سب کو کچھ نیا چاہیے۔ یہ نیا کیا ہونا چاہیے‘ کیسا ہونا چاہیے اس حوالے سے ہر ذہن الگ سوچتا ہے۔ خواہشات کا تنوع ہے۔ سب اپنی آرزوؤں اور امنگوں کی حدود میں رہتے ہوئے سوچتے ہیں۔ یہ بالکل فطری ہے۔ کوئی بھی دوسروں کی خواہشات کو اپنی خواہشات پر ترجیح دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
کچھ مدت سے نئے پاکستان کا غلغلہ بلند رہا ہے۔ ملک کو نیا رنگ‘ نیا رخ دینے کی بات ہو رہی ہے۔ اس سے اچھی بات بھلا کیا ہوسکتی ہے کہ ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے بارے میں سوچا جائے؟ قوم میں نیا ولولہ ہے‘ جوش و خروش ہے‘ مگر ملک گوناگوں مسائل کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ بُرا چاہنے والے زیادہ ہیں اور بھلا چاہنے والے تعداد میں کم ہی نہیں‘ شش و پنج کی حالت میں بھی ہیں۔ اُن میں شوقِ عمل تو ہے‘ ذوقِ عمل کا فقدان ہے۔ کچھ لوگ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں ‘مگر کیا اور کس طور کرنا ہے‘ اس کا اندازہ لگانے کے معاملے میں تھوڑا بہت بُودا پن نمایاں ہے۔
ایسا بہت کچھ ہے ‘جو ایک قوم کی حیثیت سے پاکستانیوں میں پایا جانا چاہیے‘ مگر نہیں پایا جاتا۔ زمانے کے ساتھ چلنے کا ہنر اس کے سوا کیا ہے کہ ہم جدید ترین علوم و فنون میں دسترس بہم پہنچائیں؟ علاوہ ازیں ہمیں اپنے اندازِ فکر و عمل میں بھی تبدیلی لانی ہے۔ یہ سب کچھ راتوں رات اور آسانی سے تو نہیں ہو جایا کرتا۔ ؎
پل میں کیسے کسی کے ہو جائیں
یہ تو اک عمر کی ریاضت ہے
پاکستان کو بدلنے کی بات ہو رہی ہے۔ ایسے میں لگے ہاتھوں شہروںکو بدلنے کی بات بھی ہوجائے۔ آپ سوچیں گے‘ جب ملک بدلے گا ‘تو شہر بھی تبدیل ہونا ہی ہے۔ ٹھیک ہے‘ مگر معاملہ ترجیحات کے تعین اور معاملات کی نوعیت و شدت کا ہے۔ پاکستان کہنے کو دیہی معاشرہ ہے‘ مگر ملک اگر چل رہا ہے تو شہروں کے بل پر اور المیہ یہ ہے کہ شہروں ہی کو منہ کے بل گرادیا گیا ہے! کراچی‘ لاہور اور دیگر بڑے شہروںکے بنیادی مسائل حل کرنے پر اب تک خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ لاہور کا حلیہ تبدیل کرنے پر تھوڑی بہت توجہ ضرور دی گئی ہے‘ مگر معاملہ اب تک اطمینان بخش نہیں۔ سوال شہر کا حلیہ بدلنے کے ساتھ ساتھ عوام کے معیارِ زندگی کو بلند کرنے کا بھی تو ہے۔ چمکیلی سڑکوں کا کیا لوگ اچار ڈالیں گے‘ اگر جسم و جاں کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے یومیہ بنیاد پر جاں سے گزرنا پڑے! لاہور سمیت پنجاب کے قریباً تمام ہی چھوٹے بڑے شہروں میں زندہ رہنے کی قیمت خطرناک‘ بلکہ جان لیوا حد تک بڑھ چکی ہے۔ مکانات کے کرائے‘ کام پر آنے جانے کا خرچہ اور ایسی ہی دوسری بہت سی مدوں کا بھگتان کرتے کرتے انسان اَدھ مُوا ہو جاتا ہے۔ جہاں زندہ رہنے کی قیمت ادا کرنے ہی میں آدمی کھپ جائے ‘وہاں کسی اور چیز کے بارے میں سوچنے کی ہمت کس میں پائی جاسکتی ہے؟ بہتر امکانات کا یقین نہ ہونے کی بنیاد ہی پر تو لوگ کراچی کا رخ کرتے ہیں۔
ایک زمانے سے کراچی کا حال بُرا ہے۔ کبھی امن و امان کا مسئلہ تھا۔ لوگوں کا گھر سے نکلنا بھی محال ہوگیا تھا۔ راستوں میں کسی بھی جگہ لُٹ جانا اس قدر عام ہوگیا تھا کہ لوگ پیدل چلتے ہوئے ڈرنے لگے تھے۔ کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ سب کیونکر ختم ہوگا اور سکون کا سانس لینا کب نصیب ہوگا۔ باتیں بہت کی جاتی تھیں‘ مگر عمل کے سکور بورڈ پر صرف صفر دکھائی دیتا تھا۔ کراچی کو ملک کا معاشی دارالحکومت‘ قومی معیشت کا اہم ترین سُتون‘ مِنی پاکستان اور پتا نہیں کیا کیا کہا جاتا رہا ہے۔ روشنیوں کا شہر کہلانا بھی اس شہر کا مقام تھا اور تاریکیوں میں ڈوبے رہنا بھی اِسی کا مقدر۔ ایک گال میں آگ اور دوسرے میں پانی لیے یہ شہر جیسے تیسے جیتا رہا ہے۔ اور شدید و متواتر عدم توجہ کے باوجود یہ بستی اپنے حجم کی دوسری بہت سی بستیوں سے بہت بہتر ہے۔
اب جبکہ نئے پاکستان کی بات زور دے کر کہی جارہی ہے‘ جوش و خروش کا مظاہرہ کیا جارہا ہے ... ایسے میں نئے کراچی کی بات کیوں نہ کی جائے؟ اگر ہمیں نیا پاکستان درکار ہے‘ تو پاکستان کو بھی نیا کراچی چاہیے۔ جب تک کراچی نیا نہیں ہوگا‘ اُس کے مسائل حل نہیں ہوں گے ‘تب تک ملک میں بھی نیا پن پیدا نہیں ہوگا۔
کراچی ملک کے لیے سب سے بڑے ایمپلائمنٹ ایکسچینج کا کردار ادا کر رہا ہے۔ ملک بھر سے لوگ بہتر معاشی امکانات کی تلاش میں یہاں آتے ہیں اور بہت حد تک کامیاب بھی رہتے ہیں۔ اِس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ شہر کا مجموعی مزاج کہیں سے بھی آنے والوں کو قبول کرنے کا ہے۔ کراچی کے بیشتر مکین اس حوالے سے کسی بھی نوع کی تنگ نظری کا شکار نہیں۔ یہی حال سندھ کے دیگر چھوٹے بڑے شہری اور دیہی علاقوں کا بھی ہے۔ سندھ کا مجموعی مزاج اپنے دامن میں اپنوں پرایوں سبھی کو سمونے‘ بلکہ سموئے رکھنے کا ہے۔ کراچی کے متواتر پنپتے جانے کا راز بھی یہی ہے‘مگر فراخ دلی کا مظاہرہ کرنے کے عوض کراچی کو کیا مل سکا ہے؟ اُس کے مسائل حل کرنے پر کسی بھی حکومت نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ حد یہ ہے کہ شہر کو جب جرائم پیشہ افراد نے دبوچ لیا‘ تب بھی ملک کے سیاہ و وسفید کے مالک ہونے کا دعویٰ کرنے والوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے۔
کراچی کی آبادی میں نیرنگی پہلے بھی نمایاں تھی اور اب تو اس قدر نمایاں ہے کہ ایک جھلک میں محسوس ہونے لگتی ہے۔ ملک کی ہر نسل سے تعلق رکھنے والا اور ہر زبان بولنے والا شخص یہاں ملتا ہے۔ یہ شہر سب کو اپنے دامن میں سموکر چل رہا ہے‘ مگر اس خلوص کا بدلہ اسے نہیں دیا جارہا۔ شہر کے اصل باشندوں کے معاشی حقوق پر بھی ڈاکے ڈالے جارہے ہیں۔ اُن کے بنیادی مسائل حل کرنے پر خاطر خواہ توجہ اب بھی نہیں دی جارہی۔ صاف پانی کی فراہمی ضرورت کے مطابق ممکن بنائی جاسکی ہے‘ نہ نکاسیٔ آب کا نظام ہی بہتر بنایا جاسکا ہے۔ بجلی کا نظام جیسا بھی ہے سب کے سامنے ہے۔ یہی ابتری صحتِ عامہ کے نظام میں بھی نمایاں ہے۔ اہلِ کراچی کو روزانہ کام پر جانے اور واپس آنے میں غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اچھی خاصی رقم خرچ کرکے بھی ڈھنگ سے یومیہ سفر ممکن نہیں پاتا۔ لوگ کام پر جاتے میں بھی تھکتے ہیں اور واپسی پر دُہری تھکن سے دوچار ہوتے ہیں۔ ایسے میں کوئی زندگی کا معیار بلند کرنے پر کس طور متوجہ ہوسکتا ہے؟
نئے پاکستان کے لیے نیا کراچی اُس طور لازم ہے‘ جس طور سانس لینے کے لیے آکسیجن کا ہونا لازم ہے۔ آج تک بننے والی حکومتیں کراچی کے حوالے سے لاپروائی کی مرتکب رہی ہیں۔ اور اس کا خمیازہ اہلِ کراچی کے ساتھ ساتھ پوری قوم نے بھی بھگتا ہے۔ کراچی کی خرابیاں پورے ملک میں بگاڑ کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ قومی معیشت کے سب سے بڑے سُتون کو مضبوط رکھنا ناگزیر ہے۔ معیشت کا استحکام ہی معاشرت کو بھی توانا کرنے کا وسیلہ بنے گا۔ نیا پاکستان معرضِ وجود میں لانا ناگزیر ہوچکا ہے ‘مگر اس حوالے سے چند ایک ترجیحات کا تعین بھی ناگزیر ہے۔ اگر نیا کراچی اِن ترجیحات میں سب سے اوپر نہ رہا‘ تو حقیقی قومی استحکام کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنا بھی ممکن نہ ہو پائے گا۔