جو اصول جسم کے لیے ہے وہی اصول روح کے لیے بھی ہے۔ جس کام کی کمی یا زیادتی سے فرد متاثر ہوتا ہے اُسی سے معاشرہ بھی متاثر ہوتا ہے۔ بات عجیب لگتی ہے مگر ہے حقیقت پر مبنی۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی رجحان معاشرے میں موجود ہو اور شدید اثرات مرتب کر رہا ہو اور اُس کے مقابلے پر بالکل مخالف رجحان بھی کار فرما ہو اور ویسے ہی اثرات مرتب کر رہا ہو؟ عقلی جواب تو یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں۔ کوئی سے دو مخالف رجحانات یکساں نتائج پیدا کریں ایسا بھلا کیسے ہوسکتا ہے۔ مگر صاحب! ایسا ہی ہو رہا ہے۔
پاکستانی معاشرے کی نمایاں ترین خصوصیات پر نظر دوڑائیے تو خود کو ایک طویل فہرست تیار کرنے کے لیے تیار کرنا پڑے گا۔ لوگ خدا جانے کیسے کیسے رجحانات کے حامل ہیں۔ ہر رجحان ایسا بھرپور ہے کہ گویا وہی معاشرے کا سب سے بڑا رجحان ہو۔ اپنے بارے میں بڑھ چڑھ کر سوچنے اور بولنے کا رجحان ایسا نمایاں ہے کہ اِس کے مقابل کوئی اور چیز بادی النظر میں دکھائی ہی نہیں دیتی۔ لوگ کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے وجود کو سب سے وقیع اور مقدم سمجھتے ہوئے یوں لب کشا ہوتے ہیں گویا اُن کا فرمایا ہوا تو مستند ہے اور باقی سب جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ صرف اور صرف زیبِ داستاں کے لیے ہے! کسی کمال کے نہ ہوتے ہوئے خود کو باکمال سمجھنا ایسا ذہنی مرض ہے جس کا علاج دنیا کے کسی بھی ماہرِ نفسیات کے پاس نہیں۔
یہی حال اُن کا ہے جو اپنی فطری قابلیت کی بنیاد پر کسی بھی شعبے میں تھوڑی سی مہارت پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اُن سے بات کیجیے تو ایسا لگتا ہے کہ متعلقہ شعبے میں دنیا کا سب بڑا ماہر آپ سے مخاطب ہے۔ ایسے لوگ اپنی رائے کے مقابل کسی کی کوئی بھی بات قابل اعتبار یا مستند گرداننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
جو لوگ کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی خود کو بہت کچھ سمجھتے ہوں اور دوسروں کو بھی بھی باور کرانا چاہتے ہوں کہ بھری دنیا میں اُن کا کوئی ثانی نہیں وہ مجمع کے محتاج ہوتے ہیں۔ اُنہیں قدم قدم پر سامع درکار ہوتے ہیں تاکہ اپنی مہارت اور لیاقت کی داستانیں اُن کے گوش گزار کرسکیں۔ سوشل میڈیا نے یہ ضرورت ایک خاص حد تک پوری کردی ہے۔ جنہیں اپنے بارے میں کچھ بیان کرنا ہوتا ہے وہ سوشل میڈیا پر متن، آڈیو یا وڈیو کے ذریعے بہت کچھ اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں۔ مگر خیر، سوشل میڈیا کیسا ہی با اثر سہی اُس میں وہ بات تو پیدا نہیں ہوسکتی جو لوگوں سے بلا واسطہ رابطے میں ہے۔ انسان کو انسان کی ضرورت کی سے کوئی بھی سہولت بے نیاز نہیں کرسکتی۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو کراچی بھر میں رات بھر آباد رہنے والے کوئٹہ پشین ہوٹلوں پر ایک اُچٹتی سی نظر ڈالیے۔
کراچی ہو یا کوئی اور بڑا شہر، اِس وقت پوری قوم بالعموم اور نئی نسل بالخصوص بزم آرائی کی صلیب پر لٹکی ہوئی ہے۔ یہ بات بہت حیرت انگیز ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ایک طرف تو لوگ جدید ترین ٹیکنالوجی کے سمندر میں غرق ہوکر اپنوں سے کٹ کر رہ گئے ہیں اور دوسری طرف انہیں دوسروں کے ساتھ مل بیٹھنے سے غیر معمولی راحت ملتی ہے۔ لوگ اپنے رشتہ داروں سے مہینوں، بلکہ برسوں نہیں ملتے۔ ایس ایم ایس پر گزارے کو بہترین طریق سمجھ لیا گیا ہے مگر بزم آرائی کا جادو سَر چڑھ کر بولتا رہتا ہے۔ کراچی کی حد تک تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تقریباً ہر علاقے میں لوگ مل بیٹھنے کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں اور اس کے لیے ہوٹل سے اچھی جگہ کوئی نظر نہیں آتی۔
مل بیٹھنا بہت اچھی بات ہے۔ دل میں جو کچھ ہو وہ دوسروں کے گوش گزار کرنے سے انسان خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے۔ دل کا بوجھ اتار پھینکنا ہر انسان کا مسئلہ ہے۔ مگر ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ دل کے بوجھ میں اضافہ ہونے ہی کیوں دیا جائے؟ اتنا سوچا ہی کیوں جائے جس کا بیان کرنا ناگزیر ہو؟ ہر وقت کسی نہ کسی معاملے پر غیر ضروری ڈھنگ سے سوچتے رہنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ لوگ بھرے رہتے ہیں اور پھر ایسے ''چاہنے والوں‘‘ کو ڈھونڈتے ہیں جو اُن کی بات توجہ سے سُنیں اور متفق بھی ہوں۔
ہم عجیب دو راہے پر کھڑے ہیں۔ ایک طرف عمل ہے اور دوسری طرف بے عملی۔ ایک طرف فکر و تدبر ہے اور دوسری طرف بے تدبیری۔ قوم کی حیثیت سے آگے بڑھنے کے لیے لازم ہے کہ ہم سوچنے کا ہنر بھی سیکھیں اور عمل پسند رویہ بھی اپنائیں۔ اکیسویں صدی میں ہمیں بہت کچھ اپنانا ہے اور بہت کچھ ترک بھی کرنا ہے۔ مگر کیا ہم واقعی ایسا کر رہے ہیں؟ کر تو رہے ہیں مگر جو ترک کرنا ہے وہ ترک نہیں کر رہے اور جو کسی صورت اپنانا نہیں چاہیے وہی اپنائے ہوئے ہیں! یہ ہے بنیادی مسئلہ۔
دنیا بھر میں لوگ وقت کے حوالے سے انتہائی حسّاس ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وقت ہی حقیقی دولت ہے۔ روئے زمین پر ہر انسان کو وقت کی ایک خاص مقدار میسر ہوتی ہے۔ کوئی بھی دوسری چیز بہت آسانی سے ضائع کی جاسکتی ہے مگر وقت کو ضائع کرنے کا کوئی بھی شخص متحمل نہیں ہوسکتا۔ مگر کوئی دیکھے کہ ہم یہی کام کیسی ''آسانی‘‘ اور ''خوش دِلی‘‘ سے کیے جارہے ہیں! قوم نے طے کرلیا ہے کہ وقت کو آسانی اور سہولت سے ضائع کرنے کے جتنے بھی ''معروف و مقبول‘‘ طریقے ہیں اُنہیں بھرپور دل جمعی سے بروئے کار لانا ہے اور اِس راہ پر بڑھتے ہی چلے جانا ہے؟
مل بیٹھنے کا رجحان پنپتے پنپتے اب ایک خطرناک ذہنی مرض کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ لوگ رات رات بھر ہوٹلوں پر بیٹھے بتیاتے رہنے کے ایسے عادی ہوگئے ہیں کہ ایسا کیے بغیر دل کو سکون نہیں ملتا۔ کھلا تضاد یہ ہے کہ ایک طرف تو ملنے جلنے سے الرجی ہے اور دوسری طرف رات رات بھر گپ شپ لگائے بغیر دل کو قرار نہیں آتا! یعنی اگر ملنا جلنا بھی ہے تو اِس طور کہ زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی رونما ہونے کی گنجائش پیدا نہ ہو! جو وقت محفل بازی میں کھپایا جارہا ہے وہی وقت مزید پڑھنے، لیاقت پیدا کرنے اور مہارت حاصل کرنے میں بھی کھپایا جاسکتا ہے اور کھپایا جانا چاہیے۔
لوگ بزم آرائی اِس طور کرتے ہیں گویا اُنہیں قدرت کی طرف سے عنایت کیا جانے والا وقت دوسروں سے زیادہ ہو یعنی اُن کا دن تیس یا چھتیس گھنٹے کا ہو۔ ظاہر ہے، ایسا تو کسی طور نہیں ہوسکتا۔ پھر اِن محفل بازوں کو کس طور باور کرایا جائے کہ ہوٹلوں اور تھڑوں پر راتیں ضائع نہیں ہو رہیں، زندگی ضائع ہو رہی ہے؟ ہمیں سوچنے کا ہنر بھی چاہیے اور عمل کی توفیق بھی۔ افسوس صد افسوس کہ اِس کی کوئی سبیل دکھائی نہیں دے رہی۔ پاکستانی معاشرہ کئی معاملات میں اوروں سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ ایسے میں وقت مزید ضائع کرنے کی کوئی گنجائش ہے ہی نہیں۔ لازم ہے کہ قوم کسی ٹھوس جواز کے بغیر بزم آرائی کی صلیب پر لٹکتی نہ رہے، نیچے اُتر آئے اور حقیقت پسندی کی دنیا میں قدم رکھے۔ وقت ضائع کرنے کے ہر طریقے کو بہت دور سے رخصتی سلام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات ہم جس قدر جلد سمجھ جائیں اُتنا ہی ہمارے حق میں اچھا ہے۔