"MIK" (space) message & send to 7575

زبردست کا ٹھینگا سر پر

دنیا کی ہر ریت نرالی ہے۔ جو مظالم کی انتہا کردے وہ صاف بچ نکلے اور جو محض ایک آدھ جرم کر بیٹھے وہ سزا پائے۔ معاملہ یہ ہے کہ ''جو جیتا وہی سکندر‘‘ کے اصول کی بنیاد پر جو پکڑا گیا وہی مجرم! جس کی گردن ہاتھ میں نہ آسکے وہ لائق صد احترام اور جس کی گردن تک قانون کا ہاتھ پہنچ جائے وہ دنیا بھر کی ذلت اور تحقیر کا حقدار۔ بات اگرچہ انصاف کے تمام تقاضوں کے خلاف ہے مگر کیا کیجیے کہ حقیقت بھی ہے۔ 
اس دنیا میں تو یہی ہو رہا ہے۔ سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں انسانوں کے قاتل دندناتے پھرتے ہیں اور کسی اسٹور میں سو پچاس کی چوری کرنے والا پکڑا جائے تو قانون کی بالا دستی کا ڈھول پیٹا جاتا ہے۔ بڑے بڑے مگر مچھ صاف بچ نکلتے ہیں اور جال میں پھنس جانے والی چھوٹی مچھلیوں کو سزا دلواکر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ انصاف کے تمام تقاضے پورے ہوگئے۔ 
کہاوت آپ نے بھی سنی ہوگی کہ زبردست کا ٹھینگا سر پر۔ معاشروں کا یہی حال ہے۔ جس کے بس میں کچھ نہ ہو وہ ہر معاملے میں پھنس جاتا ہے۔ جس کے پاس طاقت ہے وہی اپنی بات منواسکتا ہے۔ اخلاقی اقدار کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔ تہذیب اور شائستگی اب بالائے طاق ہے۔ شرافت کو خیرباد کہتے ہوئے ہر اس طرز عمل کو اپنالیا گیا ہے جس کی مدد سے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کی جاسکتی ہے۔ 
دنیا بھر کے شوق امریکا میں پائے جاتے ہیں۔ امریکیوں کے شوق ہزاروں ہیں مگر ایک شوق سب پر بھاری ہے ... ہر معاملے میں بھرپور انفرادیت ثابت کرنے کا شوق۔ اِس ایک شوق کی بھرپور تکمیل کے لیے امریکی خدا جانے کیا کیا کرتے پھرتے ہیں۔ امریکی ریاست ورجینیا کی لی کاؤنٹی کے ذیلی علاقے سیمینریز کاؤنٹی میں ایک گھر کے پالتو کتے کو سزائے موت دی گئی ہے۔ اس کتے نے اپنے مالک کی آٹھ دن کی بچی کو بھنبھوڑ دیا تھا۔ بچی نے اسپتال میں دم توڑ دیا تھا۔ 
لی کاؤنٹی کے حکام نے کتے پر مقدمہ چلایا اور جیوری نے اُسے سزائے موت کا حکم سنایا۔ کچھ دن قبل کتے کو زہر کے انجکشن کے ذریعے سزائے موت دے دی گئی۔ سزائے موت دیئے جانے کے بعد طے کیا گیا کہ ماہرین کی مدد سے بچی پر کتے کے حملے کی وجوہ کا تعین کیا جائے گا! ماہرین کی خدمات حاصل بھی کرلی گئی ہیں۔ اب کوئی یہ پوچھے کہ جب معصوم بچی بھی دنیا سے چلی گئی اور اب کتا بھی دنیا میں نہ رہا تو حملے کی وجوہ کس سے اور کس طرح دریافت کی جائیں گی! 
انفرادیت ملاحظہ فرمائی آپ نے؟ ہاتھ آیا بھی تو کون؟ پالتو کتا۔ ویسے امریکا سے آنے والی یہ خبر کسی بھی اعتبار سے حیران کن نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی معاشرے کے مجموعی، نظامِ انصاف اور پالیسی میکنگ میں کچھ خاص فرق نہیں۔ جو کچھ ورجینیا کی لی کاؤنٹی کے کتے کے ساتھ ہوا وہی کچھ امریکی پالیسی میکرز امریکا کے ہر پالتو کتے کے ساتھ کرتے ہیں! دنیا بھر میں امریکا کے پالتو کتوں کو ایسے ہی بھیانک انجام سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ چار ٹانگوں والے اصلی کتوں اور اپنے اپنے عوام اور ریاست سے غداری کرنے والے پالتو امریکی کتوں میں صرف اتنا فرق ہے کہ اصلی کتا کسی پر حملہ کرنے کرنے کی پاداش میں مارا جاتا ہے جبکہ امریکا کے پالتو کتے مالک کے خلاف کچھ نہ کرنے پر بھی عبرت ناک انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ کسی بھی پالتو کو امریکا اُسی وقت تک برداشت کرتا ہے جب تک وہ کام کا رہتا ہے یا حالات اُس کے خلاف نہیں ہو جاتے۔ 
امریکا نے ہر خطے میں اپنی مرضی کے حکمران پالے ہیں اور جی بھر کے یعنی مفادات کی تکمیل کے لیے بھرپور طور پر استعمال کرنے کے بعد انہیں اُسی انجام سے دوچار کیا ہے جس انجام سے آٹھ دن کی بچی پر حملہ کرنے والے کتے کو دوچار ہونا پڑا۔ امریکا کے پالے ہوئے حکمران شکاری کتوں کے مانند ہوتے ہیں جو مالک کے حکم پر شکار کرتے ہیں اور جب مالک کا دل شکار سے بھر جاتا ہے یعنی متعلقہ جنگل میں شکار کی کمی واقع ہو جاتی ہے تو، ظاہر ہے، شکاری کتے کی بھی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ 
لاطینی امریکا ہو یا مشرق وسطیٰ، جنوب مشرقی ایشیا ہو یا مشرقی ایشیا یا پھر افریقا، امریکی پالیسی میکرز نے ہر جگہ یہی کھیل کھیلا ہے۔ جو جب تک کام کا ہے تب تک گڈ بک میں ہے۔ کام پورا ہوتے ہی یا کام کرنے کی صلاحیت ختم ہوتے ہی بندے کی انٹری ''گڈز بک‘‘ میں کردی جاتی ہے! امریکی قیادت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کون کتنے کام کام کا ہے اور کس سے کب تک اور کتنا کام لینا ہے۔ جیسے ہی حالات بدلتے ہیں، امریکی پالیسیوں کا رخ بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ جو صبح تک اپنا تھا وہ شام تک بیگانہ دکھائی دینے لگتا ہے اور رات گزرتے ہی بیگانہ قرار بھی دے دیا جاتا ہے۔ مارکوس، نوریگا، شاہِ ایران اور دوسرے بہت سے ''پالتوؤں‘‘ کا انجام ہم نے دیکھا ہے۔ امریکی پالیسی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ کوئی اُسی وقت تک اپنا ہے جب تک کام کا ہے۔ عامیانہ زبان میں کہیے تو ''چرسی بھائی کس کے؟ ... کھایا، پیا، کِھسکے!‘‘ انگریزی میں کہتے ہیں کہ دنیا میں فری لنچ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ یہ کہاوت امریکی پالیسیوں پر بھی صادق آتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ امریکا کے بہت سے پالے ہوؤں کی زبان پر یہ شِکوہ رہا ہے ؎ 
کل تک جو کہتے تھے اپنا آج وہی بیگانے ہیں 
بیگانوں کو اپنا سمجھیں ہم کیسے دیوانے ہیں 
دنیا کا معاملہ یہی تو ہے۔ جو طاقتور ہے وہ چمچے پالتا ہے۔ جنہیں چمچے بننے کا شوق ہے اُنہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وقت گزر جانے پر اُنہیں بُرے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ پھر یاد کیجیے۔ اِس دنیا میں فری لنچ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جس طرح ہر عمل کا ایک ردِعمل ہوتا ہے بالکل اُسی طرح کچھ پانے کے لیے کچھ دینا پڑتا ہے۔ لازم نہیں کہ جو کچھ دینا ہو وہ زر ہی کی شکل میں ہو۔ صورت کوئی بھی ہوسکتی ہے۔ عزت اور عزتِ نفس دونوں ہی داؤ پر لگ سکتے ہیں اور بالعموم لگ ہی جاتے ہیں۔ 
اور معاملہ امریکا تک کہاں محدود ہے؟ جو بھی کسی کا پالتو ہے اُسے ایک دن ذِلّت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ جو حکمران امریکا یا کسی اور طاقت کے حکم پر اپنے ہی لوگوں کا استحصال اور استیصال کرتے ہیں اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اُنہیں استعمال کرنے والوں کو یاد ہے کہ جو اپنوں کے نہ ہو پائے وہ بھلا اُن کے کیسے ہوسکیں گے! زبردست کا ٹھینگا ہر حال میں سر پر ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ زبردست سے ٹکرانا ہے تو اُس جیسا ہونا پڑے گا۔ اُس کا حاشیہ بردار ہوکر اُسے آنکھیں نہیں دکھائی جاسکتیں۔ ایسی ہر حماقت کا انجام صرف اور صرف استیصال ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں