ہم سب‘ شعور کی کسی نہ کسی سطح پر‘ بخوبی جانتے ہیں کہ لطیف پر کثیف بھاری ہے‘ یعنی اچھائی کے لیے ماحول بنانے میں وقت بھی زیادہ لگتا ہے اور محنت بھی بہت کرنی پڑتی ہے مگر خرابی کو پنپنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی اور سچ تو یہ ہے کہ بنتے بھلے ہی دیر لگتی ہے‘ بگڑتے کچھ دیر نہیں لگتی۔
اہلِ پاکستان میں بھی وہی تمام خوبیاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں‘ جو دیگر معاشروں کے انسانوں میں پائی جاتی ہیں۔ ہر معاشرہ مختلف دکھائی دیتا ہے‘ مگر بعض معاملات میں انسان ایک سے ہوتے ہیں‘ یعنی کتنا ہی اور کیسا ہی فرق واقع ہو جائے‘ چند ایک بنیادی خصوصیات تبدیل نہیں ہوتیں۔ برسوں‘ بلکہ عشروں میں پیدا ہونے یا پنپنے والے بگاڑ کو دور کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ وقت تو درکار ہوتا ہی ہے۔ یہ بالکل سامنے کی بات ہے‘ فطری امر ہے‘ مگر پھر بھی انسان کے بے صبری ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ غالبؔ نے کہا ہے ؎
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
انسانوں اور بالخصوص پچھڑے ہوئے معاشروں کے انسانوں کا ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ اُن سے صبر نہیں ہوتا۔ وہ راتوں رات بہت کچھ رونما اور واقع ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ خواہشات یوں آگے بڑھتی ہیں کہ حقیقت پر غالب آجاتی ہیں اور معقولیت کو ایک طرف ہٹاکر تمام معاملات کو یوں نگل جاتی ہیں کہ انسان بے بسی سے دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔
عجلت پسندی انسان کی سرشت میں گوندھ دی گئی ہے‘ اُس کے مزاج کا حصہ ہے۔ کم ہی لوگ ہیں جو اپنے مزاج کے میدان میں عجلت پسندی کو زیادہ آگے بڑھنے سے روکنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ معاملہ فرد کا ہو یا قوم کا‘ عجلت پسندی اور بے صبری بنا بنایا کام بگاڑ دیتی ہے‘ بہت سے اہم معاملات کو تہس نہس کردیتی ہے۔
کامیابی کے لیے بہت کچھ درکار ہوا کرتا ہے۔ صلاحیت اور محنت کے ساتھ ساتھ صبر بھی لازم ہے۔ جب ہم کوئی کام کرچکتے ہیں تو اُس کے نتائج فوری طور پر ہمارے سامنے نہیں آجاتے ‘بلکہ کبھی کبھی صبر آزما انتظار کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ محنت کا پھل فوری طور پر مل جانا چاہیے‘ تو یقین کیجیے کہ آپ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں اور دوسروں کی نظر میں اپنی وقعت کا گراف‘ کسی جواز کے بغیر‘ نیچے لارہے ہیں۔ عبدالحمید عدمؔ نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے ؎
عدمؔ! خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
ستم ظریف بہت جلد باز ہوتے ہیں
25 جولائی کو جو کچھ ہوا وہ بے صبری کی کیفیت کو پروان چڑھا رہا ہے۔ انتخابی نتائج آجانے کے بعد یہ طے ہوتا دکھائی دیا کہ اب حکومت کون بنائے گا اور کون آئندہ پانچ برس تک بیشتر معاملات میں ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ہوگا۔ 28 جولائی کو جو صورتِ حال واضح ہوگئی ‘اُسی نے اب تک کی صورتِ حال کو الجھایا ہوا ہے۔ قوم کو خلجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اب جبکہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس طلب کرنے کی تیاری کی جارہی ہے‘ قوم محض ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم کی تصویر نہیں بنی ہوئی‘ بلکہ جو کچھ دیکھ رہی ہے‘ اُس کے ہاتھوں جان لبوں پر آئی ہوئی ہے۔ بہت کچھ واضح ہوچکا ہے ‘مگر دوسرا بہت کچھ ایسا بھی ہے ‘جو تاحال بالکل واضح نہیں ہوسکا۔ قوم سوچ سوچ کر خلجان میں مبتلا ہوئی جاتی ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا۔
ایسا کیوں ہے؟ قوم کن امور کے حوالے سے سوچ سوچ کر پریشان ہے؟ غیر یقینیت تو اب ختم ہوجانی چاہیے۔ انتخابات ہوچکے ہیں۔ نئے اسٹیک ہولڈرز کمر‘ بلکہ لنگوٹ کس کر میدان میں آگئے ہیں۔ نئی حکومت معرضِ وجود میں آنے ہی والی ہے۔ اب ذمہ داریوں کے انتخاب کا مرحلہ ہے۔ اکثریت کی حامل جماعت بہت کچھ کرنے کے عزم کے ساتھ میدان میں ہے اور اس امر کے آثار بھی ہیں کہ وہ کچھ نہ کچھ نیا ضرور کرے گی اور توقعات پر پوری اُترنے کی اپنی سی کوشش ضرور کرے گی۔
ایک بار پھر قوم وہی غلطی کر رہی ہے‘ جس نے پہلے بھی بہت سے بنتے کام بگاڑے ہیں۔ عجلت پسندی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ توقعات کے پہاڑ کھڑے کیے جارہے ہیں۔ غیر ضروری طور پر ایسی باتیں کی جارہی ہیں‘ جن سے ایوانِ اقتدار میں آنے والے نئے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔ میڈیا نے اپنا روایتی کردار ادا کرنا شروع کردیا ہے۔ ایسے تجزیوں اور تبصروں کی بھرمار ہے‘ جن کا بنیادی مقصد نئے آنے والوں کے لیے ع
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
والی کیفیت پیدا ہو۔ میڈیا کا مجموعی رویہ دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ شش و پنج کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آئندہ پانچ برس کے لیے اقتدار جن کے ہاتھوں میں ہوگا‘ اُن پر ابھی سے دباؤ ڈالا جارہا ہے‘ جو کچھ بھی کرنا ہے‘ تیزی سے کریں۔ غیر محسوس یا تحت الشعوری طور پر قوم کے ذہن میں یہ بات ٹھونسی جارہی ہے کہ جو لوگ ع
ابھی آئے‘ ابھی بیٹھے‘ ابھی دامن سنبھالا ہے
کی منزل میں ہیں اُن نئے آنے والوں سے بہت کچھ بہت تیزی سے پانے کی توقع رکھیں اور مطلوب و موعود نتائج برآمد نہ ہونے کی صورت میں کسی کو ''ٹائم آؤٹ‘‘ نہ لینے دیں۔
بہت کچھ ہے ‘جو بُری طرح بگڑا ہوا ہے‘ ٹھکانے پر نہیں ہے۔ گویا آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ جہاں یہ کیفیت ہو وہاں راتوں رات کوئی بھی بڑی اور جوہری تبدیلی ممکن نہیں۔ ایسے میں تبدیلی مرحلہ وار ہی آسکتی ہے۔ سیدھی سی بات ہے اور سمجھ میں بھی آ ہی جاتی ہے ‘مگر اِس کے باوجود اپنائی نہیں جاتی۔ کائنات کا اُصول ہے کہ ہر معاملہ ایک خاص حد تک وقت اور صبر چاہتا ہے۔ ہمارا اپنا وجود اِس حقیقت کا گواہ ہے! ایسے میں تحمل کو اجتماعی رویّے کے طور پر اپنانے میں کچھ ہرج نہیں۔ کسی بھی تبدیلی کے لیے ناقابل یقین حد تک اُتاؤلے پن کا مظاہرہ کرنا سطحی نوعیت کی دانش کے بھی منافی ہے‘ مگر پھر بھی ہم اب خود کو اس کے لیے تیار نہیں کر پائے۔
قوم نے سیاست اور جمہوریت کے نام پر متعدد تماشے دیکھے ہیں اور طالع آزماؤں کے ہاتھوں جمہوریت کی پامالی بھی دیکھی ہے۔ کئی منتخب حکومتیں ع
آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے
کی منزل سے گزری ہیں۔ یہ کِھلواڑ اب بند ہونی چاہیے۔ مکمل اعتماد اور یقین کے ساتھ‘ جنہیں مینڈیٹ دیا جائے‘ اُنہیں وقت بھی دیا جائے۔ ''ڈلیور‘‘ کرنے کا مطالبہ تو بہت کیا جاتا ہے‘ مگر بے صبری کا پَلّو تھامنے کے بعد یہ نکتہ فراموش کردیا جاتا ہے کہ ''ڈلیوری‘‘ کے لیے غیر معمولی احتیاط کے ساتھ انتظار‘ یعنی صبر بھی لازم ہے! توقعات وابستہ کرنے اور پُرامید ہو رہنے میں کچھ ہرج نہیں‘ مگر یہ سب کچھ منطقی حدود میں رہے تو اچھا۔ بے صبری و بے تابی کے ہاتھوں جب معاملات بگڑتے ہیں‘ تو تکلیف سوا ہو جاتی ہے۔ بقول ضیائؔ جالندھری ؎
اُفتادِ طبیعت سے اِس حال کو ہم پہنچے
شِدّت کی محبّت میں شِدّت ہی کے غم پہنچے