ہم نے انگریزی کا بیڑا غرق کیا تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ انگریزوں نے ہمیں غلام بنایا، ہم پر حکومت کی اور ہمارے وسائل کی مدد سے اپنی سلطنت کو استحکام بخشا۔ گوروں نے اپنے کالے کرتوتوں سے ہمارے لیے جو مشکلات پیدا کیں اُن کا بدلہ لینے کی ایک مفید اور دل کو سکون بخشنے والی صورت تو یہی ہوسکتی تھی کہ انگریزی اتنی بُری طرح بولی جائے کہ گورے سنیں تو شرم کے مارے (اگر غیرت ہو تو) ڈوب مریں! مگر یہ بات ہماری سمجھ میں اب تک نہیں آئی کہ چینیوں سے کس بات کا انتقام لیا گیا ہے۔ چینی تو ہمارے دوست ہیں اور دوستی بھی ایسی ہے کہ دنیا مثال دینے پر مجبور ہے۔ ایسے میں چین کی ایک عالمی شہرت یافتہ سوغات کا ہم نے وہ حشر کیا ہے کہ خود چینی بھی برافروختہ کم اور انگشت بہ دنداں زیادہ ہیں۔
ویسے تو خیر پورے پاکستان ہی میں لوگ کھانے سے پہلے، کھانے کے بعد اور کبھی کبھی تو کھانے کے دوران ہی ایک ایسی چیز کے عادی ہیں جو بظاہر، صحت کے حوالے سے، کچھ زیادہ مفہوم نہیں رکھتی مگر غور کیجیے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ ''نعمت‘‘ نہ ہو تو زندگی ادھوری ہے، ایسی غزل ہے جس کا مطلع نہ ہو!
جوشؔ ملیح آبادی نے قدرے بے باکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا ؎
کسی کا عہدِ جوانی میں پارسا ہونا
قسم خدا کی یہ توہین ہے جوانی کی
بس کچھ ایسا ہی معاملہ کراچی سمیت پورے ملک میں چائے کا ہے۔ دنیا بھر میں جس مشروب کو زندگی کے آرکسٹرا میں ایک ساز کا درجہ حاصل ہے اُسے ہم نے پورے آرکسٹرا کا درجہ دے دیا ہے! اور بالخصوص کراچی میں تو چائے اب روایات یا مزاج سے کہیںبڑھ کر وجود کا حصہ ہے۔یہ طے کرنا اب بہت مشکل ہوگیا ہے کہ کراچی کی فضاء میں آکسیجن زیادہ ہے یا اِس کے باشندوں کے معدے میں چائے!
اہلِ چین نے چائے بنانے، اُسے برتنے اور اُس سے لطف کشید کرنے کے معاملے کو درجۂ کمال کو پہنچایا۔ اہلِ چین جس طور چائے بناتے ہیں وہ بجائے خود اُن کی جمالیاتی حِس کی عکّاس اور ترجمان ہے۔ سبز چائے آج دنیا بھر میں اگر مقبولیت کی بلندیوں کو چُھو رہی ہے تو اِسے چینیوں کی مہربانی کہیے۔ اُنہوں نے سبز چائے ایسے شاندار اور باوقار طریقے سے بنانا سکھایا ہے کہ اہلِ جہاں اُن کے ذوقِ لطیف اور جذباتِ نفیس کے معترف ہوگئے ہیں۔
دنیا بھر میں گھومتے گھماتے جب چائے پاکستان پہنچی تو یوں سمجھیے کہ اُس پر ''وختا پے گیا‘‘ یعنی جان پر بن آئی۔ اور یہ منظر دیکھ کر اُن کی بھی جان پر بن آئی جو چائے کو متعارف کرانے کا عزم لے کر یہاں پہنچے تھے۔ بات کچھ یوں ہے کہ مویشی تو ہم ایک زمانے سے پالتے آرہے تھے اور اُن سے دوہے جانے والے دودھ کے مختلف استعمالات سے بھی ہم بخوبی واقف تھے۔ کچھ دودھ ہم پی جاتے تھے، کچھ کا دہی بناتے تھے اور جی چاہا تو گھی بھی بنالیا۔ کھویا اور پنیر تیار کرنا بھی روایات کا حصہ تھا۔ مگر جب چائے نے انٹری دی تو ہم نے اُس میں دودھ کی انٹری دے کر ایسا سماں باندھا کہ دنیا انگشت بہ دنداں رہ گئی۔ ایسا کیوں نہ ہوتا؟ چائے کی ''تشکیلِ جدید‘‘ کا ایسا انوکھا خیال کم ہی لوگوں کو سُوجھا ہوگا۔ چینی جہاں بھی گئے، چائے کی سوغات ساتھ لے گئے اور متعلقہ معاشروں کو چائے بنانے اور اُس سے لطف کشید کرنے کے آداب بھی سکھائے۔ اور اِسی بنیاد پر چائے کو چین کی نمایاں ثقافتی علامت یا شناخت کے طور پر بھی احترام کی نظر سے دیکھا گیا۔ ہم نے چائے کو سکھایا کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ محظوظ کیسے کیا جاسکتا ہے!
ہم نے ثابت کیا ہے کہ دودھ کا ایک اچھا اور خاصا وسیع و عریض مصرف اُسے چائے میں کھپا دینا ہے۔ پانی میں چائے کی پتی، چینی اور دودھ ڈالنے کے بعد ''رہے نام اللہ کا‘‘ کی گردان کرتے ہوئے کیتلی کو دہکتے کوئلوں یا چولھے پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ اب آگے اللہ کی مرضی، جو کچھ بھی بننا ہو بن جائے!
افغانستان سے چلنے والے پختون جب کراچی پہنچے تو کچھ کے کچھ ہوئے اور کوئٹہ و پشین پہنچ کر مزید کچھ سے کچھ ہوگئے۔ یہی معاملہ چائے کا ہے۔ جب چائے چین کے گلی کوچوں سے نکل کر پھرتی پھراتی کوئٹہ و پشین پہنچی تو اُس کی ہیئت ہی تبدیل ہوگئی۔ اِس خطے کے پختونوں نے چائے کے ساتھ وہی کچھ کیا ہے جو ملتان کے خطے کی گرمی لوگوں کے ساتھ کرتی ہے! کوئٹہ کے ''چائے گر‘‘ چائے کو ایسی ایسی منازل سے گزارتے ہیں کہ (گاہکوں یعنی پینے والوں کی) کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ دہکتے کوئلوں پر بڑی کیتلیوں میں نقطۂ پگھلاؤ سے معانقہ کرتی ہوئی چائے کا جلوہ دیکھ کر زبان پر ''... کمالات کرو ہو‘‘ والا مصرع آ جاتا ہے! کوئٹہ و پشین کے چائے گر (''ڈوڈوں‘‘ سمیت) متعلقہ اجزائے ترکیبی کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر جو کچھ تیار کرتے ہیں اُسے بہت فخر سے پیش کرتے ہیں۔ ؎
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے دل جلاکے سرِعام رکھ دیا!
جتنے طاقتور پختون خود ہوتے ہیں اُس سے زیادہ ''اسٹرانگ‘‘ اور کڑک اُن کی تیار کردہ چائے ہوتی ہے! ہمارے نصیب میں لکھے جانے والے چائے گر کا نام حیدر ہے۔ حال ہی میں شادی ہوئی ہے اِس لیے اب وہ جو چائے تیار کرتا ہے اُس میں تھوڑی سی ''نستعلیقیت‘‘ بھی دکھائی دیتی ہے! ایک دن ہم نے پوچھ لیا کہ تم جو یہ عجیب الطرفین قسم کی چائے بناتے ہو تو کبھی سوچا ہے کہ یہ جسم و جاں میں کیسے کیسے انقلابات برپا کرتی ہوگی۔ جواب ملا ''بھائی صاحب! یہ چائے ہم آپ لوگ کے لیے بناتا ہے، آپ کو زیادہ پتا ہوگا۔ ہم تو اپنا پیاز روٹی اور یخنی سُوپ میں خوش ہے!‘‘
کراچی میں چائے کا چلن اس قدر عام ہے کہ لوگوںکا چلن بگڑ کر رہ گیا ہے۔ دودھ کا حلیہ بگاڑ کر چائے کی پتی کو راہِ راست پر لانے کے لیے تیار کیے جانے والے اِس مشروب کو اب غیر سرکاری طور پر ''مشروبِ کراچی‘‘ کا درجہ حاصل ہوگیا ہے! لوگوں نے مل بیٹھنے کے اور تمام طریقوں اور وسیلوں کو تج کر چائے کو رسّی کی طرح اتنی مضبوطی سے تھام لیا ہے کہ اب وہ جان چھڑاکر کہیں بھی نہیں جاسکتی! چائے یوں حرزِ جاں ہے کہ معاملہ ؎
پیار کا وعدہ ایسے نبھائیں کوئی جدا کرنے نہ پائے
میں بھولوں تو میں مر جاؤں، تُو بھولے تو تُو مر جائے
کی منزل تک پہنچ کر ٹھہر گیا ہے۔ لوگوںکو گھر سے نکلنے کا بہانہ چاہیے۔ بہانہ ہے چائے۔ اہلِ خانہ سے کہیے کہ چائے کا موڈ ہو رہا ہے تو وہ کہتے ہیں اب ہمیں کیوں تکلیف دیتے ہو، ہوٹل کھلے ہوئے تو ہیں۔ وہاں ''جشنِ بہاراں، محفلِ یاراں آباد رہے‘‘ کا ماحول ہے کہ دم نہیں توڑتا۔ معاملات چائے سے شروع ہوکر چائے پر ختم ہوتے ہیں۔ بیچ میں جو کچھ ہے وہ تو فقط زیبِ داستاں کے لیے ہے! حقیقت یہ ہے کہ چائے نے ہمیں اپنی محبت کے شکنجے میں کَس لیا ہے اور ہماری حالت یہ ہے کہ ع
اتنے مانوس صیّاد سے ہوگئے اب رہائی ملے گی تو مرجائیں گے!