پاکستانی فلموں کے عروج کے دور میں کمال ایرانی مرحوم نے چند فلموں میں یکساں کردار ادا کرکے اپنے آپ پر ایک چھاپ لگا لی تھی۔ یہ چھاپ تھی انتہائی دولت مند اور مغرور و سخت گیر باپ کی جو اپنے بیٹے کی شادی کسی غریب کی بیٹی سے کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ ان فلموں میں معاملات جہیز پر اٹک جاتے تھے۔ لڑکی کا باپ کمال ایرانی کے قدموں میں اپنی ٹوپی یا پگڑی رکھ کر بیٹی کے سہاگ کی بھیک مانگتا تھا اور کمال ایرانی مرحوم ایک خاص بے رحمانہ و بے احساسانہ لہجے میں وہ جملہ ادا کرتے تھے جو سینما ہال میں بیٹھے ہوئے ہر شخص کے دل و دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برستا تھا... یہ شادی نہیں ہو سکتی!
سرِ دست کمال ایرانی مرحوم کا کردار امریکا ادا کر رہا ہے۔ اُسے اچانک یاد آ گیا ہے کہ جنوبی، جنوب مشرقی اور وسطی ایشیا میں اُس کے مفادات کو تمام سابق اندازوں سے کہیں بڑھ کر غیر معمولی خطرات لاحق ہیں اور اِن خطرات کو ختم کرنے کے لیے اُسے چند ایسے حاشیہ برداروں کی ضرورت ہے‘ جو اُس کے لئے ہر جھوٹ سچ کہتے اور اُس پر ناز بھی کرتے رہیں۔ ایسے حاشیہ بردار کا کردار پاکستان نے کئی عشروں تک ادا کیا۔
کسی بھی چیز کی ایک حد تو ہوتی ہی ہے۔ سفارت کاری اور بین الریاستی تعلقاتِ کار کے حوالے سے بھی ایک حد قدرت کی طرف سے طے تھی۔ اب ہم اُس حد تک پہنچ گئے ہیں یعنی آگے جانا خود کو طوفان کی آنکھ میں ڈالنا، آتش فشاں کے معدے میں پھینکنا ہے۔ ہم نے امریکا کی غلامی میں اپنے مفادات کو ایک زمانے تک بُھلائے رکھا، سُلائے رکھا۔ دنیا اپنے طور پر سمجھاتی رہی ع
دوستی ناداں کی ہے، جی کا زیاں ہو جائے گا!
مگر ہم کہاں ماننے اور سمجھنے والے تھے؟ ہم نے آنکھیں موند لی تھیں اور سوچنے کا عمل ترک کر دیا تھا۔ کچھ دیکھتے تو سمجھتے، سمجھتے تو سوچتے اور سوچتے تو معاملات درست کرنے پر متوجہ ہوتے۔ عشرے بیت گئے، ہم نہ جاگے۔
دوسری طرف ہمارے نام نہاد مُربّی امریکا نے وہ سب کچھ کیا جس کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی‘ مگر ہم نے آنکھوں پر سیاسی اندھی عقیدت کی ایسی پٹّی باندھ رکھی تھی کہ کچھ دکھائی اور سُجھائی نہ دیتا تھا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ معاملہ کچھ کچھ گنڈے اور حِصار کا بھی تھا۔ امریکیوں نے ہمارے گرد ایسا حصار کھینچ رکھا تھا کہ ہم لاکھ کوشش کرنے پر بھی چلتے تو بہت تھے مگر اس حصار سے نکل نہیں پاتے تھے۔ بہ قول منیرؔ نیازی مرحوم حرکت تیز تر تھی اور سفر آہستہ تھا!
بیسویں صدی گزری تو دنیا بھر میں تبدیلیوں کا بازار گرم ہوا۔ ہر خطہ انوکھی اور ناقابل یقین تبدیلیوں سے ہم کنار دکھائی دینے لگا۔ جنوبی ایشیا بھی تبدیلیوں کی زد میں آئے بغیر نہ رہ سکا۔ بیسویں صدی امریکا اور یورپ کے نام تھی۔ امریکا نے اپنی بالا دستی برقرار رکھنے کے لیے وہ سب کچھ کیا‘ جو کوئی بھی مہذّب قوم نہیں کرتی۔ یورپ نے امریکا کا ساتھ دیتے ہوئے اپنے مفادات کو غیر معمولی حد تک تقویت فراہم کی مگر جب یورپی قائدین نے دیکھا کہ امریکا کے ساتھ چلنا خواہ مخواہ دنیا بھر کی مخالفت اور مخاصمت مول لینا ہے تو انہوں نے ڈھائی تین عشروں کے عمل میں اپنا راستہ الگ کیا۔ اب یورپ سخت (عسکری) قوت سے کہیں بڑھ کر ''نرم قوت‘‘ (معاشی معاملات، ٹیکنالوجی میں پیش رفت اور معاشرتی و ثقافتی روابط وغیرہ) کو بروئے کار لانے کی راہ پر گامزن ہے اور سیاسی و سفارتی اعتبار سے ہر حسّاس معاملے کی زمین پر پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے۔
امریکا نے اِس قدر خرابیاں پیدا کی ہیں کہ ملبہ سمیٹنا اُس کے لیے تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ اور اِس سے بھی بڑی الجھن یہ ہے کہ اپنی خرابیوں کا پیدا کردہ ملبہ اُٹھانے اور ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری وہ اُنہیں سونپتا ہے جو اُس کی پالیسیوں کے ہاتھوں اچھی خاصی خرابیاں جھیلنے کے باعث پہلے ہی سیاسی، سفارتی اور معاشی اعتبار سے اُدھ مُوئے ہو چکے ہیں۔ ایسے میں امریکی پالیسی میکرز کی فرمائشیں ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ والا کردار ادا کرتی ہیں۔
پاکستان نے امریکا کی پیدا کردہ علاقائی خرابیاں ایک مدت تک جھیلی ہیں۔ معاملات اب چونکہ عملاً نو ریٹرن کی منزل تک پہنچ چکے ہیں‘ اس لیے پاکستان نے ایک قدم آگے جا کر اپنی راہ الگ کرنے کی ٹھان لی ہے۔ چین اور روس کا تیزی سے ابھرنا اور عالمی سیاست، سفارت اور معیشت میں اپنا حصہ ڈالنے کا مصمّم ارادہ عملی سطح پر ظاہر کرنا پاکستان سمیت اُن تمام ممالک کے لیے سنہرے موقع جیسا ہے جو امریکا کے دائرۂ اثر سے باہر آنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کو آپ نئے عالمی سیاسی قافلے کا ہراول دستہ سمجھیے۔ چین، روس، ترکی اور جنوب مشرقی و وسطی ایشیا کے دیگر ممالک مل کر جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ امریکا کو کسی بھی طور قبول نہیں۔ قبول ہو بھی کیسے؟ ایسا بھی کوئی بچہ ہے جو اپنے کھلونوں سے محروم ہونا پسند کرے؟ امریکا اب تک جن ممالک سے کھیلتا آیا ہے اُنہیں یوں آسانی کیونکر ہاتھ سے جانے دے گا؟ پاکستان اُس کے لیے کھلونا بھی ہے اور کچرا کنڈی بھی۔ پورے خطے میں اپنی مرضی کے مطابق اچھی خاصی خرابیاں پیدا کرنے کے بعد گند وہ پاکستان کے کھاتے میں ڈالتا آیا ہے۔ اور یہ کچرا کنڈی اپنا یہ کردار ادا کرنے سے انکار کرتی ہے، نخرے دکھاتی ہے تب رُوٹھی ہوئی محبوبہ کو منانے کے لیے ڈالروں کی جھاڑو پھیر کر تھوڑی سی صفائی کر دی جاتی ہے تاکہ اِس کچرا کنڈی میں نئے سِرے سے کچرا ڈالنے کی راہ ہموار ہو! جو کچھ کمال ایرانی مرحوم نخوت بھرے سفّاک لہجے میں کہا کرتے تھے وہی کچھ اب امریکی قیادت چین، روس، پاکستان اور ترکی کے بڑھتے ہوئے تعلقاتِ کار اور اقتصادی و سفارتی اشتراکِ عمل کے حوالے سے کہہ رہی ہے... یہی کہ یہ شادی نہیں ہو سکتی!
امریکا سے پاکستان کے تعلقات اب تک مجبوری کا نام شکریہ کی مثال رہے ہیں۔ ہم ایک عجیب سفارتی مایا جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایک طرف تو امریکا ہمیں گاجر دکھاتا ہے۔ جب ہم گاجر کی طرف لپکتے ہیں تو دوسری طرف سے چھڑی رسید کی جاتی ہے! چین اور روس کی شکل میں ہمیں دو ایسے ستون ملے ہیں جنہیں ڈھنگ سے استعمال کرکے ہم اپنی شناخت اور سفارتی و معاشی استحکام کی عمارت کسی حد تک ضرور کھڑی کر سکتے ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہمیں وقت کی موزونیت کے مطابق کارڈز کھیلنا آتا بھی ہے یا نہیں۔ بہت سے مواقع پر ہم ع
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
والی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں! جہاں بہت کچھ ہاتھ آ سکتا ہو وہاں ہم چند قلیل المیعاد فوائد بٹورنے ہی کو زندگی سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اب سوچ بدلنے کا وقت آ گیا ہے۔ اور سوچ بدل بھی رہی ہے۔ امریکا کو بھی اس بات کا بہت شدت سے احساس ہے کہ ایک بڑا کھلونا ہاتھ سے نکل رہا ہے، پھسل رہا ہے۔ سی پیک کے معاملے میں بھارت اب تک ''انکاری قبیلے‘‘ کا رکن ثابت ہوا ہے! نئی دہلی کے پالیسی میکرز علاقائی قوتوں سے خائف ہیں اور اب تک امریکا کے آغوش میں بیٹھے رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ حالات کے بدلنے کا تو انہیں احساس ہے مگر یہ کس حد تک بدل چکے ہیں اس کا یا تو اندازہ نہیں یا پھر حقیقت پسندی کا مظاہرہ اُن کی ترجیحات ہی میں شامل نہیں۔ بہرحال، سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کے حوالے سے ''یہ شادی نہیں ہو سکتی‘‘ کا راگ الاپنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ تمام رسوم طے پا چکی ہیں اور اب یہ شادی ہو کر رہے گی!