اِس دنیا میں ڈھنگ سے جینا اِس قدر مشکل بنادیا گیا ہے کہ بہت سے مزے خاک میں مل گئے ہیں۔ یہ رنگ و بُو کا جہاں اپنی تمام رعنائیاں اُنہی پر ظاہر کرتا ہے جو دل و دماغ کی پوری توانائی کے ساتھ اِس پر متوجہ ہوتے ہیں۔ اگر ذہن پریشانی کا شکار ہو اور انہماک کی منزل سے بہت دور ہو جینے میں کاہے کا مزا؟ ایسے میں ہمارا بنیادی فریضہ کیا ہونا چاہیے؟ یہی نا کہ ہم دن رات زندگی کو آسان سے آسان تر بنانے کی تگ و دَو میں مصروف رہیں؟
جسم پر دباؤ بڑھ جائے تو فزیو تھراپی کرائی جاتی ہے۔ فزیو تھراپسٹ ہمارے جسم پر پڑنے والے غیر معمولی یا غیر ضروری دباؤ کو کم کرنے میں ہماری معاونت کرتے ہیں۔ بالکل اِسی اُصول کے تحت اب ''ایزیو تھراپی‘‘ عام ہوئی جاتی ہے یعنی زندگی کو آسان تر بنانے کا عمل جاری ہے۔
ترقی یافتہ معاشروں کو دیکھ کر ہمیں تو حیرت ہوتی ہے۔ جی نہیں، آپ نے غلط اندازہ لگایا۔ ہمیں حیرت اُن کی ترقی پر نہیں بلکہ اس بات پر ہوتی ہے کہ ترقی ورقی کے چکر میں پڑنے کے بعد اُنہوں نے اپنی زندگی کو کس قدر مشکل بنالیا ہے۔ ہر شخص سے ہر معاملے میں پرفیکشن کی توقع رکھی جاتی ہے۔ اب آپ ہی بتائیے اگر لوگ پرفیکشن کے چکر میں پڑیں گے تو کیا خاک جئیں گے۔ یہ بھی کوئی زندگی ہوئی کہ آپ کی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے آپ کی پوری سکت نچوڑ لی جائے، نڈھال کرکے چھوڑ دیا جائے؟ اور اِس کے بدلے میں ملتا کیا ہے؟ گزارے کی سطح!
ایزیو تھراپی نے ہماری ہر مشکل آسان کردی ہے۔ بیشتر معاملات کو ہم نے ایسی آسانی سے سیدھا کیا ہے اب وہ ٹیڑھے پن کی طرف جانے کے بارے میں سوچتے بھی نہیں۔ ایزیو تھراپی کوئی ایک مخصوص طریقہ نہیں بلکہ مختلف النوع فکر و عمل کے مجموعے کا نام ہے۔ ایزیو تھراپی کو ہم کسی حد تک عام آدمی کا ''نظریۂ ضرورت‘‘ قرار دے سکتے ہیں۔ مطلق العنان حکمران نظریۂ ضرورت کا سہارا لے کر اپنے اقتدار کے لیے قانونی اور اخلاقی جواز کا اہتمام کرتے ہیں۔ ایزیو تھراپی میں بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اِس میدان میں قانون اور اخلاقیات کو دخل در معقولات کا کچھ زیادہ موقع فراہم نہیں کیا جاتا!
زندگی کو آسان بنانا کون سا مشکل کام ہے؟ کام کرنے سے ذہن پر دباؤ بڑھتا ہے، جسم پر تھکن سوار ہوتی ہے۔ اس مشکل کا حل کیا ہو جانا چاہیے؟ کام مت کیجیے اور پُرسکون زندگی بسر کیجیے! بس اتنی سی بات ہے مگر دنیا والوں کی سمجھ میں اب تک نہیں آئی! ہمیں اِس بات پر بھی حیرت ہے کہ دنیا بھر میں تحقیق کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ زیادہ کام کرنے سے ذہن درست حالت میں رہتا ہے اور جسم کی چستی برقرار رہتی ہے۔ اِسے تحقیق کم اور سازش زیادہ سمجھا جانا چاہیے۔ لوگوں کو تحقیق کے ذریعے زیادہ سے زیادہ کام کی طرف دھکیلا جارہا ہے تاکہ وہ فراغت کے لمحات نہ پائیں اور زندگی کے مزوں کے بارے میں سوچنا بھی بھول جائیں۔ یقین نہیں آتا تو ترقی یافتہ معاشروں میں پائی جانے والی زندگی کے پیٹرن پر ایک نظر ڈالیے۔ جسے دیکھیے وہ بھاگ دوڑ میں لگا ہے۔
ہر معاملے کو آسان سے آسان تر بنانے کا عمل شارٹ کٹ مانگتا ہے اور شارٹ کٹ تو ہماری ذہنی و فکری ساخت کا حصہ ہے۔ اب لوگ ہر معاملے میں شارٹ کٹ چاہتے ہیں۔ کل کی زندگی پانچ روزہ ٹیسٹ کرکٹ کے مانند تھی۔ اب لوگ ٹی ٹوئنٹی کی طرح زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ ایزیو تھراپی کو زندگی کے ہر معاملے میں اپنانے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب لوگ دن بھر جھک مارنا نہیں چاہتے، گھر سے نکل کر تین چار گھنٹے میں ضرورت کے مطابق کما لینا چاہتے ہیں تاکہ بچ رہنے والا وقت چبوتروں اور ہوٹلوں کی نذر کرسکیں!
بہت سے '' ناعاقبت اندیش‘‘ لوگ ہوٹلوں میں رات دیر گئے تک بیٹھ کر گپ شپ لگانے کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ اب اُنہیں کون سمجھائے کہ یہی تو زندگی کا وہ مزا ہے جس کے لیے ترقی یافتہ معاشروں کو لوگ ترس گئے ہیں! اُن سے اتنا کام لیا جارہا ہے کہ ہفتے کے پانچ دن سورج کی پہلی کرن کے نمودار ہوتے ہی گھر سے نکلتے ہیں اور ڈوبتے سورج کو الوداع کہتے ہوئے دوبارہ گھر میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ ہے کام کی زیادتی سے منصۂ شہود پر آنے والی وہ مشینی زندگی جس پر وہ اس قدر ناز کرتے ہیں!
گزرے وقتوں میں بعض شعراء انٹ شنٹ خیالات سے لوگوں کو پریشانیاں جھیلنے کے لیے ورغلاتے تھے۔ مثلاً جگرؔ مراد آبادی کے استاد اصغرؔ گونڈوی کہتے ہیں ؎
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہوجائے
اور اُنہوں نے اتنا کہنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے شاگردِ عزیز کو مشکلات و مسائل سے روشناس کرانے کے لیے اپنی بیوہ سے شادی کی وصیت کرگئے! جگرؔ مراد آبادی نے استاد کی وصیت کے مطابق اُن کی بیوہ سے نکاح کیا۔ اور اُن کا یہ شعر غالباً اِس واقعے کے بعد کی کیفیت کو بیان کرتا ہے ؎
گلشن پرست ہوں، مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نباہ کیے جارہا ہوں میں!
پنڈت برج نرائن چکبستؔ بھی اُن شعراء میں سے تھے جو عوام کو خوش نہیں دیکھ سکتے تھے اور ہمیشہ پریشانیوں اور مصائب سے متصادم ہونے پر اکساتے تھے۔ اُنہوں نے کہا تھا ؎
مصیبت میں بشر کے جوہرِ مردانہ کھلتے ہیں
مبارک بزدلوں کو گردشِ قسمت سے ڈر جانا
یہ سَودا زندگی کا ہے کہ غم انسان سہتا ہے
وگرنہ ہے بہت آسان اِس جینے سے مر جانا
صد شکر کہ عوام کو مصائب پسندی پر اکسانے والے شعراء قصۂ پارینہ ہوئے۔ ایزیو تھراپی کی بدولت یاروں نے اب زندگی کو آسان تر بنانے کی ٹھانی ہے۔ اچھا ہے کہ ع
بڑھتی رہے یہ روشنی، چلتا رہے یہ کارواں