"MIK" (space) message & send to 7575

انتہا پسندی اور کیا ہے؟

سو مشکلوں کی ایک مشکل ہے کہ بات بات پر انتہائی معاملات دکھائی دیتے ہیں۔ ابھی انسان ایک معاملے کو دیکھ کر طلسماتِ حیرت سے باہر آیا ہوتا ہے کہ کوئی دوسرا معاملہ سامنے آ کھڑا ہوتا ہے کہ ع 
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو! 
انسان دیدۂ عبرت نگاہ کا حامل تو ہوسکتا ہے مگر اِتنی قوتِ دیدار کہاں سے لائے؟ دیکھنے کی بھی بہرحال ایک حد تو ہوتی ہی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ اب تو قدم قدم پر ایسا بہت کچھ دکھائی دے جاتا ہے‘ جسے دیکھنے کی تاب نہیں۔ جی چاہے تب بھی حوصلہ سَرد پڑتا جاتا ہے۔ 
ہمیں قدم قدم پر آنکھیں کھلی رکھنا پڑتی ہیں تاکہ دوسروں کی حماقتوں اور کوتاہیوں سے سبق سیکھا جاسکے۔ کامیابی کی راہ پر گامزن ہونے کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ ایسا کچھ نہ کیا جائے جو دوسروں نے کیا اور ناکامی سے دوچار ہوئے۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎ 
جگہ دل لگانے کی دنیا نہیں ہے 
یہ عبرت کی جا ہے‘ تماشا نہیں ہے 
بات سولہ آنے درست ہے۔ روح کو زندہ رکھنا ہے تو انسان آنکھیں کھلی رکھے‘ دیکھے‘ جو دیکھے اُس سے کوئی نہ کوئی سبق سیکھے اور جو سبق سیکھے اُس کے مطابق اپنے عمل کی راہ نئے سِرے سے متعین کرے۔ مگر ہم معاشرے میں عمومی طور پر ایسا کچھ ہوتا ہوا دیکھتے نہیں۔ اقبالؔ نے کہا تھا ع 
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی‘ جہنم بھی 
ہر معاملے کا اصل اور حقیقی معیار عمل ہی ہے۔ سوچ خواہ کچھ ہو‘ ارادہ کیسا ہی ہو اور ولولہ کتنا ہی ہو‘ اگر عمل نہیں تو کچھ نہیں۔ ہم اپنے ماحول میں بہت کچھ ہوتا ہوا دیکھتے ہیں مگر سبق نہیں سیکھتے۔ معاشرے کا عمومی مزاج یہ ہے کہ خود کو حالات کے دھارے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیجیے۔ جہاں یہ چاہے گا لے جائے گا۔ 
اب سوشل میڈیا ہی کی مثال لیجیے۔ عام پاکستانی اس وقت سوشل میڈیا کے دریا میں یوں ڈبکیاں لگا رہا ہے کہ دنیا حیران ہے۔ سوشل میڈیا کا عادی ہونے کا مطلب ہے دوسروں سے زیادہ سے زیادہ تعلق اور اپنے وجود کی انفرادیت نظر انداز کرکے اجتماعیت میں گم ہو رہنا۔ کوئی بھی اپنے آپ سے ملنا اور اپنے آپ میں رہنا نہیں چاہتا۔ بہت پہلے کسی نے کہا تھا ع 
اپنی موج میں بہنا‘ اپنے آپ میں رہنا‘ لہریں ساتھ نہ دیں گی! 
مگر اس قسم کی نصیحتوں پر تب بھی کوئی دھیان نہیں دیتا تھا اور اب بھی نہیں دیتا۔ یہاں کا چلن تو یہ ہے کہ خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیجیے۔ ایسی حالت میں ہاتھ پیر ہلانے کی ضرورت بھی باقی نہیں رہتی۔ اِس سے بڑی ''عیّاشی‘‘ اور کیا ہوسکتی ہے! ع 
دل میں دل کا درد چھپائے چلو جہاں قسمت لے جائے 
یہ سب کچھ اُتر پردیش کے شہر امروہہ سے آنے والی ایک روح فرسا خبر پڑھ کر ہمارے ذہن میں ابھرا۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ دو خاندان مل بیٹھے‘ شادی طے ہوئی اور تیاریاں بھی مکمل کرلی گئیں۔ دلہن والے تیار ہوکر بارات کا انتظار کرتے رہ گئے۔ جب اچھی خاصی تاخیر ہوگئی ‘تو فون پر رابطہ کرکے تاخیر کا سبب پوچھا گیا۔ دولہا والوں کی طرف سے جواب ملا ''ایک ناگزیر امر کے باعث یہ شادی منسوخ کردی گئی ہے۔‘‘ 
لڑکی والوں پر تو یہ سن کر گویا قیامت سی گزر گئی۔ اُنہیں اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ سب کے ذہن میں اور لب پر ایک ہی سوال تھا ... یہ آخری لمحات میں ہوا کیا کہ لڑکے والے پیچھے ہٹ گئے۔ سب حیران اور بے حواس تھے۔ استفسار پر لڑکے والوں نے رشتہ توڑنے اور بارات نہ لانے کا ایسا سبب بیان کیا کہ سبھی نے دانتوں تلے انگلیاں داب لیں۔ لڑکے والوں کی طرف سے جواب ملا ''لڑکی واٹس ایپ پر بہت زیادہ وقت ضائع کرتی ہے۔ زندگی کے دوسرے اہم معاملات پر اُس کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ ہر وقت موبائل فون پر لگتی رہتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شادی سے پہلے ہی اُس نے ہونے والے سسرال میں بہت سوں کو طرح طرح کے برقی پیغامات بھیج دیئے ہیں۔‘‘ 
یہ خبر پڑھ کر خود ہمیں بھی یقین نہ آیا کہ کوئی اس حد تک بھی جاسکتا ہے۔ واٹس ایپ پر وقت کے ضیاع کو بنیاد بناکر بارات روکی جاسکتی ہے‘ رشتہ ختم کیا جاسکتا ہے! کچھ دیر سوچا تو خیال آیا کہ تھوڑا بہت قصور لڑکی کا بھی تو تھا۔ اُس نے گھر بسانے کے بارے میں سوچنے کے بجائے وقت کے ضیاع کا عمل جاری رکھنے کو ترجیح دی۔ گھر بسانا ہر لڑکی کا اولین ارمان اور خواب ہوتا ہے۔ گھر بسنے ہی پر اُس کی زندگی مکمل ہو پاتی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی لڑکی موبائل فون اور سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرتے رہنے کو ترجیحات میں سرِفہرست رکھے اور ہونے والے سُسرالیوں پر سنجیدگی ثابت کرنے کی معمولی سی کوشش بھی نہ کرے تو اِسے حماقت درجۂ اوّل ہی قرار دیا جائے گا۔ 
اس خطے کی نفسی ساخت کس سانچے میں پھنس کر رہ گئی ہے؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ اپنے آپ کو‘ اپنے ماحول اور مجموعی طور پر پوری زندگی کو بدلنے کے لیے تیار کیوں نہیں ہوتے۔ جسے دیکھیے وہ اُسی چیز کو سب سے زیادہ ضائع کرنے پر تُلا دکھائی دیتا ہے جو سب سے کم اور سب سے قیمتی ہے۔ روئے زمین پر وقت سے بڑھ کر بھی قیمتی کچھ ہوا ہے کبھی؟ اور ہم ہیں کہ وقت ہی کو سمجھنے اور برتنے کے لیے تیار نہیں۔ طے کرلیا گیا ہے کہ سکون کا سانس زندگی سی نعمت کو ضائع کرنے کے بعد لیا جائے گا۔ 
انتہا پسندی کو لوگوں نے غلط سمجھ لیا ہے۔ عام تصور کے مطابق انتہا پسند وہ ہے جو اپنے نظریے کو منوانے کے لیے ہتھیار اٹھاکر میدان میں آ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سبھی کسی نہ کسی حوالے سے اور کسی نہ کسی درجے میں انتہا پسند واقع ہوئے ہیں۔ جب ہم اعتدال پسندی ترک کرتے ہیں تو انتہا پسند ہو جاتے ہیں۔ دوستی ہو یا دشمنی‘ محبت ہو یا نفرت‘ کام ہو یا آرام‘ دلچسپی ہو یا بیزاری‘ غلامی ہو یا آزادی‘ خوشی یا غم ... ہر معاملے میں اعتدال کی راہ سے ہٹنا انتہا پسندی ہی کہلائے گا۔ اور جب بھی ہم اعتدال کو خیرباد کہتے ہیں‘ زندگی الجھنوں کا مرقع ہوکر رہ جاتی ہے۔ کسی بھی معاملے میں شدت پسندی کی روشن پر گامزن ہونا ہمیں وقت‘ مواقع‘ صلاحیت اور سکت ... ہر نعمت کے ضیاع کی طرف لے جاتا ہے۔ 
جس بُری عادت نے امروہہ کی لڑکی کو دلہن بننے سے روک دیا وہی بُری عادت ہمارے ہاں بھی نئی نسل کے گلے میں غلامی کے طوق کی مانند لٹک رہی ہے۔ نئی نسل رات رات بھر موبائل فون پر لگی رہتی ہے۔ سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس نے زندگی کا سارا حُسن غارت کردیا ہے۔ کوئی اپنی زندگی کے حوالے سے کس حد تک سنجیدہ ہے اِس کا مدار صرف اِس امر پر ہے کہ وہ اپنے وقت کا ضیاع روکنے پر کس قدر توجہ دیتا ہے یا دیتی ہے۔ ہم زندگی بھر بے ترتیب رہتے ہیں‘ وقت ضائع ہوتا رہتا ہے مگر ہم زندگی کو باترتیب بنانے پر ذرا بھی توجہ نہیں دیتے۔ وقت ہماری ترجیحات میں شاید دسویں نمبر پر بھی نہیں۔ سارا زور زیادہ سے زیادہ لطف پانے پر مرکوز ہے۔ اس حقیقت پر غور کرنے کی زحمت کم ہی لوگ گوارا کرتے ہیں کہ زندگی کا حقیقی لطف اس بات پر موقوف ہے کہ ہم وقت سے کس قدر مستفید ہو پاتے ہیں‘ اُسے کس طور بروئے کار لاتے ہیں۔

٭٭٭

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں