"MIK" (space) message & send to 7575

قوم کا ’سوا مہینہ‘

ایک آفت ہے کہ ٹوٹی ہوئی ہے۔ ایک شور ہے کہ مچا ہوا ہے۔ ایک قیامت سی قیامت ہے کہ برپا ہے۔ اپنی بات کہنے کے نام پر قہر یوں ڈھایا گیا ہے کہ لوگ سمجھ نہیں پارہے کہ صورتِ حال کا کیا اثر قبول کریں۔ زیادہ حیران ہوں یا پریشان۔ فطری علوم و فنون کے عہدِ شباب نے انسانیت کو بڑھاپے کی منزل کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ہر شعبے میں انتہائے پیش رفت نے کام بگاڑ کر رکھ دیئے ہیں۔ زمانہ آلات سے کام لینے کا ہے۔ اور جب آلات سے کام لینے کی بات ہو تو لوگ بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں ‘کیونکہ آلات کے جذبات ہوتے ہیں نہ اُن پر تھکن طاری ہوتی ہے اور نہ ہی اُن کے لیے موڈ کا مسئلہ ہوتا ہے! جتنی دیر اور جس طرح چاہیں ‘استعمال کیجیے۔ 
معاملہ انتخابات کا ہو تو یارانِ خیر اندیش کچھ اتنے ''خلوص‘‘ اور ''انہماک‘‘ سے پوری قوم کی خیریت ''نیک مطلوب چاہتے‘‘ ہیں کہ بے چاری قوم کا کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ کیوں نہ آئے؟ جتنی شِدّت سے ''اظہارِ محبت‘‘ کیا جائے گا ‘اُتنی ہی شِدّت سے ''ریسیونگ اینڈ‘‘ بھی تو ''ایکٹیو‘‘ ہوگا! شاید ایسی ہی کسی کیفیت کو بیان کرنے کی خاطر ضیائؔ جالندھری مرحوم نے کہا تھا ع 
شِدّت کی محبت میں شِدّت ہی کے غم پہنچے! 
ایک ماہ سے بھی زائد وقت ہوا‘ فضائیں انتخابی ترانوں سے معمور ہیں۔ اُن کے دم خم کا گراف نیچے آنے کا نام نہیں لے رہا‘ جو انتخابی ترانوں کی صورت اہلِ وطن کے کانوں میں ''شہد‘‘ ٹپکانے پر مامور ہیں۔ اور رہے اہلِ وطن؟ وہ بے چارے ‘تو محض مجبور و مقہور ہیں۔ اُن کی سماعتیں ایسی معتوب حالت میں ہیں کہ انکار کا یارا اُن میں نہیں۔ ع 
جو آئے آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں 
حسنِ اتفاق یہ ہے کہ ہمارا اپاٹمنٹ ''لبِ سڑک کے کنارے‘‘ واقع ہے۔ اُدھر سورج طلوع ہوتا ہے اور اِدھر گاڑیوں کا شور ماحول میں انٹری دیتا ہے اور پھر دن بھر یہی شور و غوغا ساتھ نبھاتا رہا ہے۔ دل چاہے کہ نہ چاہے‘ ماحول کا بخشا ہوا تحفہ قبول کیجیے۔ اور معاملہ بہت حد فطری ہے۔ دل کو یہ سوچ کر تھوڑا سا سکون رہتا ہے کہ گاڑیاں چلیں گی‘ تو شور بھی ہوگا۔ اور ہم عُرفیؔ کے بقول ع 
عُرفیؔ! تو میندیش زغوغائے رقیباں 
کے مصداق راضی بہ رضا رہتے ہیں۔ ہم کبھی کبھی یہ سوچ کر دل کو بہلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس قدر شور کو جھیلنے‘ سماعت کے ذریعے رگ و پے میں اتارنے کا شاید کوئی صلہ آخرت میں لکھا ہوا ہو۔ بہر کیف‘ گاڑیوں کا شور‘ چاہے‘ ہارن بلا جواز ہی بجائے جارہے ہوں‘ بہت حد تک فطری معاملہ ہے ‘اس لیے گوارا بھی ہے اور قبول بھی‘ مگر شعوری کوشش کے ساتھ پیدا کی جانے والی صوتی آلودگی؟ اسے تو ظلم کہیے‘ زیادتی سے کم کیا سمجھیے۔ اگر اس سے کم کچھ کہا جاسکتا ہے ‘ تو آپ اصطلاح تجویز کیجیے۔ 
ایک ماہ کے دوران پوری قوم کی طرح ہمارا بھی یہ حال رہا کہ رات کی نیند کو ترسے ہیں اور دن کے قرار کو۔ اپنا پیغام ہم تک پہنچانے کے نام پر سیاسی جماعتوں نے سو طریقے اختیار کیے‘ مگر جو قیامت اُن کی طرف سے بجائے جانے والے گانوں نے ڈھائی ہے ‘اُس کا ثانی تلاش کرنا انتہائی دشوار‘ بلکہ تقریباً ناممکن ہے۔ آپ ہی سوچیے کہ ایک راگ دن بھر الاپا جائے اور وہ بھی کسی اضافی بہلاوے کے بغیر‘ کوئی نئی جگہ لگائے بغیر تو آپ کی سماعت کا حال یا حشر کیا ہوگا؟ سماعت کے ''وسیلے‘‘ سے آپ کے وجود کا حصہ بننے والے یہ انتخابی تان پلٹے دل و دماغ پر قیامت نہیں ڈھائیں گے تو اور کیا کریں گے؟ 
صوتی آلودگی کے حوالے سے ایک ماہ کا تذکرہ تو ہم نے رسماً یا اندازاً کیا ہے‘ وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ اس مدت کے دوران قوم کا ''سوا مہینہ‘‘ ہوگیا ہے! ہم نے عرض کیا کہ ہمارا اپارٹمنٹ مین روڈ پر ہے۔ سیدھی سی بات ہے‘ سب کچھ ہم تک براہِ راست پہنچنا چاہیے تھا اور‘ خیر سے‘ پہنچا بھی۔ نارتھ کراچی کی پاور ہاؤس چورنگی کے کسی بھی کونے کا یاروں نے نہ بخشا۔ بڑے بڑے میوزک سسٹمز کے ساتھ ساتھ ڈیرے جمائے گئے اور پھر اہلِ علاقہ کی سماعتوں کی نذر وہ سب کچھ کردیا گیا جو نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ اونچی لَے والے انتخابی نغمات میں کیا نہیں تھا! وعدے بھی‘ دعوے بھی۔ نوید بھی‘ وعید بھی۔ یقین دہانیاں بھی اور غلط پیغام قبول کرنے پر بے یقینی پیدا ہونے کا احتمال بھی۔ انتخابی نغمات کے ذریعے قوم کو معلوم ہوسکا کہ کون کون خود کو قوم کا نجات دہندہ سمجھتا ہے اور کس کس کا یہ خیال ہے کہ اگر وہ ایوان تک نہ پہنچا‘ تو ملک کا خدا جانے کیا بنے گا‘ قوم یتیم و یسیر رہ جائے گی‘ اُس کا کوئی ولی و وارث نہ ہوگا! 
قوالیوں میں بار بار دہرائے جانے والے مصرع کو ٹیپ کا مصرع کہتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران بجائے جانے والے سیاسی گانوں میں بھی ٹیپ کے مصرعوں نے ایسی کیفیت پیدا کی کہ لوگ دل تھام تھام کر رہ گئے۔ ایک ہی بات دن بھر سُنائی دے تو انسان کیا کرے! چَین اور سکون سے دو گھڑی بیٹھنا بھی نصیب نہ ہوتا تھا ‘کیونکہ کہیں سے گاڑی پر لدا ہوا انتہائی شاندار و جاندار میوزک سسٹم گزرتا تھا اور سمع خراشی کے ساتھ ساتھ دِل کو چیرنے کا فریضہ بھی انجام دیتا ہوا زن سے گزر جاتا تھا۔ واضح رہے کہ یہ اضافی اہتمام تھا۔ سڑک پر مستقل مستقر کی حیثیت رکھنے والے سیاسی ''صوتی اڈّے‘‘ بنیادی انتظام کی حیثیت سے موجود تھے اور اپنا کام پوری ''دیانت‘‘ اور جاں فشانی سے کر رہے تھے۔ مزید اضافی اہتمام یہ تھا کہ اپارٹمنٹ بلڈنگز کے کمپاؤنڈز میں سیاسی جماعتیں کارنر میٹنگز کرتی رہیں۔ ان کارنر میٹنگز میں بھی زور گانے بجانے پر رہا۔ جو کچھ رہنمایانِ مِلّت تقریروں میں بیان کرتے تھے‘ وہی کچھ گانوں میں بھی ہوتا تھا‘ مگر پیغام پہنچانے کے معاملے میں کوئی ''رسک‘‘ نہیں لیا گیا اور دونوں آپشن خوب خوب اختیار اور استعمال کیے گئے۔ لوگ سمجھاتے رہ گئے کہ جناب! کچھ خیال کیجیے‘ کچھ تو رحم و کرم کا معاملہ فرمائیے۔ ع 
کسی کی جان گئی‘ آپ کی ادا ٹھہری! 
مگر صاحب! وہ وابستگانِ سیاست ہی کیا ہوئے ‘جو معقول بات کو سُن اور سمجھ لیں۔ اُن کے ارادوں کی پختگی اور اولوالعزمی دیکھ کر ''سامعینِ وحشت نصیب‘‘ بارہا اپنے دل تھام کر اور اپنے سے منہ لے کر رہ گئے! ایسے ہر موقع پر ہمیں ''مغلِ اعظم‘‘ میں شہزادہ سلیم (دلیپ کمار) کی زبان سے ادا ہونے والا جملہ یاد آیا کہ ''ایک ظالم شہنشاہ کے سامنے کوئی کر بھی کیاسکتا ہے؟!‘‘ 
ایک ماہ کے دوران جنہوں نے محض ''سامعین‘‘ کا کردار ادا کیا ہے‘ اُن کے حوصلے کو داد دیجیے کہ ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے اب تک بحسن و خوبی بقیدِ حیات ہیں! پوری انتخابی مہم کے دوران برپا رہنے والی سمع خراشی نے سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیتیں بہت حد تک مفقود کردی ہیں۔ خیر‘ اب دِلّی دور نہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ بیلٹ پیپر سامنے اور مہر ہاتھ میں ہو تب ہوش و حواس‘ تاب و تواں سلامت رہیں‘پھر اس کے بعدع
بھلے ہی چراغوں میں روشنی نہ رہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں