کے چیئرمین کو سمجھا سمجھاکر تھک گئے مگر وہ ہیں کہ سیاسی روش تبدیل کرنے کو تیار نہیں۔ کبھی کبھی تو اُن کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ؎
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی
یعنی یہ کہ کوئی پسِ پردہ قوت اُن کی طبیعت کو طاعت و زہد کی طرف نہیں آنے دیتی۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ خان صاحب حالات کے تقاضوں کے مطابق کچھ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اور قدم قدم پر ع
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے مجھے کُفر
والی کیفیت کیوں پیدا ہوجاتی ہے؟ بات بات پر ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ خان صاحب جو کچھ نہیں کہنا اور کرنا چاہتے وہی کہنے اور کرنے پر مجبور ہیں؟ وہ وقفے وقفے سے احتجاج کرنے اور دھرنا دینے پر کیوں بضد ہو جاتے ہیں؟ اور دھرنے بھی ایسے کہ جو بے دم ہوتے ہوتے خان صاحب کو اُس منزل تک پہنچا دیتے ہیں جس کے بارے میں غالبؔ نے کہا تھا ع
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مِرے آگے
کالم شروع ہوا تھا سابق صدر آصف زرداری کے ذکرِ خیر سے جن کے حوالے سے بہت سے مخالفین کا خیال ہے کہ اُن کی وطن واپسی کو امرِ خیر نہ سمجھا جائے! یعنی یہ کہ وہ کوئی ایجنڈا لے کر آئے ہیں۔ ایجنڈا تو ہونا ہی ہے۔ عام انتخابات میں تقریباً سوا سال کا وقت رہ گیا ہے۔ ایسے میں ووٹ بینک کو مزید ٹوٹنے سے بچانا تو لازم ٹھہرتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے اس بار بھی سندھ پر حکمرانی کے دوران عوام کے مسائل حل کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ ایسے میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور شریک چیئرمین دونوں ہی کے کاندھوں پر پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دینے کی بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ آصف زرداری چاہتے ہیں کہ پاناما لیکس کے اِشو کو تھوڑا بہت بروئِ کار لاکر حکومت کے خلاف تحریک چلائی جائے یعنی عوام کو تھوڑا بہت متحرّک کیا جائے، اُن کا لہو گرمایا جائے۔ وہ منتخب حکومت کی میعاد کے آخری مرحلے میں یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ اُنہیں عوام کے مفاد کا بھرپور احساس ہے اور اُن کی خاطر کچھ بھی کر گزرنے کے لیے تیار ہیں۔
ہم تحریکِ انصاف کو روتے آئے ہیں کہ اُس نے بلا جواز احتجاج کیا اور دھرنا دیا۔ یہاں گرینڈ الائنس بناکر حکومت کے خلاف جانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ ساڑھے تین سال کے دوران ایک بس مولانا فضل الرحمن نے ''وفاداری بہ شرطِ اُستواری ...‘‘ والے اُصول پر کاربند رہ کر دکھایا ہے۔ دوسرے نمبر پر اگر کوئی ہے تو وہ ترک صدر رجب طیب اردوان ہیں جنہوں نے پاکستان آ آکر ''اندرون و بیرون بھاٹی گیٹ‘‘ ن لیگ کی حکومت کی ساکھ کو مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے!
تفنّن برطرف، حق یہ ہے کہ ساڑھے تین سال کے دوران ن لیگ کی کارکردگی بہت اچھی نہیں رہی تو بہت بُری بھی قرار نہیں دی جاسکتی۔ مخالفین نے احتجاج کا کوئی جواز سوچا نہ منصوبہ بندی کی۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ہر بار اُنہیں خاک چاٹنی پڑی۔ یعنی احتجاجی سیاست کا یہ مآل اُن کے اپنے اعمال کا نتیجہ تھا، اِس میں ن لیگ کا کوئی کمال نہ تھا۔
عمران خان ساڑھے تین سال کے دوران ہر مرحلے پر عجلت میں دکھائی دیئے ہیں۔ اور اب آصف زرداری بھی حکومت کے خلاف کِلّا ٹھونکنے کے ارادے سے آئے ہیں تو عجلت ہی میں دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت کے خلاف بھرپور تحریک چلانے کا عندیہ دیا جارہا ہے مگر ابھی تک کوئی ایسا اِشو تلاش نہیں کیا جاسکا ہے جسے بیج کی حیثیت سے بروئِ کار لاکر احتجاج کی فصل تیار کی جاسکے، دھرنے کو بار آور بنایا جاسکے۔
کچھ دن ہوئے، خواجہ سعد رفیق نے کہا تھا کہ عمران خان نے یو ٹرن میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ بات مزے کی ہے اور لوگوں نے اس کا بھرپور مزا لیا۔ مگر کیا یو ٹرن میں پی ایچ ڈی صرف عمران خان نے کی ہے؟ طُرفہ تماشا یہ ہے کہ یہاں صرف سیاست دان اپنی بات سے نہیں پھرتے، لوگ بھی سوچ اور ارادے سے پھر جاتے ہیں۔ اقتدار کے مزے لوٹنے والے اپنی جگہ اور اُن کی راہ میں روڑے اٹکاکر اپنا اُلّو سیدھا کرنے کی اپنی سی کوشش کرنے والے بھی اپنی جگہ مگر سوال یہ ہے کہ عوام کہاں کھڑے ہیں، وہ کیا چاہتے ہیں اور کیا کرنے کی پوزیشن میں ہیں؟ عمران خان اور دوسرے بہت سے سیاست دان اپنے اپنے سیاسی سالن میں حسبِ ضرورت و ذائقہ یو ٹرن کا نمک ڈالتے آئے ہیں۔ ٹھیک ہے، مگر عوام بھی تو یو ٹرن لیتے رہنے کے عادی ہیں۔ عوام نے بھی تو یو ٹرن میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے! یو ٹرن کیا ہے؟ جہاں فیصلہ کرنا لازم ہے اُس مقام سے ہٹ جانا، آگے بڑھ جانا یا پسپائی اختیار کرنا۔ یعنی فیصلہ نہ کرنا اور بات سے پھر جانا۔ اہلِ پاکستان دنیا بھر کا علم رکھتے ہیں اور رات دن بول بول کر اِس کا اظہار بھی کرتے ہیں مگر جب فیصلے کی گھڑی آتی ہے تو یو ٹرن لے لیتے ہیں۔ پورے سیاسی ماحول کو دیکھ اور سمجھ کر عوام کا اجتماعی ذہن بھی تو کسی نہ کسی نتیجے تک پہنچتا ہے مگر جب فیصلہ کن انداز اختیار کرنے کی گھڑی آتی ہے تو یہ اجتماعی ذہن یو ٹرن لے لیتا ہے۔ لوگ خوف، تعصّب اور لگی بندھی، محدود سوچ کے بندھن توڑنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔
اگر سیاست دانوں کو کچھ کرنے پر مجبور کرنا ہے تو پہلے عوام کو یو ٹرن میں لی ہوئی اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری پھینکنا پڑے گی۔ جب تک عوام ایسا نہیں کریں گے، اُنہیں مفادات کے حوالے سے پرائمری کلاسز میں زیر تعلیم رہنے پر مجبور کیا جاتا رہے گا۔