تبدیلی کا دریا طغیانی کے عالم میں ہے۔ کوئی بھی خطہ اور کوئی بھی ریاست تبدیلی سے محفوظ و مامون نہیں۔ کوئی بھی ریاست دعویٰ نہیں کرسکتی کہ وہ جزیرہ ہے۔ اب ہر طرف صرف سمندر ہے اور سب اُس میں غوطے کھارہے ہیں۔ بپھری ہوئی بلا کی سی تیزی سے بدلتے ہوئے حالات بار بار تقاضا کر رہے ہیں کہ ؎
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
اور ہمارا یہ حال ہے کہ احتیاط کا دامن قدم قدم پر ہاتھ سے یوں چھوٹ جاتا ہے کہ صرف ہم ہی نہیں‘ دنیا بھی دیکھتی رہ جاتی ہے۔
جب سے نئی حکومت آئی ہے‘ امریکا نے آنکھیں دکھانے کا عمل تیز کردیا ہے۔ بات بے بات دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دنیا کو تاثر دیا جارہا ہے کہ واشنگٹن آج کل اسلام آباد سے ناراض ہے‘ اس لیے اُس سے دور رہا جائے! یہ سزا چین اور روس سے قربت بڑھانے کی۔ ترکی کو الجھن سے دوچار کرنے کا عمل بھی تیز ہوتا جارہا ہے۔ دوسری طرف بھارت سے پینگیں بڑھائی جارہی ہیں اور صدر ٹرمپ نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں افلاس دور کرنے سے متعلق اقدامات پر بھارت کو سراہا بھی ہے۔
ہماری قیادت نے حالات سے بہت کچھ سیکھا ہے‘ مگر جو کچھ نہیں سیکھا‘ اُس کا تناسب زیادہ ہے۔ امریکا اور یورپ کے سامنے سر بسجود رہنے کی روش ترک کرنے میں اب تک ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ ایک طرف عوام ہیں اور دوسری طرف حکمراں طبقہ۔ عوام کو امریکا یا کسی اور طاقت سے کچھ بھی نہیں ملا۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر حالات جوں کے توں ہیں۔ ایسے میں عوام کسی بھی طاقت سے مرعوب کیوں ہوں؟
امریکا اور یورپ سے مرعوب رہنا ہمارے حکمراں طبقے کا محبوب مشغلہ ہے۔ سیدھی سی بات ہے‘ امداد اور قرضوں کی شکل میں جو بھی فوائد حاصل ہوتے ہیں‘ وہ یہی طبقہ بٹورتا ہے۔ امریکا سے دوستی بڑھانے اور امداد یا قرضوں کے حصول میں اگر مشکلات درپیش ہوں‘ تو سب سے زیادہ پریشانی حکمراں طبقے کو لاحق ہوتی ہے۔ عام آدمی کا ان مشکلات سے کیا تعلق؟
بیک وقت کئی الجھنیں سامنے آ کھڑی ہوئی ہیں۔ ایک طرف سی پیک کا پھیلتا ہوا دائرہ ہے اور دوسری طرف بھارت کی یہ خواہش ہے کہ اُسے خطے کے چوہدری کا درجہ بخش دیا جائے۔ چین نے جب سے سی پیک کا ڈول ڈالا ہے‘ تب سے امریکا اور اس کی تمام حاشیہ بردار ریاستیں الجھنیں پیدا کرنے کے لیے سرگرم ہوگئی ہیں۔ پاکستان کے لیے سی پیک کم و بیش زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ امریکا اور یورپ نے بھانپ لیا ہے کہ سی پیک کی کامیاب تکمیل ایشیا کی تقدیر بدلنے تک محدود نہ رہے گی‘ بلکہ سینٹر آف گریویٹی بھی تبدیل کردے گی۔ چین نے روس اور خطے کے دیگر ہم خیال ممالک کے ساتھ مل کر بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو کو کامیابی کو سے ہم کنار کرلیا ‘تو امریکا اور یورپ کو عالمی سیاست و معیشت کے مرکز کی حیثیت حاصل نہ رہے گی۔ ایسے میں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سی پیک اور دیگر منصوبوں کو کمزور بنانے کی کوشش نہ کی جائے؟
مشرقِ وسطٰی کے بیشتر معاملات میں امریکا کو اب بھی خاصی غیر معمولی‘ بلکہ فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے۔ شام اور عراق کے معاملات میں وہ اب بھی اپنی طاقت بروئے کار لارہا ہے۔ خطے کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کا کوئی بھی موقع امریکا نے ضائع کیا ہے‘ نہ یورپ نے اور اب سعودی عرب کو‘ جو خاصی تشویشناک حد تک امریکا کے زیر اثر ہے‘ سی پیک کا حصہ بنانے کی کوشش شروع کی ہے۔ یہ کوشش کہاں تک کامیاب ہوگی ‘یہ تو کچھ مدت بعد کھل سکے گا ‘تاہم اتنا پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب کے شامل ہونے سے سی پیک کی نوعیت وہ نہ رہے گی‘ جو اب تک ہے۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ سعودی عرب سی پیک کا باضابطہ فریق ہو اور امریکا اُس کے ذریعے معاملات پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہ کرے؟
اب پھر وہ مرحلہ آچکا ہے کہ پاکستان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہے۔ معیشت کو رواں رکھنے کے لیے قرضے بھی درکار ہیں‘ مگر قرضے اتنے ہونے چاہئیں کہ معیشت کا خون نہ چُوسنے لگیں۔ امداد ضرور چاہیے‘ مگر ایسی شرائط کے تحت نہیں کہ لینے کے دینے پڑ جائیں۔ چین سمیت کئی ممالک چاہتے ہیں کہ پاکستان اور ایسے ہی دوسرے کئی پس ماندہ ممالک میں سرمایہ کاری کریں۔ یہ سرمایہ کاری مقامی معیشت کو کمزور بھی کرے گی۔ چین ہمارے ہاں تیزی سے سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ ہم اس حوالے سے بیک وقت پُرامید اور خوفزدہ ہیں۔ کیفیت یہ ہے کہ ؎
رکے رکے سے قدم رک کے بار بار چلے
قرار لے کے تِرے در سے بے قرار چلے
امریکا نے سی پیک کے حوالے سے ہتھیار تیز کرلیے ہیں۔ پروپیگنڈا مشینری بھی محاذ پر ڈٹی ہوئی ہے۔ افریقا کی مثال دے کر ڈرایا جارہا ہے کہ چین ایشیائی ممالک کو بھی کھا جائے گا۔ امریکی تجزیہ کاروں کی فوج لِکھے جارہی ہے کہ چین افریقی اقوام کی طرح پاکستان‘ سری لنکا‘ بنگلہ دیش‘ نیپال اور دیگر ایشیائی ممالک کو بھی قرضوں کے جال میں پھنسانا چاہتا ہے۔ یہ نکتہ بالکل درست ہے اور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا‘ مگر یہی نکتہ ذہنوں میں یہ سوال بھی تو پیدا کرتا ہے کہ اگر چین پس ماندہ اقوام کو قرضوں کے جال میں پھنسانا چاہتا ہے‘ تو دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے اب تک امریکا اور یورپ نے پس ماندہ اقوام پر کیا محبت کا جال پھینکا ہے!
امریکا اور یورپ کے لیے معاملات بہت بدل چکے ہیں۔ وہ اپنے نقطۂ عروج کو چُھو چکے ہیں۔ اب اُنہیں نیچے آنا ہے اور آرہے ہیں۔ معاملات کی نوعیت ایسی ہے کہ اُن کا نیچے آنا ہمیں دکھائی نہیں دے رہا۔ محسوس البتہ کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں اس مرحلے پر یہ اندازہ لگانا ہے کہ اگلے دو تین عشروں کے دوران کون سی ریاستیں عالمی طاقت کی حیثیت اختیار کریں گی۔ اس وقت کیے جانے والے فیصلے ہمیں تابناک مستقبل کی طرف لے جائیں گے۔
پاکستان اور اسی قبیل کی دیگر پس ماندہ اقوام کو ورغلانے اور مغالطوں میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ عمل تیز تر ہوتا جائے گا۔ بنگلہ دیش کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بھارت کی گود میں بیٹھا ہوا ہے۔ نیپال اور بھوٹان خشکی سے گِھرے ہوئے ہونے کے باعث بھارت کو خوش رکھنے پر مجبور ہیں۔ سری لنکا ‘البتہ ذرا بہتر پوزیشن میں ہے۔ وہ اگر چاہے‘ تو چین کو گرین سگنل دے کر زیادہ فوائد بٹور سکتا ہے اور خطے میں بھارتی عزائم کی راہ میں خاصی مضبوط دیوار کھڑی کرسکتا ہے۔
فیصلے کی گھڑی اوروں کے لیے بھی آ ہی گئی ہے‘ مگر ہمارے لیے کچھ زیادہ آئی ہوئی ہے۔ کام فوری بھی ہے اور نازک بھی یعنی گھڑی پر بھی نظر رکھنی ہے اور اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ آبگینوں کو ٹھیس نہ لگے۔ یہ پاکستانی قوم کا نہیں‘ بلکہ قیادت کا امتحان ہے۔ اس گیم شو میں غلطی کی گنجائش نہیں رہی۔ اب ہماری قیادت کو تمام زمینی حقائق اچھی طرح ذہن نشین رکھتے ہوئے فیصلے کرنے ہیں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں یہ امتحان پوری قوم پر محیط ہوجائے گا۔ مسائل صرف ہمارے حصے میں نہیں آئے۔ جو زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئی ہیں اُن تمام ریاستوں کے سامنے سو طرح کے مسائل عفریت کی طرح منہ کھولے کھڑے ہیں۔ بقول غالبؔ ؎
بوجھ وہ سر سے گِرا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے