ہر زندہ قوم وطن سے، وطن کی خاک سے ٹوٹ کر محبت کرتی ہے۔ اور ایسا تو کرنا ہی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ وطن سے محبت کی بنیاد پر انسان کے مزاج کے بہت سے رجحانات کا بخوبی اندازہ لگایا جاتا ہے۔ ہم بھی وطن سے بے انتہا محبت کرتے آئے ہیں اور اب تو اِس محبت کو ثابت کرنے کے لیے خاصی محنت بھی کر رہے ہیں!
ملک 70 سال کا ہوگیا۔ آزادی کا جشن شایانِ شان طریقے سے منایا گیا۔ پورا ملک ایک ہی رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ ہر طرف، ہر چیز میں سبز ہلالی پرچم کی بہار تھی۔ لباس بھی سفید اور ہرا۔ ٹوپیاں بھی ہری اور سفید، چوڑیاں بھی ہری اور سفید۔ ملک ایک سرخوشی اور سرمستی کی حالت میں تھا۔ قوم کی وارفتگی تھی کہ تھمنے میں نہیں آرہی تھی۔ پورا ملک ایک الگ ہی قسم کی ترنگ میں تھا۔ قوم جھوم رہی تھی، ناچ رہی تھی، گا رہی تھی۔
وطن سے محبت کا بے مثل اور قابلِ فخر جذبہ اپنی جگہ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وطن سے محبت اصل میں ہوتی کیا ہے اور ہم کس طور خود کو زیادہ محبِ وطن ثابت کرسکتے ہیں۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ جس مٹی میں ہم پیدا ہوئے، پلے بڑھے ہیں اُس کا حق ادا کرنے کے قابل ہونے کے لیے ہمیں اُس سے بے انتہا محبت کرنا پڑے گی؟ اور یہ محبت دکھاوے کا معاملہ نہ ہو۔ وطن کی مٹی ہم سے اخلاص کی طالب ہے۔ اخلاص ہوگا تو اِس مٹی کے لیے واقعی کچھ کرنے کو جی بھی چاہے گا۔
یومِ آزادی ابھی گزرا ہے۔ اور اس قدر جوش و خروش اور زور شور سے گزرا ہے کہ بازگشت اب تک دم نہیں توڑ رہی۔ ہم نے شاید طے کرلیا ہے کہ زندگی کے ہر معاملے کو صرف اور صرف شور شرابے اور لہو و لعب کی نذر کرکے دم لیں گے۔ جشنِ آزادی ہم سے جس متانت اور حُسن و خُلوصِ نیت کا متقاضی ہے اُسے تو ہم نے یکسر نظر انداز کردیا ہے اور وہ سب کچھ کر رہے ہیں جس کے نہ کرنے سے وطن کی محبت کا حق زیادہ ادا ہوتا ہے۔
کراچی سمیت ملک بھر میں عوام کا جذبہ واقعی قابلِ دید اور قابلِ داد تھا۔ ہر سال کی طرح اِس سال بھی یکم اگست سے وطن پرستی کا جو خصوصی خمار چڑھا وہ دن بہ دن بڑھتا ہی گیا اور 13 اگست کی رات کو نقطۂ عروج پر پہنچ گیا۔ عیدالفطر کی چاند رات پر بھی ایسی گہما گہمی دکھائی نہیں دیتی۔ شاید اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ صبح عید کی تیاریوں کے لیے خواتین کو گھر میں رہنا پڑتا ہے مگر 14 اگست کی صبح کی کچھ خاص تیاری نہیں کرنا پڑتی اس لیے خواتینِ خانہ بھی گاڑیوں میں بھر کر سڑکوں پر نکل آئیں اور رات بھر ایک ہنگامہ برپا رہا۔
یکم سے 14 اگست تک وطن سے محبت کا اظہار یقینی بنانے کے لیے لوگ نئے نئے طریقے سوچتے رہتے ہیں۔ بازار میں اشیاء بھی ایسی آجاتی ہیں جو وطن سے محبت کے اظہار کو یقینی بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ بچوں اور بڑوں کے لیے قومی پرچم کے رنگوں سے ہم آہنگ رنگوں کے کپڑے، بیجز، کیپ، ہیئر بینڈ، رسٹ بینڈ، بُندے، کلپ اور دوسری بہت سی اشیاء قدم قدم پر احساس دلاتی ہیں کہ ہم میں وطن کو اپنانے کا جذبہ ابھی ماند نہیں پڑا۔
مشکل یہ ہے کہ ہم ہر اچھی چیز کو خرابی سے دوچار کرنے کے خطرناک نفسی مرض میں بھی مبتلا ہیں۔ اب جشنِ آزادی ہی کو لیجیے۔ اس موقع پر نئی نسل یکسر بے قابو، بلکہ بے لگام ہوجاتی ہے۔ گاڑیوں میں اور موٹر سائیکلوں پر سوار منچلے 14 اگست سے تین چار دن قبل ہی دندناتے پھرتے ہیں۔ یہ دندناتے پھرنا اور رات رات بھر لوگوں کو ہیجان میں مبتلا رکھنا کہاں کی دانش مندی ہے، کہاں کی حب الوطنی ہے؟
غزل اپنی ذات سے محبت کی ہو یا کسی اور کی ذات سے یا پھر وطن کی مٹی سے محبت کی، المیہ یہ ہے کہ مقطع میں سخن گسترانہ بات آ پڑتی ہے۔ ہم نے ہر معاملے کو آخر آخر خراب کرنے کی قسم کھالی ہے۔ طے کرلیا گیا ہے کہ معاملات کے منطقی یا غیر منطقی انجام کو ایسا twist دیں گے کہ دنیا دنگ رہ جائے۔ وطن سے محبت کے اظہار کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ جوش و جذبہ اپنی جگہ، وارفتگی بھی خوب سہی مگر یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ جشنِ آزادی منانے کے نام پر دوسروں کو پریشانی سے دوچار کیا جائے؟ وطن کے نغمے سُننا انتہائی قابل ستائش ہے۔ بچے، جوان، بوڑھے اور خواتین قوم و وطن کے نغموں سے بہت کچھ پاتے ہیں۔
ہمارے ہاں ایسے قومی نغموں کی کمی نہیں جو دل و دماغ ہی نہیں، روح کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ مگر جناب، گھر کی چھت پر یا گاڑیوں میں بڑے لاؤڈ اسپیکر نصب کرکے قومی نغمے بجانے کے نام پر محض شور شرابہ یقینی بنانا کہاں کا انصاف ہے؟ ہر معاملے کے کچھ نہ کچھ آداب ہوا کرتے ہیں اور وطن کی محبت بھی آداب سے عاری معاملہ نہیں۔ وطن ہم سے ہر معاملے میں پورے خلوص اور جوش و خروش کے ساتھ ساتھ سنجیدگی اور اخلاصِ نیت کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ محض نعرے لگانے، شور مچانے اور قومی نغمے بجانے کے نام پر دوسروں کا سکون غارت کرنے کو ہم وطن پرستی کا مظہر تو قرار نہیں دے سکتے۔ وطن کی مٹی منتظر ہے کہ ہم اُسے زیادہ سے زیادہ زرخیز بنانے کی کوشش کریں، مٹی کا حق ادا کرتے ہوئے اِس کی شان بڑھائیں۔
ہر سال جشنِ آزادی کے حوالے سے چند ایک اشیاء کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ بیشتر اشیاء بچوں کے لیے ہوتی ہیں۔ اب کے بچوں کی ایک چیز بڑوں کے کھاتے میں بھی ڈال دی گئی۔ یہ ہے باجا۔ پلاسٹک کے لمبوترے باجے خاصے اہتمام کے ساتھ متعارف کرائے گئے۔ بچوں اور نوجوانوں کے علاوہ لڑکیوں نے بھی باجے بجا بجاکر آسمان سر پر اُٹھالیا۔ ہر گلی میں، ہر رہ گزر پر بچے اور جوان سبھی باجوں کے ساتھ یُوں تیاری کی حالت میں دکھائی دیئے گویا دشمن پر حملے کی تیاری کے حتمی مرحلے میں ہوں! 13 اگست کی شب قوم نے باجے بجا بجاکر رت جگا منایا۔ جشنِ آزادی کے لیے درکار جوش و جذبے کے پہلو بہ پہلو ایک طوفان بھی تھا جو وطن سے سچی محبت کرنے والوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرگیا۔
ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم ہر معاملے کو صرف اور صرف شور شرابے اور لہو و لعب کی نذر کرنے کے نفسی مرض سے کب چھٹکارا پائیں گے۔ تماش بین والی ذہنیت ترک کرکے حقیقی اور تعمیری سنجیدگی کب اپنائی جائے گی؟ ؎
کوئی سنجیدہ کیوں نہیں ہوتا
زندگی کیا تماش بینی ہے!