ملک کے طول و عرض میں خشک سالی کا دور دورہ رہا ہے۔ کئی ماہ سے لوگ آسمان کی طرف دیکھتے رہنے پر مجبور ہیں۔ اللہ کی رحمت کا انتظار ہے۔ مون سون وارد ہوچکا ہے۔ بارش کا موسم ہو تو امید کی لَو اور تیز ہو جاتی ہے‘ جہاں جہاں بارانی زمینیں ہیں ‘وہاں تو لوگ اللہ کی رحمت کے آسرے ہی پر کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ کھیتوں کو پانی دینے کا اور کوئی طریقہ اُن کے پاس نہیں۔
مون سون کی ابتداء دو ہفتے قبل ہوچکی ہے‘ مگر اس نے رواں موسم میں اپنا جلوہ بھرپور انداز سے پہلی بار لاہور میں دکھایا ہے۔ اور جلوہ کیا دکھایا‘ جاذبؔ قریشی کا شعر یاد دلادیا ؎
کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں
تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو
چند گھنٹوں کی بارش نے لاہور کا جو حشر کیا ہے‘ اُسے دیکھ کر وطن کے باقی علاقوں کے لوگ تو لرز کر رہ گئے ہیں۔ بارش اللہ کی رحمت کا مظہر ہے‘ مگر یہ ستم ظریف محض پریشانی سے دوچار نہیں کرتی‘ بلکہ حکومتوں کی کارکردگی کا پول کھولنے پر بھی تُل جاتی ہے۔ لاہور میں ایسا ہی ہوا ہے۔ سڑک پر پڑنے والا دیو ہیکل اور ہیبت ناک گڑھا بہت سی کہانیاں سنا رہا ہے۔ میاں شہباز شریف نے کہتے ہوئے جان چھڑانے کی کوشش کی ہے کہ نگراں حکومت اور متعلقہ محکموں سے باز پرس کی جائے کہ انہوں نے متوقع بارش کے حوالے سے خاطر خواہ انتظامات کیوں نہ کیے؟ ٹھیک ہے‘ ان سے بھی باز پرس کی جانی چاہیے‘ مگر سڑک کا یوں بیٹھ جانا‘ رین ایمرجنسی سے متعلق کسی محکمے کا معاملہ تو نہیں۔ جہاں سے نکاسیٔ آب کی بڑی پائپ لائن گزر رہی ہو‘ وہاں خاطر خواہ بنیادی ڈھانچہ تیار کیے بغیر ایک بڑی سڑک تعمیر کرنا ‘کہاں کی دانش مندی تھی؟ یہ کام تو بہت پہلے‘ سابق دورِ حکومت میں انجام تک پہنچا تھا۔ پھر کیوں نہ اُن کا احتساب کیا جائے‘ جو تب معاملات کے نگراں تھے‘ جن کے ہاتھ میں تمام اختیارات تھے؟
سندھ میں تھر کا علاقہ شدید خشک سالی سے نبرد آزما رہا ہے۔ باقی سندھ کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ کراچی کے باشندے محکمۂ موسمیات کی پیش گوئیوں سے راحت ِجاں سی پاکر دن میں دس بار آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور پھر قدرے نومید ہوکر سر اور گردن جھکالیتے ہیں۔ بارش کے نہ ہونے سے مایوسی تو ہوتی ہے۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے‘ مگر کیا کیجیے کہ ہم انسان ہیں اور انسان ایسا ہی واقع ہوا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر گھبرا جاتا ہے‘ عجلت کا شکار ہو جاتا ہے‘ بے طور سے کام کر بیٹھتا ہے اور پھر نتائج بھگتتے وقت سارے الزام تقدیر کے سر منڈھ دیتا ہے۔
اہلِ کراچی بارش کے نہ ہونے سے شدید مضمحل سے ہیں۔ ماہِ صیام کے دوران گرمی نے خوب خبر لی تھی۔ عید الفطر آئی تو امید سی بندھی کہ اللہ کا کرم بادلوں کی معرفت برسے گا‘ زمین اور دِلوں کی پیاس بجھے گی‘ اشک شُوئی کا کچھ سامان ہوگا۔
لاہور میں جو کچھ ہوا ہے اُسے دیکھ دیکھ کر باقی اہلِ وطن کا کیا حال ہوا یہ تو ہم نہیں جانتے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم تو یہ سوچ کر ہی لرز گئے کہ اللہ کی ایسی نظر کرم ہوئی ‘تو کراچی کا کیا حال ہوگا۔ ایک مدت سے ہم سن رہے ہیں کہ لاہور بہت بدل گیا ہے‘ یعنی بدل دیا گیا ہے۔ وہاں کے بنیادی ڈھانچے کی اپ گریڈیشن کے بارے میں سو طرح کے قصے سننے کو ملتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ سڑکوں کا معیار ایسا بلند ہوا ہے‘ گویا پیرس میں گھوم رہے ہیں۔ کسی کا کہنا ہے کہ شہر کی حالت کچھ اس طرح بہتر بنائی جاچکی ہے کہ زندگی کا معیار بلند ہوگیا ہے۔ اور بھی بہت سی باتیں ہم نے سنیں‘ مگر چند گھنٹوں کی بارش نے اہلِ لاہور کا جو حال کیا‘ اُس سے اندازہ ہوگیا کہ غریبوں کی قسمت میں رونا ہی رونا ہے۔ حالات اگر محض چند اقدامات سے بہتر ہوسکتے یا بدل سکتے‘ تو بات ہی کیا تھی۔ معاملات وعدوں اور دعوؤں کی منزل میں رہتے ہیں‘ اور پرنالے وہیں گرتے رہتے ہیں ‘جہاں گرتے آئے ہیں۔
لاہور پر ترقیاتی فنڈز کس حد تک لگائے گئے یہ تو اعداد و شمار پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار ہی بتاسکیں گے۔ ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ بہت کچھ خرچ کرکے بھی عوام کو ایسا کچھ نہیں دیا جاسکا ‘جس کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ اُن کی زندگی کا معیار بلند ہوگیا ہے‘ کمانا کھانا اور جینا آسان ہوگیا ہے۔ سوال سڑکیں اور پُل تعمیر کرنے سے کہیں زیادہ عوام کو بہتر زندگی کی بنیاد فراہم کرنے کا ہے۔ خیر‘ یہ ایک طویل بحث ہے اس لیے پھر کبھی سہی۔ قصہ مختصر‘ اہل لاہور کو جو کچھ ملنا چاہیے تھا‘ وہ مل نہیں سکا۔ سوال شہر کا حلیہ بدلنے سے کہیں زیادہ اُن کے لیے زندگی کے اعلیٰ معیار کی بنیاد مضبوط بنانے کا ہے اور اس کے لیے لازم ہے کہ صرف روزگار نہیں‘ بلکہ بہتر روزگار کے مواقع بہتر اور وافر بنائے جائیں‘ مگر یہ تو بہت دور کی بات ہے‘ بنیادی ڈھانچہ ہی اب تک مطلوبہ معیار تک اپ گریڈ نہیں کیا جاسکا ہے۔ میٹرو بس کی شکل میں عوام کو پبلک ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولت میسر ضرور ہے‘ مگر یہ سہولت پورے شہر کو تو میسر نہیں۔ لاہور میں کام پر جانے کے لیے لوگوں کو اب بھی کراچی جیسے شہر کے مقابلے میں کہیں زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ یہی حال دوسرے بہت سے معاملات کا ہے ‘جبکہ اجرتوں کا گراف خاطر خواہ حد تک بلند نہیں کیا جاسکا۔
بات شروع ہوئی تھی‘ ایک رات کی بارش کے ہاتھوں واقع ہونے والی تباہ کاری سے۔ کراچی کا بنیادی ڈھانچہ بھی کچھ اس نوعیت کا ہے کہ بقولِ غالبؔ ع
ہرچند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے!
جتنی بارش لاہور میں ہوئی ہے اگر اُتنی کراچی میں ہو جائے‘ تو شہریوں کو تفریح کے لیے ساحل تک جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ کبھی کبھی قدرت مہربان ہوتی ہے‘ تو چند گھنٹوں کی معمولی بارش شہر کی سڑکوں کو تالاب میں تبدیل کرکے دم لیتی ہے۔ حوصلے بیٹھ جاتے ہیں ‘مگر پانی کئی دن کھڑا رہتا ہے۔ شہر کے انتظامی اداروں نے طے کر رکھا ہے کہ معاملات اللہ کے کرم پر چھوڑے جاتے رہیں گے۔ جگہ جگہ کھڑے ہو جانے والے بارش کے پانی سے شہریوں کو نجات دلانے کے بارے میں سوچنے کی بجائے یہ دیکھا جاتا ہے کہ سورج میں کتنا دم ہے! اب سورج جتنے دنوں میں بارش کے کھڑے پانی کو سکھاتا ہے‘ اُتنی دنوں میں تو لوگوں کا دم سُوکھ جاتا ہے۔ ایک زمانے سے شہری اداروں کا یہی ''اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر‘‘ رہا ہے‘ یعنی کچھ نہ کرنے ہی کو کرنے کا درجہ دے دیا گیا ہے۔
لاہور کے کیس سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ اگر ہم ''ریسیونگ اینڈ‘‘ پر تیار نہ ہوں تو اللہ کی رحمت بھی زحمت بننے میں دیر نہیں لگاتی۔ مون سون آچکا‘ مگر کراچی میں اب تک برساتی نالوں کی صفائی تک نہیں کی گئی ہے۔ ایسے میں اگر کہیں بادلوں نے چند گھنٹے جم کر برسنے کی قسم کھالی تو باشندگانِ شہر قائد منہ کی کھا جائیں گے! اہلِ لاہور تو پھر بھی زندہ اور اپنی جگہ ہیں‘ موسلادھار بارش کا ایک بڑا جھٹکا اہلِ کراچی کو ''... ملنے کے نہیں‘ نایاب ہیں ہم‘‘ کی منزل تک بھی پہنچا سکتا ہے۔ پہلے سے تیار نہ ہونے پر اللہ کی رحمت کے مظہر نے لاہور کی جو درگت بنائی ہے ‘وہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ اب یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ اس گھنٹی کی آواز اُنہوں نے سُنی ہے یا نہیں جو اہلِ کراچی پر متصرّف ہیں۔ اب تک تو یہی ہوا ہے کہ جب بھی رات کی تاریکی میں بادل برسے ہیں‘ اہلِ شہر رات بھر حسرتؔ موہانی کے اس مصرع کی بنے رہے ہیں کہ ع
اب دیکھیے کیا حال ہمارا ہو سَحر تک