"MIK" (space) message & send to 7575

جو دِکھتا ہے وہی بِکتا ہے!

آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل۔ بات سچ ہے۔ دنیا اُسی چیز کو مانتی ہے جو دکھائی دیتی ہے، محسوس ہوتی ہے۔ اقبالؔ نے ''شِکوہ‘‘ میں خوب کہا ہے ؎ 
خوگرِ پیکرِ محسوس تھی انساں کی نظر 
مانتا پھر کوئی اَن دیکھے خدا کو کیونکر
کچھ مدت پہلے تک‘ ہم میڈیا کے دور میں جی رہے تھے، اب خیر سے سوشل میڈیا کے دور میں بھی جی رہے ہیں۔ مین سٹریم یا باضابطہ میڈیا کا معاملہ تو یہ ہے کہ جس چیز کی ڈیمانڈ ہو یا جس کی ڈیمانڈ پیدا کرنا ہو‘ وہی کچھ پیش کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کی مہربانی سے اب بہت کچھ ایسا بھی ہے جو شاید پیش کیے جانے کے قابل نہیں مگر پیش کر دیا جاتا ہے۔ مگر خیر، اِس قباحت کو جھیلنا پڑے گا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سے اہم اور حسّاس معاملات کی نشاندہی بھی تو ہوتی ہے اور بر وقت ہوتی ہے۔
کراچی میں ایم کیو ایم کی شکست و ریخت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اُسے پُر کرنے کی نیت سے کئی جماعتیں میدان میں اُتری ہیں۔ تحریکِ انصاف کی انٹری قدرے نئی ہے۔ جماعتِ اسلامی ایک زمانے سے اہلِ کراچی کے دل جیتنے کی کوشش کرتی آئی ہے۔ جماعتِ اسلامی کا سیاسی محاذ بھلے ہی کمزور رہا ہو، بہبودِ عامہ کا محاذ بہت مضبوط رہا ہے اور یہی محاذ اِس معرکے میں اُس کی اب تک کی سب سے بڑی شناخت ہے۔ 
جماعتِ اسلامی کراچی کے تحت جمعہ کو‘ (نمازِ جمعہ کے بعد) کالم نگاروں اور سینئر رپورٹرز کی جماعتِ اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن سے ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ بھائی زاہد عسکری نے یاد کیا تو ہم بھی شریکِ محفل ہوئے۔ اس ملاقات کا بنیادی مقصد کراچی کی مجموعی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کرنا تھا۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے اختلافات اور سیاسی اعتبار سے خلا کے پیدا ہو جانے کے تناظر میں یہ نشست بہت اہم تھی۔ حافظ نعیم الرحمن شہر کی صورتِ حال پر خیالات کا اظہار کرچکے تو سوالات کا مرحلہ آیا۔ احباب نے اس نکتے پر زور دیا کہ دنیا بھر میں سلسلہ یوں ہے کہ ووٹ اُنہی کو ملتے ہیں جو کچھ کرتے ہیں، کر دکھاتے ہیں۔ کراچی سمیت ہمارا ملک شاید معلوم کائنات کا حصہ نہیں کیونکہ یہاں ''فگزیشن‘‘ کا معاملہ نمایاں ہے۔ جس کا جو ذہن بن چکا ہوتا ہے‘ وہ اُسی کے مطابق ووٹ دیتا ہے۔ اِسے عرفِ عام میں ''کھمبا ووٹ‘‘ کہا جاتا ہے یعنی کوئی سیاسی جماعت اپنے گڑھ میں کھمبے کو بھی امیدوار بنا دے تو اُسے ووٹ پڑے گا۔ یہاں اِس نکتے پر بحث مقصود نہیں کہ ایسا ہونا صحیح ہے یا غلط مگر یہ کہ تلخ حقیقت یہی ہے۔ 
حافظ نعیم الرحمن کا ایک بنیادی شِکوہ یہ تھا (یا ہے) کہ جماعتِ اسلامی جو کچھ کرتی ہے‘ اُسے معقول کوریج نہیں ملتی۔ مثلاً اُس نے ''نادرا‘‘ کے معاملات درست کرنے کے لیے جو تحریک چلائی اُس کے نتیجے میں اِس اہم ادارے کے معاملات قابل ذکر حد تک درست ہو چکے ہیں۔ (ہم یہ بات اس لیے بھی لکھ رہے ہیںکہ خود ہم نے بھی تین دن میں ب فارم بنوایا ہے جبکہ دس ماہ قبل ہم نے شناختی کارڈ چھن جانے پر ڈپلیکیٹ کے لیے ایک ہزار روپے فیس کے ساتھ ارجنٹ درخواست دی تھی تو سات دن کی طے شدہ میعاد کے بجائے کارڈ ملنے تک درخواست کا ''سوا مہینہ‘‘ ہو چکا تھا!)
کراچی کا بھی وہی معاملہ ہے جو اندرون سندھ بلکہ اندرون ملک کا ہے۔ لوگوں کے ذہن ووٹ کاسٹ کرنے کے معاملے میں ''فکسڈ‘‘ ہو چکے ہیں۔ سندھ کے طول و عرض میں کوئی بھی جماعت کچھ بھی کر گزرے، لوگوں کے ذہن میں ''فیصلہ ضمیر کا، ووٹ بے نظیر کا‘‘ والی بات کیل کی طرح گڑی ہوئی ہے۔ پنجاب میں لوگ (ن) لیگ سے ہٹ کر نہیں سوچتے۔ جمہوریت کا حسن اِس میں ہے کہ لوگ اپنی مرضی کے مطابق ووٹ کاسٹ کریں مگر ووٹ کاسٹ کرنے کی ذہنیت کا حُسن اِس میں ہے کہ لوگ سوچ سمجھ کر ووٹ کاسٹ کریں۔ عوام اپنی نمائندگی کا حق اُسے دیں جو باعمل ہو، مسائل کے حل کے لیے تگ و دو کرے۔ لگی بندھی سوچ کے تحت یعنی کسی ایک کھونٹے سے بندھ کر ووٹ ڈالنا کسی بھی اعتبار سے لائقِ ستائش روش نہیں۔
ایم کیو ایم کو کراچی کا مینڈیٹ کم و بیش تین عشروں تک ملا ہے۔ اِن تین عشروں کے دوران اُس کی جو بھی کارکردگی رہی ہے وہ بھی عوام کے سامنے ہے۔ اِس وقت بھی بلدیاتی سطح پر کراچی کا نظم و نسق ایم کیو ایم ہی کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ شہر کس حالت میں ہے۔ اختیارات کی جنگ اپنی جگہ، جو تھوڑے بہت اختیارات اور وسائل میسر ہیں اُن کے ذریعے بھی جو کچھ کیا جا سکتا ہے‘ وہ ایم کیو ایم اب تک نہیں کر پائی۔ اور پھر اندرونی شکست و ریخت نے شہر پر پارٹی کی گرفت مزید کمزور کر دی ہے۔ لوگ مسائل کا حل چاہتے ہیں مگر پارٹی اندرونی کشمکش میں الجھی ہوئی ہے۔
کراچی کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے صرف جماعتِ اسلامی متحرک نہیں‘ تحریکِ انصاف نے بھی آواز اٹھائی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ چند غیر سرکاری تنظیمیں بھی منظر عام پر آتی رہی ہیں اور اُن میں سے بیشتر فعال ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن کہتے ہیں کہ ہم مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کے دور میں جی رہے ہیں۔ اور یہ بھی کہ جو دِکھتا ہے وہی بِکتا ہے۔ 
سلسلۂ کلام یہ تھا کہ محض جماعتِ اسلامی نہیں بلکہ جو بھی عوام کے مسائل حل کرے اُسے کماحقہٗ کوریج ملنی چاہیے تاکہ لوگ ووٹ ڈالنے اور اپنے نمائندے منتخب کرنے کے معاملے میں ''فگزیشن‘‘ ترک کریں، سوچنے کے حوالے سے متحرک ہوں اور ووٹ کاسٹ کرنے وقت دل و دماغ یا ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس نہ کریں۔ جماعتِ اسلامی اور دیگر سیاسی جماعتیں کراچی میں ایک زمانے سے فلاحی منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ اُن کے حُسنِ کارکردگی کا اعتراف بھی کیا جاتا ہے مگر بڑی تعداد میں عوام کے مستفید ہونے پر بھی ووٹ بینک تگڑا نہیں ہو پاتا۔ یہ ٹھیک ہے کہ فلاحی کام لازمی طور پر ووٹ کے لیے نہیں کیے جاتے مگر اِس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ جو کچھ نہ کرتے ہوں‘ اُنہیں بھی تو ووٹ نہیں ملنا چاہیے! یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ ٹھیک ٹھاک حجم والے الاؤ میں اپنا قیمتی فرنیچر جھونک دیا جائے؟ کراچی میں کم و بیش تین عشروں سے ''ووٹ کاسٹنگ پیٹرن‘‘ ایسا ہی تو رہا ہے! 
اہلِ کراچی کے لیے یہی تو فیصلے کی گھڑی ہے۔ اُنہیں ذات، برادری، زبان، ثقافت اور دیگر ''فگزیشنز‘‘ کو ترک کرتے ہوئے ووٹ کاسٹنگ پیٹرن میں حقیقت پسندی کا عنصر داخل کرنا ہو گا۔ جو جماعتیں ایک مدت سے منتخب کی جاتی رہی ہیں مگر کچھ کر کے نہیں دے رہیں اُنہیں Discard کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے۔ ووٹ اُسی کو ملنا چاہیے جو کام کرے، عوام کے مسائل حل کرے اور اُن کی زندگی میں آسانیوں کا تناسب معقول حد تک بڑھانے میں بھرپور تعاون کرے۔ کچھ بھی ایسا نہیں جو عوام پر بے نقاب نہ ہو۔ عام انتخابات زیادہ دور نہیں۔ اُن کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے۔ اپنے نمائندے منتخب کرتے وقت اُنہیں وہ سب کچھ یاد رکھنا چاہیے جو تین عشروں کے دوران کراچی میں ہوا ہے اور اہلِ کراچی پر یعنی خود اُن پر گزرا ہے۔ یہ ''ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘ والا ہی کیس ہے۔ اور ہاں! جو بھی اچھا کام کرے‘ اُسے بھرپور ستائش اور کوریج ملنی چاہیے۔ ایسا ہو گا تو دوسروں کو بھی میدان میں آخر بھرپور کد و کاوش کی تحریک ملے گی اور فلاح کا دائرہ وسعت اختیار کرے گا۔ اِس حوالے سے حافظ نعیم الرحمن سے متفق ہوتے ہی بنے گی کہ جو دِکھتا ہے وہی بِکتا ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں