ایسا لگتا ہے دنیا بھر میں صرف تین معاملات پر تحقیق کی جارہی ہے۔ شادی بیاہ، کھانا پینا اور سونا جاگنا۔ دنیا بھر کے ماہرین ان تین موضوعات پر یوں پِل پڑے ہیں کہ دم بھی نہیں لے رہے۔ تینوں موضوعات پر اِتنی تحقیق ہوچکی ہے کہ اگر کوئی اِس سمندر میں غوطہ لگائے تو پھر اُبھر نہ پائے۔
ہمیں صحافت سے وابستہ ہوئے تین عشروں سے زائد مدت ہوچکی ہے۔ اس دوران ہم نے، پیشہ ورانہ ضرورت کے تحت، تحقیق کے ڈھیر بھی کھنگالے ہیں اور بیشتر اوقات مایوس ہوئے ہیں۔ بہت سے معاملات میں تحقیق ہمیں آئینہ دکھاتی ہوئی محسوس ہوئی ہے۔ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ جب سے ہم نے کھانے پینے میں زیادہ دلچسپی لینا شروع کیا ہے تب سے ماہرین کھانے پینے کے حوالے سے انتہائی ڈراؤنی قسم کی تحقیق میں مشغول ہوئے ہیں۔ ہم جو کچھ بھی کھانا چاہتے ہیں یا کھاتے ہیں اُس کے بارے میں جلد یا بدیر تحقیق سامنے آجاتی ہے جو نتائج سے خوفزدہ کرنے والی ہوتی ہے۔ فرق زاویۂ نگاہ کا ہے۔ ہم جسے خوش خوراکی تصور کرتے ہیں اُسے ماہرین ''پیٹو پن‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ہم جب بھی کوئی چیز شوق سے کھاتے ہیں اُس کے مُضر اثرات کے بارے میں کوئی نہ کوئی انتباہ کھٹ سے سامنے آ جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ خوش خوراک گردانے جانے والے دیگر افراد کا بھی یہی معاملہ ہو مگر خیر، ہم تو اپنی کہیں گے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ کھانے پینے سے متعلق تحقیق کا بنیادی مقصد ہمیں اپنی پسند کا اور زیادہ کھانے سے روکنا ہے!
کھانے پینے کے معاملات سے ذرا توجہ ہٹائیے تو دیگر معمولات کی باری آ جاتی ہے۔ ماہرین زندگی کے ہر معمول، ہر پہلو کے بارے میں زیادہ سے زیادہ تحقیق کرکے کچھ ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ لوگ سانس لیتے ہوئے بھی سوچا کریں کہ کہیں اِس سے کوئی نقصان تو نہیں پہنچے گا۔ جب کام کے ہر معاملے اور پہلو پر تحقیق کی جاچکی ہو تو پھر تحقیق کے ہتھوڑے سے کچلے جانے کے لیے غیر ضروری موضوعات ہی کے سَر رہ جاتے ہیں!
اب نیند ہی کی مثال لیجیے۔ ماہرین نے نیند کے بارے میں اس قدر دادِ تحقیق دی ہے کہ اِس تحقیق کے بارے میں صرف سوچنے ہی سے نیند آنے لگتی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ کم سونا خطرناک ہے۔ کبھی ارشاد ہوتا ہے کہ زیادہ سونا انتہائی نقصان دہ ہے۔ یہ بات کوئی نہیں بتاتا کہ کتنی نیند کم کہلائے گی اور کتنی نیند کو زیادہ کہا جائے گا۔
معروف جریدے ''کرومو بایولوجی‘‘ میں جدید ترین تحقیق شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ دیر سے جاگنے والوں کی جلد موت کا امکان قوی تر ہو جاتا ہے۔ 4 لاکھ 33 ہزار افراد کے معمولات کا جائزہ لے کر اخذ کیے جانے والے نتائج کے مطابق رات کو دیر سے سونے اور پھر دیر سے جاگنے والوں کے مرنے کا امکان 10 فیصد بڑھ جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دیر سے جاگنے والے کئی جسمانی اور ذہنی عوارض میں زیادہ آسانی سے مبتلا ہو جاتے ہیں۔
دیر سے سونے اور دیر سے جاگنے والے جلدی مر جاتے ہیں یا نہیں یہ تو ہم نہیں جانتے کیونکہ ایسے معاملات پر غور کرنے کی زحمت گوارا کرنے کے بجائے ہم تو محض جیے جارہے ہیں! دیر سے سونے اور دیر سے جاگنے والوں میں جسمانی بیماریوں کے پنپنے والی بات بھی کچھ زیادہ پریشان کن نہیں کیونکہ ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں
زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ رات دیر تک جاگنے اور دن میں دیر سے بیدار ہونے والوں کے ذہنی عوارض میں مبتلا ہونے کی بات کی گئی ہے۔ یہ تو ہمیں براہِ راست نشانے پر لینے والی بات ہوئی! ہم ''عامل‘‘ صحافی ہیں یعنی زندگی بھر نائٹ ڈیسک پر کام کیا ہے۔ رپورٹرز اور سب ایڈیٹرز کو عامل صحافی ویسے تو عملی معنوں میں کہا جاتا ہے مگر یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ زندگی بھر نائٹ ڈیسک پر کام کرنے والے سب ایڈیٹرز حلیے کے اعتبار سے ''عامل‘‘ ہی دکھائی دینے لگتے ہیں! لفظ ''عامل‘‘ سنتے یا پڑھتے ہی ذہن میں شعبدہ باز قسم کے لوگ جھلکنے لگتے ہیں۔ ایسے میں ''عامل صحافی‘‘ اُنہی کو کہا جانا چاہیے جو نامعلوم عملیات کی مدد سے اور الٹے سیدھے تمام تعلقات بروئے کار لاتے ہوئے راتوں رات کہیں سے کہیں جا پہنچتے ہیں اور سڑکیں ناپنے کا عمل ترک کرکے بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے پھرتے ہیں!
یہ تو ہوئے عامل صحافیوں کے حوالے سے جملہ ہائے معترضہ۔ بات ہو رہی ہے نیند کی کمی سے لاحق ہونے والے ذہنی عوارض کی۔ ہم نے عرض کیا کہ صحافت میں ہماری زندگی مرکزی نیوز ڈیسک یعنی نائٹ ڈیسک پر گزری ہے۔ رات ساڑھے تین اور چار کے درمیان گھر واپس پہنچنا نصیب ہوتا ہے۔ اگر ماہرین کی بات اگر درست مان لی جائے تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم ذہنی عوارض میں مبتلا ہیں۔
مرزا تنقید بیگ جیسے ''بہی خواہ‘‘ اِسی نوعیت کی تحقیق کی تلاش میں رہتے ہیں۔ جیسے ہی موقع ملتا ہے وہ ہماری گُدّی ناپنے کی کوشش کرتے ہیں! جب کبھی کھانے پینے اور سونے جاگنے کے معاملات سے متعلق کوئی تحقیق منظر عام پر آتی ہے مرزا بھی گوشہ نشینی ترک کرکے فوراً منظر عام پر آ جاتے ہیں اور ہمارے لَتّے لینے لگتے ہیں۔ نیند کی کمی سے ذہنی عوارض کے واقع ہونے کی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مرزا یہ کہنے میں ذرا بھی باک محسوس نہیں کرتے کہ صحافت کے کوچے کی رونقیں ذہنی عوارض میں مبتلا افراد کے دم قدم سے ہیں! مرزا کی دریدہ دہنی کی انتہا یہ ہے کہ وہ ہماری کالم نگاری کو بھی ذہنی عوارض کا نتیجہ قرار دینے میں خفیف سی بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے! مرزا کا ذاتی ''نظریہ‘‘ یہ ہے کہ کوئی بھی صحیح الدماغ انسان کالم نہیں لکھ سکتا۔ اور جب لوگ مثال طلب کرتے ہیں تو وہ ''دوستی‘‘ کا ''حق‘‘ ادا کرتے ہوئے ہمارے چند کالم پیش کردیتے ہیں!
ہماری ذاتی رائے یہ ہے کہ محققین کی ''محنت‘‘ کے نتائج سے استفادہ کرتے ہوئے کسی کے بارے میں کوئی بھی رائے دے بیٹھنا بجائے خود ایک انتہائی پیچیدہ ذہنی مرض ہے۔ اور اِس سے بھی بڑا پیچیدہ مرض ہے سوچے سمجھے بغیر کسی بھی موضوع پر دادِ تحقیق دینا۔ ان ماہرین اور محققین کو تو خدا ہی سمجھے جو لوگوں کی مجبوریوں کا احساس کیے بغیر اُن کے معمولات کے بارے میں نئے نئے زاویوں سے تحقیق کرکے اُن کی مشکلات مزید بڑھاتے ہیں۔ اِس دنیا کو جس قدر نقصان جہالت نے پہنچایا ہے اُتنا ہی یا اُس سے بھی زیادہ نقصان سوچے سمجھے بغیر کی جانے والی تحقیق نے پہنچایا ہے۔ لوگ انٹ شنٹ تحقیق کے نتائج کے پڑھتے ہیں، الجھتے ہیں اور دوسروں کے بارے میں سو طرح کی بدگمانیاں پالنے لگتے ہیں۔ اور کوئی انہیں راہِ راست پر لانے کی کوشش کرے تو ماہرین کسی اور زاویے سے تحقیق فرماکر معاملات کو مزید الجھائے رکھنے کا اہتمام کرنے لگتے ہیں! تحقیق نہ ہوئی شیطان کی آنت ہوئی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔