"MIK" (space) message & send to 7575

لمحۂ موجود کو اپنائیے!

اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ آپ کتنے زمانوں میں زندگی بسر کرتے ہیں تو شاید آپ حیرت سے اُس کا منہ تکنے لگیں گے۔ آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور اُبھرے گا کہ سوال کرنے والے کو اِتنا بھی معلوم نہیں کہ ہر اِنسان ایک ہی زمانے میں زندگی بسر کرتا ہے یعنی وہ زمانہ جس میں وہ پیدا ہوتا ہے۔ آپ کی سوچ بھی غلط نہیں مگر سوال یہ ہے کہ ہم یہ بات کس طور پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک ہی زمانے میں زندہ رہتے ہیں؟ ہم میں سے کون ہے جو ماضی اور مستقبل میں آنے جانے کی عادت نہیں رکھتا؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم عام طور پر یا تو ماضی میں رہتے ہیں یا پھر مستقبل میں۔ جسے ہم حال یا موجودہ زمانہ کہتے ہیں وہ تو آتا ہے اور آتے ہی ختم بھی ہو جاتا ہے۔ یہ ایک لمحہ جو ابھی ہے اور ابھی نہیں، ہمارے لیے مستقل مسکن نہیں بن سکتا۔ تو پھر کیا کیا جائے؟ انسان ماضی میں رہے یا مستقبل میں؟ ہمارے کے لیے ماضی مفید ہے نہ مستقبل۔ جو کچھ ہے وہ لمحۂ موجود ہے۔ ہمیں ماضی کے راگ الاپنے اور مستقبل کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرنے کے بجائے موجودہ لمحے میں پورے ہوش اور حواس کے ساتھ جینا چاہیے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم فکری اور عملی اعتبار سے معیاری زندگی کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ 
گزرے ہوئے زمانے ہمارے لیے ہر اعتبار سے ناکارہ تو خیر نہیں ہوتے۔ ہم تک جو علمی اور فکری خزانہ پہنچا ہے وہ ماضی ہی کا ہے۔ مختلف ادوار کی دانش ہم تک کتب کے ذریعے پہنچی ہے۔ اس اعتبار سے ہم اپنی فکری اور روحانی بالیدگی کے لیے ماضی ہی کے احسان مند ہیں۔ ماضی کی دانش سے مستفید ہونا اور زندگی کی معنویت میں اضافہ کرنا یقیناً اچھی بات ہے اور ہم مختلف ادوار کے بارے میں کتب کے ذریعے بہت کچھ جان پاتے ہیں۔ یہاں تک تو ماضی سے مستفید ہونا بہتر اور لازم ہے۔ ماضی اگر مستقبل کی تیاری کے لیے استعمال ہو تو کوئی پریشانی کی بات نہیں مگر جب لوگ ماضی ہی میں رہنا شروع کر دیتے ہیں تو اُن کے لیے حقیقی مشکلات کا آغاز ہوتا ہے۔ ماضی میں گم رہنا انسان کو موجودہ زمانے سے دور کرتا ہے۔ یہ ماضی پرستی ہی ہمارے بیشتر مسائل کی جڑ ہے۔
ماضی کی طرح مستقبل میں جینا بھی لاحاصل اور خطرناک ہے۔ ماضی میں رہنا تو پھر بھی کسی حد تک قرینِ عقل ہے کہ یہ زمانہ بہرحال ہم نے دیکھا ہے یا نہیں بھی دیکھا تو گزرا ضرور ہے۔ مستقبل میں رہنا زیادہ بڑا نفسی عارضہ ہے۔ جو زمانہ ابھی آیا ہی نہیں ہم اُس میں کس طور رہ سکتے ہیں؟ مگر صاحب، بہت سوں کو مستقبل کے حوالے قیاس کے گھوڑے دوڑانے ہی سے سکون نہیں ملتا، وہ اُس زمانے میں باضابطہ رہنا شروع کر دیتے ہیں جو ابھی آیا ہی نہیں۔ بہت سے لوگ خوش فہمیوں یا غلط فہمیوں کے زندان میں مقید رہتے ہیں۔ 
ماضی کا رونا روتے رہنا اور فکر و عمل کی دنیا میں ٹھوس بنیاد پر کچھ کرنے کے بجائے مستقبل کے بارے میں غیر ضروری طور پر پُرامید رہنا شدید الجھنوں کے پنپنے کا باعث بنتا ہے۔ ہم میں سے بہتوں کی پسندیدہ روش یہ ہے کہ ماضی کا رونا رویا جائے اور مستقبل کے بارے میں خوش فہمیاں پروان چڑھائی جائیں۔ 
ہر حال میں بہترین آپشن یہ ہے کہ ہم موجود لمحے سے مستفید ہوں، اُس میں جینے کی کوشش کریں اور ماضی یا مستقبل کو ایک خاص حد تک ہی رہنے دیں۔ جب ہم ماضی یا مستقبل کے بجائے حال میں زندگی بسر کرتے ہیں تو ہماری سوچ بھی تبدیل ہوتی ہے اور ہم محض غلط فہمی یا خوش فہمی کا شکار ہوتے رہنے کے بجائے حقیقی فکری توانائی کے ساتھ جینا شروع کرتے ہیں۔ دنیا میں وہی لوگ کچھ کر پاتے ہیں، کسی مقام تک پہنچتے ہیں جو ماضی یا مستقبل کو بالائے طاق رکھ کر موجودہ لمحات سے کماحقہٗ محظوظ و مستفید ہوتے ہیں۔ موجودہ لمحات میں موجود رہنے سے انسان زمانے سے مطابقت پیدا کرتا ہے اور ماحول سے اچھی طرح ہم آہنگ ہونے میں کامیاب ہو پاتا ہے۔ زندگی کو زیادہ بامعنی اور بامقصد بنانے کے کامیاب ترین نُسخوں میں یہ روش نمایاں طور پر اہم ہے۔ 
شخصی ارتقا اور نفسیات کے ماہرین نے عمیق تحقیق کی روشنی میں یہ درس دیا ہے کہ انسان کو گزرے ہوئے زمانے میں زندگی بسر کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور آنے والے زمانے کے بارے میں خیالی پلاؤ پکانے سے بھی اجتناب برتنا چاہیے۔ وقت کے معاملے میں ہر اعتبار سے جامع روش یہی ہے کہ موجودہ زمانے میں جیا جائے تاکہ ذہن میں ابھرنے والے خیالات اور منصوبوں میں ہم آہنگی پیدا ہو اور ہم حالات و واقعات کے تقاضوں کی روشنی میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔
اپنی حالت کو نظر انداز کرکے ماضی یا مستقبل میں گم رہنے والے اِس لیے پریشانی سے دوچار رہتے ہیں کہ وہ اپنے معاملات کو درست کرنے، صلاحیتوں میں اضافہ کرنے، مہارت بڑھانے، کریئر کے حوالے سے بہتر امکانات تلاش کرنے، خوش حالی لانے والے عوامل کو شناخت کرنے، عمل کی دنیا میں بہتر انداز سے اپنا آپ منوانے اور کارکردگی کا معیار بلند کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
مستقبل کے بارے میں سوچنا اور منصوبے تیار کرنا ہمارے لیے ناگزیر ہے۔ اگر ہم کسی واضح منصوبہ بندی کے بغیر زندگی بسر کریں تو مستقبل کو محفوظ اور تابناک بنانے میں بہت سی الجھنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر کامیاب انسان مستقبل کے بارے میں مثبت رویے کا حامل دکھائی دیتا ہے۔ اپنے وسائل اور صلاحیت کی روشنی میں مستقبل کی منصوبہ بندی دانش مندی کی علامت ہے۔ زندگی ہم سے ہر معاملے میں توازن اور دانش کا تقاضا کرتی ہے۔ اگر ہم کریئر اور عمومی زندگی کے بارے میں واضح منصوبہ بندی نہ کریں تو کامیابی میں تاخیر بھی ہو سکتی ہے اور کوئی نہ کوئی بڑی کمی بھی رہ جاتی ہے۔ مگر ان تمام باتوں کا مستقبل کے حوالے سے محض خوش فہمیوں میں غرق رہنے اور خیالی پلاؤ پکاتے رہنے سے کوئی تعلق نہیں۔ مستقبل کے بارے میں کوئی واضح سوچ نہ رکھنا اور محض خوش فہمیوں میں مبتلا رہنا انسان کو ایک لَت کی طرح اپنے شکنجے میں کَس لیتا ہے۔ یہی چیز رفتہ رفتہ ذہنی ساخت کا حصہ بن کر پورے وجود پر حاوی اور متصرف ہو جاتی ہے۔ اپنی زندگی میں توازن برقرار رکھنے کے لیے آپ کو بہت محتاط ہوکر اپنا وجود موجود لمحات کی آغوش میں رکھنا پڑے گا۔ اِسی طور آپ زمانے کا ساتھ دے سکیں گے۔ جو گزر چکا ہے اُس پر جلنا، کڑھنا بے معنی اور لاحاصل ہے۔ اور جو زمانہ ابھی آیا ہی نہیں اُس کے بارے میں خوش فہمیاں پالنے کا فائدہ ہی کیا ہے؟ زمانے کا انتخاب آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اِس وقت آپ ماضی میں ہیں نہ مستقبل میں۔ بس اِسی حقیقت پر غور کرنا اور سجھنا ہے۔
زندگی فرد کی ہو یا معاشرے کی، لمحۂ موجود میں ہو تو کارگر ثابت ہوتی ہے۔ انسان اپنی صلاحیتوں کو اُسی وقت بروئے کار لا پاتا ہے جب وہ ماضی کے بارے میں سوچ کر کڑھنے اور مستقبل کے بارے میں قیاس کے گھوڑے دوڑاکر خوش فہمیوں میں مبتلا ہونے سے اجتناب برتے۔ ہر اُس قوم نے بے مثال ترقی کی ہے جس نے زمانۂ موجود کے تقاضوں کو نبھایا ہے یعنی پچھلے یا اگلے زمانے کے بارے میں سوچ کر نفسی الجھنیں پیدا کرنے پر زمانۂ موجود میں جینے کو ترجیح دی ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں