زندگی گزرنی چاہیے یا گزارنی چاہیے؟ یہ سوال ایک زمانے سے زیر بحث رہا ہے۔ ہم تو غور فرما لیتے ہیں، زندگی کو اس بات سے کچھ خاص غرض نہیں۔ وہ تو بس گزرتی ہی چلی جاتی ہے۔ اور جب گزر چکتی ہے تب ہمیں اندازہ ہو پاتا ہے کہ کیا قیامت گزر گئی ہے۔
سب چاہتے ہیں کہ زندگی خوب گزرے مگر اِس کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے وہ کرنے کی توفیق کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ کچھ کرنے کی توفیق تو تب نصیب ہو کہ جب کوئی کچھ کرنے پر اپنے دل اور دماغ کو آمادہ کرے۔
یہ مصرع تو آپ نے بھی سنا ہوگا کہ
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
یعنی شاعر کا ''نظریہ‘‘ یہ ہے کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ زندگی خوب گزرے تو مل بیٹھنا چاہیے۔ لو، کرلو بات۔ مل بیٹھنے پر یقین رکھنے ہی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ اب ہر طرف صرف مل بیٹھنا ہی رہ گیا ہے یعنی ''خوب‘‘ گزر رہی ہے! تمام معاملات ''نشستند و گفتند و برخاستند‘‘ کی منزل میں یوں اٹک کر رہ گئے ہیں کہ اِس سے آگے کچھ سُوجھتا ہی نہیں۔
اب ذرا ایک ''قابل غور‘‘ شعر ملاحظہ فرمائیے۔ ؎
زندگی ہے تو ابھی زندہ ہوں
موت آئے گی تو مر جاؤں گا
اس شعر میں 13 الفاظ ہیں۔ پورے شعر میں زبان کے اصولوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ وزن بھی پورا ہے یعنی سکتے کا نام و نشان نہیں۔ بحر بھی واضح ہے یعنی ہر مصرع متوازن اور ایک ہی بحر میں ہے۔ مگر؟ مفہوم کچھ نہیں! پہلی بار پڑھنے پر محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے کیا بات کہی ہے! مگر دوسری بار پڑھنے پر اندازہ ہوگا کہ پورے شعر میں کوئی نئی بات نہیں کہی گئی، محظ لفّاظی جھاڑی گئی ہے! اس نوعیت کے ہزار، بلکہ لاکھ اشعار بھی پڑھ جائیے تو کچھ نہیں ملے گا، کچھ سیکھنا نصیب نہ ہوگا۔ ہماری زندگی بھی اب اس شعر کی تصویر ہوئی جاتی ہے۔ جس طور یہ شعر صرف الفاظ کا مجموعہ ہے اور اس میں دور دور تک کہیں بھی مفہوم یا معنویت کا نام و نشان تک نہیں بالکل اُسی طور ہم بھی اب خون، گوشت اور ہڈیوں کا مجموعہ ہوکر رہ گئے ہیں۔ دھڑکنیں برقرار ہیں، نبض بھی چل رہی ہے اور سانس بھی آ اور جارہی ہے یعنی ہمارے وجود کے شعر میں بھی قافیہ، ردیف، وزن اور بحر وغیرہ کا پورا اور بے داغ اہتمام ہے۔ کمی ہے تو بس مفہوم کی۔ اِس تسلسل میں کہیں معنویت کا نشان نہیں ملتا۔ سانسوں کے تسلسل کو اگر زندگی سمجھنے کا شوق ہے تو سمجھتے رہیے، کس نے روکا ہے؟ ؎
وہ غالبؔ تھے جن کے لیے مغل بادشاہت کے خاتمے کے بعد کی دِلّی میں دن کو رات اور رات کو دن کرنا عذاب ٹھہرا تھا۔ وقت تھا کہ گزرنے کا نام نہ لیتا تھا۔ طبیعت تھی کہ سنبھلتی نہ تھی۔ لوگ جینے کے ہاتھوں روز مرتے تھے۔ اِس کرب کو بیان کرنے کے لیے غالبؔ کو کہنا پڑا تھا ع
صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شیر کا
ہمارے لیے حالات نے بڑی آسانی کردی ہے۔ اب شام کو صبح کرنا یا صبح کو شام میں بدلنا ہی تو آسان رہ گیا ہے اور اِن دو انتہاؤں کے درمیان جو کچھ ہے بس وہی پریشان کن ہے۔
ایک دور تھا کہ محض زندگی میسر نہ تھی بلکہ اُسے ڈھنگ سے بسر کرنے کے لیے مطلوب شعور بھی اپنا وجود رکھتا تھا اور خاصی بلند سطح پر تھا۔ مگر خیر، اُس دور کو گزرے ہوئے کئی عشرے گزر چکے ہیں۔ اب زندگی کے نام پر خدا جانے کتنی ہی لایعنی کیفیات رہ گئی ہیں جو ہمارے وجود سے چِمٹی ہوئی ہیں۔ لوگ اول تو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اور اگر کوئی یہ کوشش کر گزرے تو مزید الجھ کر رہ جاتا ہے۔ ؎
کوئی اُمید، نہ حسرت، نہ آرزو نہ طلب
کہاں کی زیست؟ دِنوں کا شمار باقی ہے!
زندگی محض دنوں کے شمار میں تبدیل ہوکر کیوں نہ رہ جائے؟ ذہن خیالات سے عاری اور دل آرزوؤں، امیدوں سے گریزاں ہیں۔ کہیں کوئی امنگ ہو تو اپنے ہونے کا احساس دلائے، اعمال میں اپنی جھلک دکھائے۔ باتوں میں قنوطیت کا گراف ہے کہ بلند سے بلند تر ہوتا جاتا ہے۔ پژمردگی ہے کہ لہجوں میں اپنی جڑ مضبوط کرتی جاتی ہے۔ زندگی میں معنویت کہاں سے پیدا ہو جب معاملہ یہ ہو کہ ع
نہ کوئی خواب، نہ کوئی خیال ہے صاحب
ایسے میں یہ سوال ذہن میں اُبھر سکتا ہے کہ زندگی سے معنویت گئی کہاں؟ عرض ہے کہ زندگی سے معنویت خود نہیں گئی، ہم نے رخصت کی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ ہم نے اسے چلتا کردیا ہے۔ جب ہر معاملے کو ایک مخصوص عینک کی مدد سے دیکھا جائے گا تو یہی ہوگا۔ ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں
مخصوص عینک؟ جی ہاں، آخرت کو بھول کر اِس دنیا کی زندگی اور یہاں کیے جانے والے افعال ہی کو سب کچھ سمجھ لینے کے نتیجے ہی میں ہم یہاں تک پہنچے ہیں۔ آج ہم نے اپنی آنکھوں پر مادّہ پرستی کی عینک چڑھا رکھی ہے۔ اب ہر معاملے کو نفع و ضرر کی کسوٹی پر پرکھا جارہا ہے۔ نازک اور حسّاس ترین رشتے بھی مادّہ پرست ، تاجرانہ ذہنیت کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ سب کچھ صرف اِس نکتے پر مرکوز ہوکر رہ گیا ہے کہ کوئی کام کیجیے تو یافت کیا ہوگی یعنی مال کتنا ملے گا۔ لوگ بھلائی کے کام بھی کرتے ہیں تو نیت کا فتور جھلک رہا ہوتا ہے۔ کسی کی مدد بھی اللہ کی رضا سے کہیں بڑھ کر ذاتی مفادات کو بنیاد بناکر کی جاتی ہے۔
ہم اِس دنیا میں جو کچھ بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ اپنی اصل میں کچھ اور نکلتا ہے۔ آنکھ بار بار دھوکا کھا جاتی ہے۔ ؎
کھا رہی ہے قدم قدم پہ فریب
اِس نظر کی بساط ہی کیا ہے!
دیکھنے کا عمل اگر صرف ظاہر کی آنکھ کے سپرد کردیا جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ دیکھنے والی اصل آنکھ تو باطن میں، دل میں ہوا کرتی ہے۔ علامہ نے کہا تھا ؎
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
ہم ظاہر کی منزل میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ باطن کو یوں بھلادیا گیا ہے جیسے اِس کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ اِس روش پر گامزن رہنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب ہم صرف اور ظاہری وجود پر قانع ہوکر رہ گئے ہیں۔ بہت کچھ ہے جو ہے مگر دکھائی نہیں دیتا۔ اُسے احساس کے دائرے ہی میں دیکھا، سمجھا اور پرکھا جاسکتا ہے مگر ہم کسی بھی نادیدہ حقیقت کو درخورِ اعتناء سمجھنے پر مائل ہی نہیں۔
زندگی میں معنویت درکار ہے تو بہت کچھ دیکھنا ہوگا ... مگر ظاہر کی آنکھ سے نہیں، باطن کی آنکھ سے۔ معلوم و محسوس دنیا کے دیکھنے کو جو دو آنکھیں عطا کی گئی ہیں وہ منزل کو دیکھنے اور اُس کا رستہ ہمیں سُجھانے میں ناکام رہتی آئی ہیں۔ شان الحق حقّیؔ خوب یاد آئے ؎
دِل کی توفیق سے ملتا ہے سُراغِ منزل
آنکھ تو صرف نظاروں ہی میں کھو جاتی ہے
ہم آب و گِل کے اِس جہان میں لائے گئے ہیں یا پہنچائے گئے ہیں۔ زندگی نعمت تو ہے ہی مگر اِس سے کہیں بڑھ کر امتحان ہے۔ یاروں نے اب تک اِسے نعمت سمجھ کر شُکر بھی ادا نہیں کیا۔ ایسے میں اِسے امتحان سمجھنے کا کیا مذکور؟ یہ منزل محض دور نہیں بلکہ مزید دور ہوئی جاتی ہے۔ زندگی جب تھک ہار کر دم توڑنے لگتی ہے تب انسان کو احساس ہوتا ہے کہ ع
آب و گِل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں
مگر تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ جو کچھ دیکھنا، سمجھنا، پرکھنا اور برتنا ہے وہ تو قوٰی کے استحکام کی حالت کا معاملہ ہے۔ عمل کی مہلت بھی قوٰی میں اضمحلال کے در آنے تک ہے۔ اِس ملہت کو غنیمت جانیے اور زندگی کو کسی نہ کسی مقصد سے ہم کنار کرکے اِس میں اِتنی معنویت پیدا کیجیے کہ جب یہاں سے جائیے تو لوگ کہیں کہ کوئی آیا تھا اور چلا بھی گیا۔ رُوئے ارض پر اِنسانوں کے آنے اور جانے کا معاملہ تواتر سے ہم کنار رہا ہے مگر یاد صرف وہ رہ جاتے ہیں جو زندگی کو دھڑکنوں کی ترتیب یا سانسوں کے تسلسل سے بڑھ کر کچھ جانتے اور مانتے ہیں۔ محض ''خوب گزرے گی ...‘‘ کی منزل میں الجھ کر رہ جانے والے فکر و عمل کی مہلت ختم ہونے پر خاک ہی میں نہیں مل جاتے بلکہ اُن کا نشان تک مٹ جاتا ہے یعنی یاد نہیں رہتے۔