"MIK" (space) message & send to 7575

پانی پانی کرگیا پانی ہمیں

پانی کا بحران ایسا ہے کہ خون کا پانی ہوا جاتا ہے۔ جب ہم دریاؤں میں پانی سُوکھ جانے کا سنتے ہیں‘ تو رگوں میں خون خشک ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ایمان کی تو یہ ہے کہ ایک پانی نے ہمیں پچھاڑ دیا ہے۔ طرفہ تماشا ہے کہ جو چیز اللہ نے خوب فیاضی سے نوازی ہے ‘اُسی کے لیے ہم ترس رہے ہیں۔ ملک بھر میں پینے کی پانی کی شدید قلت نے ایسی خطرناک شکل اختیار کی ہے کہ اب تو اس بحران کے ذکر ہی سے بیک وقت دہشت اور وحشت سی ہونے لگتی ہے۔ 
ڈرانے والے ڈرا رہے ہیں کہ پانی پر جنگ کا زمانہ آچکا ہے۔ کئی ممالک کے درمیان پانی کا تنازع خطرناک اختیار کرتا جارہا ہے۔ ہمارا اور بھارت کا یہی معاملہ ہے۔ پاکستان کے حصے کا پانی چرانے سے بھارت باز نہیں آرہا۔ معاملات اتنی تیزی سے بگڑ رہے ہیں کہ کوئی بھی غیر جانب دار مبصر بہت آسانی سے یہ کہہ سکتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان پانی کے معاملے پر جنگ ہوکر رہے گی۔ بھارت کبھی پانی بند کرکے خرابیاں پھیلاتا ہے اور کبھی کھول کر۔ خشک سالی بھی مارتی ہے اور سیلاب بھی۔ 
یہ تو ہوا بیرونی معاملہ‘ اب ذرا اندرونی صورتِ حال پر بھی نظر دوڑائی جائے۔ ملک کے طول و عرض میں ''العطش العطش‘‘ کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ کئی بڑے علاقے پانی کی شدید کمی سے دوچار ہیں۔ تھر کا علاقہ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ کنویں اور تالاب سوکھ جانے سے لوگوں کے لیے پانی کا حصول انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ ویسے پورے سندھ ہی میں پانی کا معاملہ پریشان کن ہوچلا ہے۔ ملک کے بالائی علاقوں میں شدید گرمی کے دوران پانی کی قلت قیامت ڈھا رہی ہے۔ 
کراچی کا یہ حال ہے کہ بہت سے علاقوں کو پانی دینے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی جارہی۔ کراچی میں بلدیہ ٹاؤن کا علاقہ ''سانحۂ بلدیہ‘‘ کے حوالے سے معروف ہے۔ اس علاقے کی ایک شہرت یہ بھی ہے کہ یہاں بارہ پندرہ دن میں ایک بار اور وہ بھی محض ایک ڈیڑھ گھنٹے کے لیے پانی دیا جاتا ہے۔ شہر کے چند دوسرے علاقوں کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ خدا کی بستی اور دوسرے بہت سے پس ماندہ علاقوں کے مکین ٹینکرز کے ذریعے پانی خریدنے پر مجبور ہیں اور یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ 
کراچی میں پانی کی قلت نے ایک زمانے سے قیامت ڈھائی ہوئی ہے۔ ٹینکر مافیا کسی زمانے میں بہت فعال تھی اور شہریوں کا خون چُوس رہی تھی۔ اب معاملات کچھ بہتر ہوئے ہیں۔ اپارٹمنٹس والے علاقوں میں اب بھی پانی بہت حساب کتاب سے دیا جاتا ہے۔ بعض عمارتوں کے مکینوں کو تین چار دن کے وقفے سے دو ڈھائی گھنٹے کے لیے پانی دیا جاتا ہے۔ اس کا حل یہ تلاش کیا گیا ہے کہ فائبر کے ٹینک خرید کر ان میں پانی ذخیرہ کرلیا جائے تاکہ چار پانچ دن تک تنگی محسوس نہ ہو۔ یہ طریقہ بھی بُرا نہیں۔ کراچی کو پانی آبادی کے مطابق ہی ملتا ہے۔ مسئلہ پانی کی قلت سے کہیں زیادہ اس کی تقسیم و ترسیل کا ہے۔ کچی آبادیوں میں پانی چرانا بالکل عام بات ہے۔ لائن توڑ کر اور غیر قانونی کنکشنز کے ذریعے پانی چرانے پر کوئی شرمندگی محسوس کرتا ہے‘ نہ خوف۔ متعلقہ اہلکار بھی ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ عام آدمی کے حصے کے پانی پر ڈاکے ڈالے جارہے ہیں۔ پانی سی بنیادی ضرورت کی شے سے کسی کو محروم رکھنا اللہ کے نزدیک کس قدر ناپسندیدہ فعل ہوسکتا ہے ‘اس کا احساس دلوں سے کب کا رخصت ہوچکا۔ 
پانی سی نعمت کو بھی کاروبار میں تبدیل کرلیا گیا ہے۔ اشتہاری کمپنیوں کی مدد سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ٹھونس دی گئی ہے کہ انہیں منزل واٹر کے سوا کچھ نہیں پینا۔ کئی کمپنیاں میدان میں ہیں۔ انہوں نے مل جل کر ''واٹر کلچر‘‘ پیدا کیا ہے۔ عام آدمی کو پینے کا صاف پانی آسانی سے میسر نہ ہو‘ اس کا بھرپور اہتمام کیا گیا ہے۔ ایسے میں وہ اپنی آمدنی کا ایک معقول حصہ پینے کے پانی پر خرچ کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں پاتا۔ 
سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے عبرت کا مقام کہیے یا شرم و مذلت کا کہ ایک بین الاقوامی نوعیت کا شہر اب تک پانی و بجلی اور ماس ٹرانزٹ جیسے مسائل ہی کو حل نہیں کر پایا ہے۔ شہر پر مافیاؤں کا قبضہ ہے‘ جو اپنی سہولت کے مطابق پہلے بحران پیدا کرتی ہیں اور پھر اُس بحران کے حل کی راہ سُجھاتی ہیں۔ پانی کا بحران بھی ایسی ہی سوچ کا نتیجہ ہے۔ پہلے شہر میں پانی کی تقسیم و ترسیل کا نظام برباد کردیا گیا۔ پانی چونکہ بنیادی ضرورت ہے‘ اس لیے لوگ اس کے بغیر رہ نہیں سکتے۔ یہی سبب ہے کہ ٹینکر مافیا دن بہ دن پنپتی گئی۔ اور اب بھی درجنوں علاقے اس مافیا کے شکنجے میں ہیں۔ بجلی کے معاملے میں بھی یہی طریق کار اپنایا گیا ہے۔ درجنوں علاقوں کو بجلی کے لیے اس قدر ترسایا گیا ہے کہ اب لوگ جنریٹر اور یو پی ایس خریدنے پر مجبور ہیں۔ 
شہر میں منتخب نمائندے بھی ہیں اور پانی کی فراہمی کا ادارہ بھی۔ کراچی واٹر بورڈ اگر صوبائی حکومت کے ماتحت ہے تو بھی کیا ہوا‘ عوام کو پانی ملنا تو چاہیے۔ تمام خرابیاں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب نیت میں خرابی پائی جاتی ہو۔ کراچی میں بنیادی سہولتوں کا نظام نیت کی خرابی ہی سے بگڑا ہے۔ جب لوگ اپنی جیبیں اور اپنے پیٹ بھرنے کو ہر معاملے پر ترجیح دینے لگیں‘ تب ہر قدر غیر متعلق سی ہوکر رہ جاتی ہے۔ اہلِ کراچی اس وقت ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہیں۔ جن کے ہاتھ میں اختیارات ہیں‘ وہ کسی کو کچھ دینے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے۔ ایک طرف تو شہر کو مِنی پاکستان قرار دیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے دعوے اور وعدے کیے جاتے ہیں اور اصلیت یہ ہے کہ لوگوں کو پانی ترک کے لیے مافیا کا محتاج بنادیا گیا ہے۔ بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولتوں کی عدم موجودگی میں کسی بہتری کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے؟ 
اہلِ کراچی انتخابات سے بھی خوفزدہ ہیں۔ ایم کیو ایم کا جو حشر ہوا ہے اور وہ جس طرح تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزری ہے‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ اب تک تو مینڈیٹ واضح طور پر سامنے آتا رہا ہے۔ اب اگر مینڈیٹ تتر بتر ہوگیا ‘ تو کیا ہوگا؟ شہر کے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ ایک طرف پانی کا بحران ہے اور دوسری طرف بجلی کا۔ ان دونوں کے درمیان ماس ٹرانزٹ سسٹم کے نہ ہونے سے پائی جانی والی قباحتیں ہیں۔ ان تینوں بحرانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی طرف اب تک توجہ نہیں دی گئی۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس حوالے سے سنجیدگی اپنائی جائے۔ اور خاص طور پر پانی کی تقسیم متوازن اور موثر بنانے پر دھیان دیا جائے۔ شہر کی آبادی بڑھتی جارہی ہے اور پانی جیسی انتہائی بنیادی ضرورت کے حوالے سے ٹھوس‘ سنجیدہ اپروچ اپنانے سے گریز کیا جارہا ہے۔ عوام نتائج چاہتے ہیں۔ بنیادی سہولتوں کے حوالے سے ٹھوس اقدامات عوام کا حق ہیں۔ اُن کی مزید حق تلفی کی گنجائش نہیں۔

٭٭٭

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں