"MIK" (space) message & send to 7575

کیا غضب ہے ’’کمالِ بے ہُنری‘‘

ماہرین بھی عجیب ہی مزاج رکھتے ہیں۔ وہ جب کسی معاملے کو تصدیق سے ہمکنار کرنے کی منزل میں آتے ہیں تو اُسے زندگی کا ماخذ و محور قرار دینے پر تُل جاتے ہیں۔ پھر یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ مہرِ تصدیق ثبت کیے جانے کے بعد ماحول پر، معاشرے پر کیا گزرے گی۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ بھرپور نیند انسان کے لیے لازم ہے اور پھر گہری نیند یقینی بنانے کے عجیب و غریب نسخے پیش کیے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی بھرپور نیند کے مزے لینے کا عادی ہو چکا ہو تو اُسے نیند کے شدید منفی اثرات کے بارے میں بتاکر ڈرایا جاتا ہے۔ انسان الجھ کر رہ جاتا ہے کہ کس بات کو درست سمجھے اور کس بات کو غلط۔ یہی قیامت ماہرین کھانے پینے کے معاملے میں بھی انتہائی آراء کے اظہار کے ذریعے ڈھاتے ہیں۔ زندہ رہنے کے لیے کھانا اور پینا لازم ہے مگر ماہرین نے اتنے بنیادی اور سادہ سے معاملے کو بھی تحقیق و تجزیے کا موضوع بنا ڈالا ہے۔ کبھی یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ زندہ رہنے کے لیے دن رات کھانا پینا انتہائی لازم ہے اور کبھی معاملات کو یوں بیان جاتا ہے گویا اشیائے خور و نوش کی تصاویر دیکھ لینا ہی پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہے! یعنی کم کھانے والوں کو مطعون کیا جاتا ہے اور زیادہ کھانے والوں پر تنقید سے گریز نہیں کیا جاتا۔ ایسے میں لوگ پھر الجھ کر رہ جاتے ہیں کہ کیا کھائیں، کیا نہ کھائیں اور یہ کہ کچھ کھائیں بھی یا دنیا سے یونہی گزر جائیں۔
ہم نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ بہتر اور پُرسکون زندگی بسر کرنی ہے تو ماہرین کی آراء سے بچ بچ کر گزریے۔ یہ ستم گر رائے زنی کی آڑ میں شمشیر زنی کے کمالات دکھاتے ہیں۔ ان کا ایک بڑا کمال یہ بھی ہے کہ زمانے بھر کے لاحاصل، غیر مفید اور منفی اثرات کے حامل معاملات کو معاشرے کے لیے انتہائی لازم قرار دے کر داد کے بھی طالب رہتے ہیں! کوئی لاکھ دلائل پیش کرے کہ آپ کے پیش کردہ خیالات حقیقت کی دنیا سے میل نہیں کھاتے مگر یہ اللہ کے بندے اپنی رائے سے رجوع کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔ قدم قدم پر ان کی بھرپور کوشش یہی ہوتی ہے کہ محترم ظفر اقبالؔ کے مشورے پر بھرپور عمل کیا جائے۔ ؎
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اُس پر ظفرؔ 
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے! 
وہ مثل تو آپ نے بھی سُنی ہوگی کہ مایا کو ملے مایا کرکے لمبے ہاتھ۔ بس کچھ ایسا ہی معاملہ ماہرین کا بھی ہے۔ لاحاصل نوعیت کے معاملات میں ہیرے ٹانکنے کا ہنر اِنہیں کچھ ایسا راس آیا ہے کہ ہر بے ڈھنگا معاملہ اِن کی تلاش میں رہتا ہے تاکہ اِن سے ملن کی صورت میں اپنی اِفادیت کا گراف بلند کرے! شنید ہے کہ امریکا میں متعدد جامعات کے ماہرین کی ایک ٹیم نے 17 سے 30 سال تک کے نوجوانوں (لڑکیوں اور لڑکیوں) پر ''تحقیق‘‘ کے بعد بتایا ہے کہ یومیہ بنیاد پر کی جانے والی گپ شپ کسی بھی اعتبار سے نقصان دہ نہیں۔ اِن 300 نوجوانوں کے شب و روز کا جائزہ لے کر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ذہن کو صحت مند رکھنے میں گپ شپ انتہائی مفید کردار ادا کرتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ زندگی کو‘ ذہن کو بہت حد تک متوازن اور روزمرہ زندگی میں عمومی مسرّت کا گراف بلند رکھنے کے حوالے سے گپ شپ کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ شرط صرف ایک ہے... وہ یہ کہ گپ شپ ذرا متوازن رہتے ہوئے کی جانی چاہیے۔ 
دیکھا آپ نے؟ اِسے کہتے ہیں باریک کام۔ ایک طرف تو گپ شپ کو ذہنی صحت کے لیے لازم قرار دے کر اِسے زندگی کا حصہ بنانے کی ترغیب و تحریص دی جارہی ہے اور دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ گپ شپ کرتے وقت متوازن رہنا ہے۔ کوئی ان ماہرین سے پوچھے کہ دریا میں گرنے کے بعد کوئی دھاروں سے کہہ سکتا ہے کہ ذرا سنبھل سنبھل کے بہو! دریا کا کام ہے آپ کو بہا لے جانا۔ یہی حال گپ شپ کا ہے۔ ؎
جب چل پڑے سفر کو تو کیا مُڑ کے دیکھنا 
دنیا کا کیا ہے، اُس نے صدا بار بار دی! 
سینکڑوں نوجوانوں کے شب و روز کا جائزہ لینے میں خاصی عرق ریزی کے بعد ماہرین نے یہ نکتہ بھی بیان کیا ہے کہ گپ شپ کے دوران مرد و زن دونوں ہی میں آکسیٹوسن نامی ہارمون ریلیز ہوتا ہے جس کے نتیجے میں دل و دماغ کو سکون ملتا ہے، فرحت کا احساس رگ و پے میں سما جاتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جو لوگ باقاعدگی سے گپ شپ کرتے ہیں یعنی خوب اِدھر اُدھر کی ہانکتے ہیں وہ ایک دوسرے کو سمجھنے کی بھرپور صلاحیت پروان چڑھانے میںکامیاب ہوتے ہیں۔ 
گپ شپ سے دل و دماغ کو تازگی کا ملنا کوئی ایسی بات نہیں جسے بیان کیا جائے اور پھر ایک دوسرے کو سمجھنے کا معاملہ؟ یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں۔ ہم نے اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جو دن رات گپ شپ کو فرضِ عین سمجھ کر حرزِ جاں بنائے رہتے ہیں اور فرحت و شادمانی کا احساس ہے کہ اُن کے رگ و پے میں سمایا رہتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے، دن رات گپ شپ کی محفل سجانے والے ایک دوسرے کو نہیں سمجھیں گے تو کون سمجھے گا؟ جن کے دل اور دماغ ملتے ہیں وہی تو گپ شپ کے نام پر روز ملتے ہیں۔ مزاج کی ہم آہنگی ہی تو اُنہیں ایک پلیٹ فارم پر لاتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یومیہ بنیاد پر گپ شپ کی محفل سجانے یا ٹِھیا لگانے والے آخر ایک دوسرے کو کتنا جاننا چاہتے ہیں! اور دوسرے کو بہت حد تک جاننے کا کیا اچار ڈالنا ہے؟
ماہرین نے ایک اور ''بڑی حقیقت‘‘ سے پردہ اٹھانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خواتین اور مردوں کے گپ شپ کے موضوعات اور مقاصد میں فرق ہوتا ہے! یعنی خواتین گپ شپ میں جو کچھ تلاش کرتی ہیں مرد اُسے ہٹ کر کچھ تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ اب کیا اتنی سی بات سمجھنے کے لیے ہم اور آپ ماہرین کے محتاج ہیں؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین اپنے مخالفین کے بارے میں بات کرتی ہیں اور اُن کے زیادہ سے زیادہ مائنس پوائنٹس جاننے کے لیے بے تاب رہتی ہیں۔ دوسری طرف مرد گپ شپ کے دوران مختلف شعبوں کے کامیاب ترین مردوںکا ذکر کرتے ہیں اور اُن کے شاہانہ انداز پر گفتگو کے ذریعے بالواسطہ طور پر خود بھی کچھ بننے اور کرنے کی تحریک پاتے ہیں۔
ماہرین کو ''نوید‘‘ ہو کہ اُن کی اِتنی ساری محنت سے بہت پہلے سے ہم یومیہ گپ شپ کو حرزِ جاں بنائے ہوئے ہیں۔ ہم ایک زمانے سے بخوبی جانتے ہیں کہ روز ملنے اور جی بھر کے گپ شپ لگانے سے دل و دماغ کو فرحاں و شاداں رکھنے میں حیرت انگیز حد تک مدد ملتی ہے۔ مگر صاحب، ماہرین نے جو حتمی نکتہ بیان نہیں کیا وہ ہم دیکھ رہے ہیں... یہ کہ اِس ''کمالِ بے ہُنری‘‘ سے زندگی میں کوئی بھی بڑی مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ روز کا ملنا، خوب باتیں کرنا محض باتیں کرنا ہی تو ہے اور ع 
صرف باتوں سے کوئی بات کہاں بنتی ہے؟

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں