"MIK" (space) message & send to 7575

’’اوئے، میں شیر آں!‘‘

کسی جنگل میں ایک گیدڑ کو کہیں سے شیر کی کھال مل گئی۔ اس نے کسی نہ کسی طور اس کھال میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کیا۔ اس مرحلے سے گزرنے کے بعد جنگل کے چھوٹے موٹے جانوروں کو خوفزدہ کرنے کے ارادے سے وہ اپنی کمیں گاہ سے باہر آیا۔ ایک ہرن نے اُسے دیکھا تو بھاگ کھڑا ہوا۔ اور آگے بڑھا تو ایک بارہ سنگھا بھی اُسے دیکھ کر بد حواس ہوا اور بھاگ نکلا۔ چند دوسرے چھوٹے موٹے سبزی خور جانوروں نے بھی ایسا ہی ریسپانس دیا۔ گیدڑ ذرا سا اور آگے بڑھا تو دو بھیڑیے دکھائی دیئے۔ گیدڑ نے شیر کی طرح دہاڑتے کی کوشش کرتے ہوئے انہیں خوفزدہ کرنا چاہا۔ وہ دونوں معاملے کو بھانپ گئے اور ذرا سی پسپائی اختیار کرتے ہوئے پھر قدم جماکر کھڑے ہوگئے۔ اب گیدڑ نے دہاڑنے کے ساتھ ساتھ کہا ''جانتے نہیں کہ میں شیر ہوں؟‘‘
بھیڑیے سمجھ گئے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ وہ آگے بڑھے۔ گیدڑ نے خطرے کی بُو سُونگھتے ہوئے آخری کوشش کی ''جان کی خیر مناؤ، تمہارے سامنے شیر کھڑا ہے!‘‘
بھیڑیوں نے آگے بڑھ کر پنجے مارے تو کھال اتر گئی اور گیدڑ باہر آگیا۔ گیدڑ نے گھگھیاتے ہوئے پوچھا ''آپ نے کیسے پہچانا کہ میں شیر نہیں ہوں؟‘‘
بھیڑیے بولے ''شیر کبھی نہیں کہتا وہ شیر ہے۔ اُس کا سامنے آ جانا ہی کافی ہوتا ہے!‘‘
صدر ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے وہاں سفارت خانہ منتقل کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے اس کے نتیجے میں بہت کچھ واضح ہوگیا ہے۔ اس فیصلے کی بظاہر غایت یہ تھی کہ ایک طرف تو مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کی نئی لہر پیدا ہو اور دوسرے یہ کہ اسلامی دنیا واضح طور پر دو گروہوں میں منقسم ہوجائے۔ متعدد اسلامی ممالک امریکا کی طرف جھکے ہوئے ہیں، بلکہ اُس کے حاشیہ بردار ہیں اور اسی حوالے سے اسرائیل سے بھی بہتر تعلقات استوار رکھنے پر مجبور ہیں۔
بین الاقوامی سیاست سے متعلق امور کے ماہرین اب تک درست اندازہ نہیں لگا پائے ہیں کہ اس مرحلے پر آخر صدر ٹرمپ کو مقبوضہ بیت المقدس سے متعلق یہ اعلان کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ غور کرنے پر ایک بات تو سمجھ میں آتی ہے ... کہ عالمی سیاست کے تیزی سے بدلتے ہوئے خد و خال اور معاشی و مالیاتی سرگرمیوں کے مرکز کا دھیرے دھیرے ایشیا کی طرف کھسکنا امریکا اور کے ہم نواؤں کے لیے انتہائی پریشان کن ہے اور ایسے میں لازم ہے کہ ایسا کچھ کیا جائے جس سے ایشیا کے ایک اہم خطے میں کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہو۔ اس اعلان سے اسرائیل کے ہاتھ کچھ آئے نہ آئے، امریکا کو اتنا فائدہ ضرور ہوگا کہ مسلم دنیا میں احتجاج کا نیا سلسلہ شروع ہوگا اور احتجاج کی اس لہر کے زیرِ اثر کئی معاشرے مزید خرابیوں کی نذر ہوں گے یا تادیر اُن کی گرفت میں رہیں گے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکا نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے خلاف قرارداد ویٹو کردی تھی۔ جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں البتہ امریکی قیادت کے لیے بہت حد تک سبکی کا سامان ہوا۔ معاملہ قبلہ اول کا تھا اس لیے مسلمانوں کا شدید جذباتی ہو اٹھنا فطری امر تھا۔ جنرل اسمبلی میں پیش کی جانے والی قرارداد کے حق میں 128 ووٹ آئے۔ 9 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ باقی ارکان غیر حاضر رہے۔
انتہائی حیرت انگیز بات یہ نہ تھی کہ مقبوضہ بیت المقدس کے حوالے سے امریکا مخالف قرار داد پیش کرنے میں پاکستان پیش پیش رہا بلکہ یہ تھی کہ جنرل اسمبلی میں مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے تقریر بھی خاصی جاندار کی۔ نکی ہیلی کی طرف امداد کے معاملے پر دی جانے والی دھمکی کے جواب میں ملیحہ لودھی نے کہا کہ پاکستان امداد کا بھوکا ہے نہ دھمکیوں سے ڈرتا ہے۔ اور یہ بھی کہ امداد مفت نہیں دی جاتی، اُس کے ساتھ بہت سی شرائط بھی نتھی ہوتی ہیں۔ جاب ڈن ویل! بالکل درست۔ ع
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی
اس سے قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ''ڈو مور‘‘ کے جواب میں کہا ''نو مور!‘‘ پاکستان سمیت تمام کمزور ممالک کے لیے ڈرنے کا زمانہ جاچکا ہے۔ کوئی بھی قوم اپنی عزتِ نفس کو کس حد تک داؤ پر لگا سکتی ہے؟ محض امداد کی خاطر پورے وجود کو تو ٹھکانے نہیں لگایا جاسکتا! پاکستان سمیت اُن تمام ممالک کے لیے ''ابھی نہیں یا کبھی نہیں‘‘ کا لمحہ آچکا ہے۔ تمام معاملات میں دبک کر اپنے ہی خلاف فیصلے کرنے سے گریز کرتے ہوئے اب ان ممالک کو مل کر اپنے حق میں فیصلے کرنے کی عادت اپنانا ہوگی۔
رائے شماری سے قبل امریکا نے جو کچھ کیا وہ بھی اب ریکارڈ اور حافظے کا حصہ ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکا کی مستقل مندوب نکی ہیلی نے ٹھیک ٹھاک دھمکی آمیز لب و لہجہ اختیار کیا اور امداد لینے والے تمام ممالک کو خبردار کیا کہ پاکستان، ایران، مصر اور یمن کی تحریک پر پیش کی جانے والی اس قرار داد پر امریکا کے خلاف ووٹ دیتے وقت نتائج ضرور ذہن میں رکھیں۔ رائے شماری کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم یہ امریکا مخالف ووٹ نہیں بھولیں گے اور جب بھی کوئی امداد طلب کرے گا تو اسے یہ قرار داد اور اس پر ہونے والی رائے شماری یاد دلائیں گے۔
ان تمام باتوں سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ یہی کہ امریکا کو خود بھی احساس ہے کہ ہر معاملے میں اپنے طور پر بہت کچھ کر گزرنے اور پورے پورے ملک تاراج کرنے کا وقت گزر گیا۔ عالمی سیاست و معیشت کا تیزی سے بدلتا ہوا منظر نامہ بہت کچھ بیان بھی کر رہا ہے اور بہت سے اقدامات کا متقاضی بھی ہے۔ امریکا کے لیے سب سے بڑی الجھن یہ ہے کہ یورپ اب کھل کر اس کا ساتھ نہیں دے رہا۔ وہ ''نرم قوت‘‘ کو بہترین دستیاب آپشن کی حیثیت سے اپنا چکا ہے۔ ایسے میں امریکا کے لیے کمزور ممالک اور بالخصوص اسلامی برادری کے ارکان کے خلاف تنہا جانا بظاہر ممکن نہیں رہا۔ جنرل اسمبلی میں برطانیہ، فرانس، اٹلی، سوئیڈن، فن لینڈ، جرمنی، لکسمبرگ اور دیگر یورپی ممالک نے بھی امریکا کے خلاف ووٹ دیا ہے۔
کھال پہن کر خود کو شیر ظاہر کرنا اور دیگر جانوروں کو ڈرانے کی کوشش گیدڑ کی مجبوری تھی۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ شیر بہ نفسِ نفیس موجود ہے مگر اُس کی طاقت میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ شہر میں پہلوان کا اور جنگل میں شیر کا بڑھاپا بہت عبرت ناک ہوتا ہے۔ جوانی میں بھی شیر کو شکار کے لیے خاصی تگ و دَو کرنا پڑتی ہے۔ بڑھاپے میں اُس کے لیے یہی ایک آپشن رہ جاتا ہے کہ دوسرے درندے شکار کریں اور ان کا چھوڑا ہوا یعنی ''جھوٹا‘‘ کھاکر کسی نہ کسی طور زندہ رہا جائے۔ امریکا کے لیے بھی ایسی ہی صورت حال پیدا ہوتی جارہی ہے۔ بوڑھے شیر کی کوئی نہیں سُنتا، کوئی نہیں ڈرتا۔ ''انکل سام‘‘ کو بھی اندازہ ہوچکا ہے کہ عالمی سیاسی منظر نامے میں تبدیلی آچکی ہے۔ اور اب جو کچھ کرنا ہے اِس تبدیلی کو ذہن نشین رکھتے ہوئے کرنا ہے۔ ایک آدھ قدم بھی راہ سے ہٹ کر پڑا تو سمجھ لیجیے گئی بھینس پانی میں۔ امریکی قیادت کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ محض دھمکاکر کام نکلوانے کا زمانہ نہیں رہا۔ اب اُسے کہنا پڑ رہا ہے کہ وہ شیر ہے۔ طاقت ختم ہوجائے تو صرف بڑھک رہ جاتی ہے۔ بس، یہی ایک بات بتاتی ہے کہ شیر کا زوال شروع ہوچکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں