ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں اس امر پر بحث کی کوشش کی تھی کہ فن کی دنیا میں کیے جانے والے دعوے بہت حد تک مبالغہ آمیز ہوتے ہیں۔ جب معاملات کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے‘ تو بہت سی ایسی باتیں بھی کھل کر سامنے آتی ہیں‘ جو ہمارے لیے کسی بھی اعتبار سے خوشگوار نہیں ہوتیں۔
ایسی کئی ''ہستیاں‘‘ ہمارے حلقۂ احباب میں رہی ہیں جن کی مبالغہ آمیز باتیں اور دعوے سن کر ہم مبہوت رہ جایا کرتے تھے۔ بہت پہلے کی بات ہے۔ ہمارے ایک دوست کے ہاں کتابیں بھری ہوئی تھیں۔ ہر کمرے میں کتابوں کے ڈھیر نظر آتے تھے۔ ایک دن کسی نے پوچھ لیا کہ کتنی کتابیں ہوں گی‘ آپ کے گھر میں۔ اُنہوں نے نہایت سادگی اور تھوڑی بہت بے نیازی سے جواب دیا ''میں نے کبھی تو شمار نہیں‘ کیونکہ پڑھنے والے شمار کا غم نہیں پالتے۔ ہوں گی یہی کوئی پندرہ بیس ہزار۔
کتابوں کے حوالے سے کچھ ایسی ہی کیفیت ہمارے گھر کی بھی تھی۔ شیلف نہیں تھا اس کتابیں جہاں تہاں رُلتی رہتی تھیں۔ ایک دن سوچا ذرا گنتی کرلیں‘ کیونکہ لوگ ہم سے بھی کہتے ہیں کہ آپ کے گھر میں تو کتابیں بھری پڑی ہیں اور گھر والے بھی بار بار معترض ہوتے ہیں کہ اُن کے لیے تو اب ڈھنگ سے سانس لینا بھی دشوار ہوگیا ہے! ہم نے سوچا دس بارہ ہزار کتابیں ‘تو ہمارے ہاں بھی ہونی ہی چاہئیں۔ تو صاحب!ہم جب گنتی کرنے بیٹھے تو گنتی مکمل ہونے پر رنج و غم کی تصویر بن کر اور اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ جگر تھام لیجیے کہ ہم گنتی کا نتیجہ‘ یعنی کتابوں کی تعداد بتانے لگتے ہیں۔ جناب‘ کل ملاکر 390 کتابیں نکلیں! ع
بہت شور سُنتے تھے پہلو میں دِل کا
یہی حال فن کی دنیا کا بھی ہے۔ لوگ بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں‘ مگر جب حساب کتاب لگائیے ‘تو معاملہ ٹائیں ٹائیں فش کی منزل پر پہنچ کر دم توڑ دیتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ فنکار کا نام تو بڑا ہوتا ہے‘ مگر کام بہت کم ہوتا ہے۔ یہاں معیار کی بات نہیں ہو رہی۔ سلیم رضا کے نام سے فن کا کون پرستار واقف نہیں۔ انہوں نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو کئی لازوال گیت دیئے۔ پرستاروں کو ایسا لگتا ہے‘ جیسے انہوں نے گانوں کے ڈھیر لگادیئے ہوں گے‘ پہاڑ کھڑے کردیئے ہوں گے۔ ایسا نہیں ہے‘ اُن کے گائے ہوئے گانوں کی تعداد بھی بہت زیادہ نہیں بنتی۔ بیشتر گیتوں کو ملنے والی غیر معمولی مقبولیت نے سلیم رضا کے بارے میں لوگوں کو پتا نہیں ‘کیا کیا سوچنے پر مجبور کیا۔
اُستاد امانت علی خاں کے فن کی بلندی کے بارے میں ہم کون ہوتے ہیں کوئی رائے دینے والے؟ اُستاد نے فن کے حوالے سے بھرپور زندگی بسر کی۔ اُن کے فن کے نمونے آج بھی زندہ ہیں۔ مقبولیت اور فن کی بلندی کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچیے تو ایسا محسوس ہوتا ہے‘ جیسے انہوں نے بھی بہت گایا ہوگا۔ اُن کے معاملے میں بھی ایسا نہیں ہے۔ اُستاد امانت علی نے خالص کلاسیکل چیزیں بھی گائی ہیں‘ غزلیں بھی‘ گیت بھی اور قومی نغمے بھی۔ ہماری معلومات کے مطابق کلاسیکل بندشیں (خیال‘ ترانہ‘ ٹھمری وغیرہ) سے ہٹ کر اُن کے گائے ہوئے ریڈیو اور ٹی وی کے آئٹمز زیادہ سے زیادہ سو اور سوا سو کے درمیان ہوں گے۔ ایک بار پھر ہمیں مقدار کو چھوڑ کر معیار دیکھنا ہوگا۔ اُستاد امانت علی کی چند غزلیں ہی دوسروں کی گائی ہوئی سیکڑوں غزلوں پر بھاری ہیں۔ غالبؔ کی غزل ''یہ نہ تھی ہماری قسمت ...‘‘ اُستاد امانت علی خاں نے اتنی اچھی گائی ہے کہ کوئی اور اُن کے قریب بھی نہیں پہنچتا۔ اُستاد امانت علی خاں نے ایک قومی نغمہ ''اے وطن تجھ کو جنت بنائیں گے ہم‘‘ کلاسیکی انگ کے ساتھ گایا ہے اور اس آئٹم میں ایسی پختگی ہے کہ جو فن کو سمجھتے ہیں‘ وہ ایک ایک لفظ پر داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
بالی وڈ میں محمد رفیع‘ لتا منگیشکر‘ مکیش‘ کشور کمار‘ طلعت محمود‘ منّا ڈے کے درمیان آئٹمز کی تعداد بیان کرنے کے حوالے سے مقابلہ رہا۔ ہمارے ہاں ملکۂ ترنم نور جہاں‘ شہنشاہِ غزل مہدی حسن‘ مجیب عالم‘ مسعود رانا‘ احمد رشدی‘ رونا لیلیٰ اور مالا فلمی گائیکی میں بڑے نام ہیں۔ نور جہاں نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے قبل بھی لاہور اور ممبئی کی فلم انڈسٹری میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ اُن کی آواز فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔ نور جہاں نے کتنے آئٹم گائے؟ یہ سوال بھی بہت اہم ہے۔ قیام پاکستان سے قبل نور جہاں نے کم و بیش 80 فلمی گیت گائے۔ پاکستان میں بھی انہوں نے اداکاری کی۔ بعد میں وہ صرف پلے بیک سنگنگ کے لیے مختص ہوکر رہ گئیں۔ لاہور کی فلم انڈسٹری میں نور جہاں کے گائے ہوئے گانے قریباً 1200 ہوں گے۔ یہ تو ہوئی تعداد کی بات۔ معیار کا معاملہ بہت الگ ہے‘ لیکن ایک حقیقت لوگ نظر انداز کردیتے ہیں۔ نور جہاں نے پاکستان کی خاطر بھارت کو اس وقت چھوڑا تھا‘ جب ممبئی کی فلم انڈسٹری میں اُن کا طوطی بولتا تھا۔ وہ ایک اشارا کرتی تھیں تو گھر کے باہر فلم میکرز کی لائن لگ جاتی تھی۔ لتا منگیشکر بھی اُن کی موجودگی میں کِھل نہیں سکی تھیں‘ جس وقت نور جہاں نے ممبئی چھوڑا ‘تب لاہور اجڑا ہوا تھا۔ جب شہر ہی ٹھکانے پر نہ تھا ‘تو فلم انڈسٹری کا کیا پوچھنا؟ سٹوڈیوز لٹ گئے تھے۔ کیمرے تھے ‘نہ لائٹس۔ ایسے میں اس بات کا امکان بھی نہ تھا کہ فلم انڈسٹری ایک عشرے تک اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے گی۔ ایسے میں نور جہاں نے اپنے کیریئر کے عروج کے چار سال پاکستان کی خاطر ضائع کیے۔ 1951ء میں ''چن وے‘‘ کے ریلیز ہونے تک نور جہاں نے کچھ نہ کیا۔ اگر وہ بالی وڈ میں ہوتیں ‘تو اس دوران اداکاری کے ساتھ ساتھ ڈھائی تین سو گانے بھی ضرور ریکارڈ کراتیں!
شہنشاہِ غزل مہدی حسن کی عظمت اس بات میں نہیں کہ اُنہوں نے پچیس ہزار آئٹم گائے یا پچاس ہزار‘ بلکہ اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ انہوں نے ابتداء میں ناکامی کے باوجود ہمت نہیں ہاری۔ 1956ء میں پہلی فلم ''شکار‘‘ کے بعد 1962ء میں ''سسرال‘‘ کے گانے ''جس نے مِرے دل کو درد دیا ...‘‘ کی کامیابی تک مہدی حسن نے 7 برس میں 9 فلمی گیت گائے! اُس دور میں سلیم رضا اور منیر حسین بے حد مقبول تھے۔ عنایت حسین بھٹی بھی کامیاب فلمی گلوکار تھے۔ ایسے میں کم ہی گیت کسی اور گلوکار کو مل پاتے تھے۔ مہدی حسن کو بھی اس مرحلے سے گزرنا پڑا‘ مگر وہ ذرا بھی مایوس نہ ہوئے اور ہمت ہارے بغیر اپنے فن کو پروان چڑھانے میں مصروف رہے۔ یہ ہوتی ہے‘ فن سے محبت اور آگے بڑھنے کی لگن۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ جب بھرپور کامیابی نصیب ہوتی ہے‘ تو اُس کی چمک دمک میں بہت کچھ اَن دیکھا رہ جاتا ہے۔ چراغ تلے اندھیرا ‘اسی کو تو کہتے ہیں۔ ہم اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں الجھ کر رہ جاتے ہیں‘ مگر کبھی فن کی عظمت کو اُس کی اصل کسوٹی پر پرکھنے اور درست ترین تناظر میں دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ فن کا تعلق مقدار سے نہیں‘ معیار سے ہے۔ اور فن کیا‘ زندگی کے ہر معاملے کا یہی تو معاملہ ہے۔ کسی بھی چیز کو اُس کی پیدا کردہ تاثیر کے تناظر میں پرکھا جائے ‘تو پرکھ کا حق ادا ہوتا ہے۔