بات سچ بھی ہے اور عجیب بھی۔ انسان سے زمین کے مسائل حل نہیں ہو پارہے اور کائنات کی فکر لاحق ہے۔ روئے ارض پر اربوں انسان آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی درجنوں ممالک میں ایک بڑا دردِ سر ہے۔ یہی حال نکاسیٔ آب کے نظام کا ہے۔ ایسے میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب زمین ہی کو مسائل سے پاک نہیں کیا جا سکا تو پوری کائنات کے غم میں مبتلا ہونے کی آخر ضرورت کیا ہے۔
دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کو خلائی تحقیق کے میدان میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی جلدی ہے۔ سبھی چاہتے ہیں کہ نظام شمسی کے اندر یا اُس کے نواح میں کہیں زندگی کی رمق تلاش کر لیں۔ امریکا اس معاملے میں کچھ زیادہ جذباتی یا اُتاؤلا ہوا جا رہا ہے۔ زمین سے ہٹ کر زندگی کی تلاش ایک ایسا معاملہ جس کا کریڈٹ لینے کی دوڑ سی لگی ہے۔ انتہائی اعلیٰ معیار کی حساس ترین دور بینیں تیار کی گئی ہیں۔ کائنات کے دور افتادہ گوشوں کی آوازیں بھی ریکارڈ کی جا رہی ہیں تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ کہیں زندگی پائی جاتی ہے یا نہیں۔ یہ سب کچھ اِس انداز سے کیا جا رہا ہے گویا زمین پر تمام مسائل حل کیے جا چکے ہیں اور اب بہت سا فارغ وقت پڑا ہے تو چلو، کائنات کے مسائل حل کرنے پر توجہ دی جائے!
اسٹیفن ہاکنگ نے غیر ارضی مخلوق اور خدا کے وجود کے بارے میں کئی بار اپنی رائے تبدیل کی ہے۔ کبھی وہ کہتے ہیں کہ کوئی ''انٹیلی جنٹ ڈیزائنر‘‘ ہے جس نے یہ کائنات بنائی ہے اور کبھی وہ اپنی رائے سے رجوع کر لیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ غیر ارضی مخلوق سے متعلق تصوّرات اور نظریات کا بھی ہے۔ ماہرین کی رائے اس حوالے سے تبدیل ہوتی رہی ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ نے اس معاملے میں بھی کئی بار اپنی رائے سے رجوع کیا ہے۔ اب ان کا کہنا ہے کہ زمین کی طرف آنے والی ایک بڑی چٹان غیر ارضی مخلوق کا بھیجا ہوا جہاز بھی ہو سکتی ہے!
''ہوسکتی ہے‘‘ پر غور فرمائیے۔ یعنی پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا (کیونکہ معلوم ہی کچھ نہیں) مگر ''ہو سکتی ہے‘‘ کہہ کر گنجائش پیدا کرنے میں کیا ہرج ہے! اگر وہ چٹان محض چٹان ہوئی تو کوئی بات نہیں۔ اور اگر واقعی غیر ارضی مخلوق کا جہاز ثابت ہوئی تو علمیت اور تحقیق کی دھاک مزید بیٹھ جائے گی۔
خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ''ناسا‘‘ کے ایک سابق افسر نے دعویٰ کیا ہے کہ غیر ارضی یا خلائی مخلوق کے بارے میں بہت کچھ ہے جو چھپایا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اُس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ غیر ارضی مخلوق روئے ارض پر آ چکی ہے اور یہ کہ ''ناسا‘‘ کو اس حوالے سے بہت کچھ معلوم ہے مگر معاملات پر پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ اپنے سابق افسر کے بیان کے حوالے سے ''ناسا‘‘ نے اب تک کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا۔
1971ء کے اپولو 14 مشن کے تحت چاند کی سطح پر قدم رکھنے والے چھٹے انسان ڈاکٹر ایڈگر مچل، جن کا انتقال 2016ء میں ہوا، اس امر پر غیر معمولی شدت کے ساتھ یقین رکھتے تھے کہ زمین سے ہٹ کر بھی زندگی موجود ہے اور اتنا ہی نہیں بلکہ دوسرے سیّاروں کی مخلوق زمین پر آتی رہی ہے۔ 2009ء میں معروف برطانوی اخبار ''گارڈین‘‘ سے انٹرویو میں ڈاکٹر ایڈگر مچل نے کہا تھا ''اب ہمیں (یعنی حکومت کو) یہ بات پوشیدہ نہیں رکھنی چاہیے کہ غیر ارضی مخلوق روئے زمین پر آتی رہی ہے‘‘۔
ڈاکٹر ایڈگر مچل کا مؤقف تھا کہ غیر ارضی مخلوق خلا میں ہتھیاروں کے استعمال کی شدید مخالف ہے اس لیے خلا میں کسی بھی سطح کی جنگ کے امکان کو دفن کر دینا ہی زمین اور اہلِ زمین کے حق میں ہے۔ وہ اس بات کے حق میں تھے کہ خلا میں ہر قسم کے ہتھیاروں پر مکمل پابندی سے متعلق روس اور چین کی تجویز پر عمل کیا جانا چاہیے مگر امریکی قیادت ایسا نہیں چاہتی۔
خلائی تحقیق آخر ہے کیا؟ کیا اس کا بنیادی مقصد زمین سے ہٹ کر کہیں زندگی تلاش کرنا ہے؟ اگر واقعی ایسا ہے تو اُس زندگی کا ہمیں کیا اچار ڈالنا ہے؟ اگر کسی اور سیّارے پر زندگی ہے بھی تو ہمارے کس کام کی؟ وہ ہمارے کون سے مسائل حل کر دے گی؟
ماہرین اور محققین کی توجہ زمین سے بہت دور، خلائے بسیط پر مرکوز ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ زمین پر کون توجہ دے گا؟ زمین آج بھی مسائل سے گِھری ہوئی ہے، اَٹی ہوئی ہے۔ انسان کے لیے ڈھنگ سے جینا کل بھی مشکل تھا اور آج بھی مشکل ہے۔ ایسے میں یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ زمین کو نظر انداز کرکے خلائے بسیط کو مرکزِ نگاہ و امید بنایا جائے۔ اگر زمین سے ہٹ کر دور و نزدیک کہیں زندگی‘ کسی شکل میں موجود ہے تب بھی ہمیںکیا فرق پڑتا ہے؟ کل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کہیں خلائی مخلوق تک رسائی بھی ہو جائے اور وہ کہے ؎
رندِ خراب حال کو زاہد! نہ چھیڑ تُو
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو
نظام شمسی یا اُس سے باہر کسی سیّارے پر پانی اور زندگی کی تلاش کے نام پر کیے جانے والے ڈرامے کے ذریعے انسان کو خوش گمانیوںکے پنجرے میں بند رکھنے پر خاطر خواہ توجہ دی جا رہی ہے۔ انسان دور آسمان کو حیرت سے دیکھتا رہا ہے۔ آج بھی ہم رات کو تاروں بھرا آسمان دیکھتے ہیں تو طرح طرح کے تصورات میں گم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یہ تصورات ہمیں ایک ایسی خیالی دنیا میں لے جاتے ہیں جس میں کوئی الجھن ہے نہ پریشانی اور مسائل زیرو پوائنٹ پر آ چکے ہیں۔ اور یہ کہ وہاں محض خواہش کر لینا کافی ہوگا یعنی سوچیے اور پائیے! انسان ابتدا ہی سے ایسا رہا ہے۔ اپنے ماحول کی خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش وہ کرتا نہیں اور اپنے ماحول کی خوبیوں پر اللہ کا شکر ادا کرنے سے بھی گریزاں رہتا ہے۔ ابتدا ہی سے خیالات کا مرکز یہ نکتہ ہے کہ کہیں کوئی ایسی دنیا مل جائے جس میں کوئی پریشانی، کوئی الجھن پائی ہی نہ جاتی ہو۔ اِس نفسیاتی کمزوری کا محققین اور ماہرین بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اُن کی باتوں میں آکر آج کا انسان بھی اصل مسائل سے ہٹ کر پتا نہیںکیا کیا سوچ رہا ہے۔ اور خیالات کی اس روش پر صرف یہ کہا جا سکتا ہے ؎
یوں سمجھنے کو تو سب کچھ این و آں سمجھا تھا میں
جو سمجھنا چاہیے تھا‘ وہ کہاں سمجھا تھا میں!
خلا میں زندگی تلاش کرنا اچھی بات ہے مگر اس سے اچھی بات ہے روئے زمین پر پائی جانے والی زندگی کو زیادہ سے زیادہ پرمسرّت بنانے کی سعیٔ پیہم۔ خوش گمانیوں کے جال میں قید رکھنے والی تحقیق کو ایک طرف ہٹا کر دنیا بھر کی ترقی یافتہ اقوام کو حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ بات کرنی چاہیے جو زمین اور انسان کے مفاد کی ہے۔ زمین آج بھی مسائل سے بھری پڑی ہے۔ انسان کی زندگی میں مشکلات ہیں کہ کم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ قدم قدم پر الجھنیں ہیں، پیچیدگیاں ہیں۔ ان پیچیدگیوں کو دور کیا جائے کہ ایسا کرنا ہی زمین اور اس پر بسنے والوں کے بہترین مفاد میں ہے۔ ؎
تم آسماں کی بلندی سے جلد لَوٹ آنا
مجھے زمیں کے مسائل پہ بات کرنی ہے!