ریل کا سفر ہو یا ریلوے اسٹیشن پر کچھ دیر کا قیام، چند عجیب تصورات ذہن میں ابھرتے ہیں۔ کچھ دیر کے لیے سبھی کچھ خواب کا سماں معلوم ہوتا ہے۔ ریل کو چلتا پھرتا گھر کہیے تو ریلوے اسٹیشن کو ٹھہرا ہوا عارضی گھر سمجھیے۔ ریلوے اسٹیشن سے منزل کا تعین کرکے ٹرین میں سوار ہوجائیے تو وہ منزل تک پہنچاتی ہے اور یہ منزل بھی ریلوے اسٹیشن ہی ہوتی ہے۔ اس منزل پر اترنے کے بعد اگلا سفر شروع ہوتا ہے۔
بہت سوں کے لیے ریلوے اسٹیشن حسین یادیں رکھتا ہے اور دوسرے بہت سے لوگوں کے لیے ریلوے اسٹیشن ہی تلخ یادوں کا منبع بن جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ بنارس کی چمپا کے ساتھ ہوا۔ بھارتی ریاست اتر پردیش کے چار باغ ریلوے اسٹیشن پر یکم اکتوبر کو ایک انسانیت سوز واقعہ رونما ہوا۔ چمپا کو اُس کا بیٹا چار باغ ریلوے اسٹیشن لایا۔ جہاں سے لوگ منزل تک پہنچانے والی ٹرین میں سوار ہوتے ہیں وہاں اُس سنگ دل و سفّاک بیٹے نے ماں کو ایک انجانے سفر کے لیے کسی کونے میں بٹھایا اور غائب ہوگیا۔
زمانہ کیا بدلا ہے کہ انسان ہی بدل گیا ہے۔ نہ رشتوں کا احساس نہ احسانات کا پاس۔ جس نے جتنے زیادہ احسانات کیے ہوں اُسے اُتنے ہی زیادہ دکھ دینا لازم ٹھہرا ہے۔ اب عدمِ انسانیت کی اِس سے زیادہ حد کیا ہوگی کہ جس ماں نے پالا اُسی کو حقیقی بیٹا ریلوے اسٹیشن پر چھوڑ کر چلتا بنا۔ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنے والے والدین سے بے اعتنائی کے قصے اس قدر عام ہوتے جارہے ہیں کہ کبھی کبھی تو یقین ہی نہیں آتا کہ ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔ یہ سب کچھ تو شاید غار کے زمانے کے انسان کا وتیرہ ہوا کرتا ہوگا۔ اور کون جانے کہ تب بھی شاید اِتنی سفّاکی نہ پائی جاتی ہو! ''غیر مہذّب‘‘ لوگوں میں ایسی بے حسی اور بے دلی کاہے کو پائی جانے لگی!
چمپا کو بیٹے نے بے سہارا چھوڑ کر اپنی راہ لی تو یہ خبر پڑھ کر دل کو دھچکا سا لگا مگر ہمیں یقین ہے کہ آپ کو زیادہ زور کا دھچکا اِس بات سے لگے گا کہ چمپا 100 سال کی ہے۔ وہ ڈھنگ سے چلنے کے قابل بھی نہیں تھی جب اُسے ریلوے اسٹیشن پر لاوارث سامان کی طرح پھینکا گیا!
ریلوے اسٹیشن پر لوگوں نے ڈیڑھ پسلی کی، گٹھڑی کی سی چمپا کو انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں دیکھا تو حکام کو اطلاع دی۔ معمر افراد کی دیکھ بھال کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے اہلکاروں نے آکر چمپا کو بلرام پور اسپتال پہنچایا۔ شدید کمزوری، بھوک اور بخار کے باعث چمپا لبِ مرگ تھی۔ اگر کچھ وقت اور گزر جاتا تو شاید وہ اِس دنیا میں نہ ہوتی۔ وہ تو نام بتانے کی پوزیشن میں بھی نہ تھی۔ ڈاکٹرز نے فوری علاج شروع کیا۔ ڈاکٹرز اور نیم طبی عملے کی شبانہ روز محنت اور نگہداشت کی بدولت چمپا ایک ماہ میں بالکل تندرست ہوگئی۔ اُس نے بتایا کہ وہ بنارس کی رہنے والی ہے اور اُس کی بڑی بیٹی کا نام پُشپا ہے جو لکھنؤ کے علاقے ڈالی گنج میں رہتی ہے۔ پُشپا کی عمر بھی کم و بیش 85 سال ہے۔
این جی او والوں نے پُشپا کو ڈھونڈ نکالا۔ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ آئی اور ماں کو ساتھ لے گئی۔ جس عمر میں پُشپا کو خود سہارے اور نگہداشت کی ضرورت ہے اُس عمر میں اُسے ماں کی خدمت میں رہنے کی سعادت نصیب ہوئی! ع
یہ اُس کی دَین ہے، جسے پروردگار دے!
چمپا کے نواسے نے جب اپنے سنگ دل ماموں کو فون کرکے نانی سے بات کروانے کو کہا تو اُس نے بتایا کہ ماں جی کی طبیعت خراب ہے اور وہ آرام کر رہی ہیں اِس لیے بات نہیں کرسکتیں! بے غیرتی سے آراستہ اس جواب پر نواسے نے نانی کا وڈیو کلپ بناکر بے حس ماموں کو بھیجا تو وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گیا، کچھ بول نہ پایا۔ اِس پر بھی غیرت تو خیر نہ جاگی اور اُس نے ماں کو دوبارہ قبول کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ جو لے جانا چاہے، لے جائے۔
یہ تو ہوا اکیسویں صدی کے بیٹے کے ہاتھوں 100 سالہ ماں کا معاملہ۔ اب ذرا یہ دیکھیے کہ آوارہ کتے کون سی صدی میں جی رہے ہیں اور ''عدمِ سفّاکی‘‘ کی کون سی منزل میں ہیں۔ چند ماہ قبل بھارت ہی میں کولکتہ کے ایک ریلوے اسٹیشن پر ایسا واقعہ رونما ہوا تھا جس نے ثابت کردیا تھا کہ کتے خیر سے آج کی انسانیت سے ابھی بہت دور ہیں۔ اور یہ کہ اُن کے سینوں میں دل نہ صرف یہ ہے کہ بلکہ اُس میں درد بھی پایا جاتا ہے۔ ہوا یہ کہ جس طور چمپا کو اُس کا بیٹا چھوڑ گیا تھا اُسی طور کوئی بدبخت ''ان چاہے‘‘ نومولود کو کپڑے میں لپیٹ کر ریلوے اسٹیشن کے ایک کونے میں ڈال کر چلتا بنا۔ اسٹیشن پر موجود آوارہ کتوں کے ایک غول نے بچے کو دیکھ لیا اور اُس کے گرد جمع ہوگئے۔ بہت دیر تک وہ یونہی بیٹھے رہے تاکہ کوئی اور جانور نومولود پر حملہ نہ کرے! پھر اُن کی سمجھ میں کچھ آیا تو جس کپڑے میں نومولود لپٹا ہوا تھا اُسے دانتوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے باہر لائے تاکہ لوگ دیکھیں اور اُسے اٹھالیں۔ یوں ایک نومولود کو یقینی موت سے بچاکر کولکتہ کے آوارہ کتوں نے آج کے انسان کو شرم سے گڑ جانے پر مجبور کردیا۔
یہ دونوں واقعات بھارت کے ہیں۔ مگر خیر، سفّاکی کے ایسے مظاہرے کچھ بھارت تک محدود نہیں۔ انداز کے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ یہی سارا تماشا ہمارے ہاں بھی ہو رہا ہے۔ یہاں بھی قصہ یہ ہے کہ بیٹا پان سگریٹ اور چائے پر ماہانہ ڈھائی تین ہزار روپے لٹا دیتا ہے مگر جب بوڑھے ماں باپ مہینے بھر کے خرچے کی مد میں دو چار سو روپے مانگتے ہیں تو ہاتھ تنگ ہو جاتا ہے، کاروبار مندا پڑ جاتا ہے، نوکری ڈانواڈول ہو جاتی ہے۔ جواز اور بہانوں کا ایک دریا ہے کہ بس راستہ پاتے ہی بہہ نکلتا ہے!
ایسے بدبختوں کی کوئی کمی نہیں جو اپنے بچے کے چند روزہ علاج پر بیس تیس ہزار روپے بھی خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرتے اور بوڑھے والدین کو بخار آجائے تو اُن کے لیے دس بیس روپے کی عمومی سی ٹیبلٹس کو دنیا کے ہر مرض کا علاج سمجھ کر خریدنے کو احسانِ عظیم شمار کرتے ہیں! ایسے بدبختوں کی نظر میں معمر و ضعیف والدین غیر ضروری سامان سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ غنیمت ہے کہ کباڑی اُنہیں لیتے نہیں ورنہ یہاں تو لوگ کاٹھ کباڑ کے ساتھ والدین کو بھی گھر سے رخصت کرنے میں دیر نہ لگائیں۔
اکیسویں صدی کے انسان نے عقل کو دنگ کردینے والی عمارتیں تو کھڑی کرلی ہیں مگر اُس کی ذہنی ساخت آج بھی غار کی گہرائی میں سکونت پذیر ہے۔ اُس نے ماحول کو تبدیل کیا ہے، اپنے وجود کو تبدیل کرنے کی زحمت اب تک گوارا نہیں کی۔ ہر خصلتِ نیک سے دور بھاگنے کے اُس کے پاس سو بہانے ہیں۔ اور ہر بہانہ ایسا کہ سُننے والے گھڑنے والے کی ذہانت پر عش عش کر اُٹھیں۔ تن پر اچھے کپڑے ہیں، پیروں میں شاندار جوتے ہیں اور جیب سے جدید ترین اسمارٹ فون بھی جھانکتا ہے۔ سبھی کچھ ہے مگر سینے میں وہ دل نہیں جو دنیا کو حقیقی معنوں میں رہنے کے قابل بنانے کے لیے انتہائی ناگزیر ہے۔