"MIK" (space) message & send to 7575

ملنے کا آپشن بچا ہے

عمران خان نے نریندر مودی کو خط لکھا‘ اچھا کیا۔ پہل کرنے میںہرج نہیں۔ بھارتی وزیر اعظم کو پاکستانی ہم منصب کی طرف سے مذاکرات کی دعوت کا مثبت جواب دینا چاہیے تھا۔ پہلی نظر میں تو بھارت کا جواب مثبت لگا‘ مگر پھر ایک ہی رگڑ میں ملمّع اتر گیا۔ مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے معاملے میں پہلا قدم اٹھانے سے فریقِ ثانی پر اخلاقی دباؤ کسی نہ کسی حد تک تو بنتا ہی ہے‘ لیکن اگر فریقِ ثانی بھارت یا بھارت جیسا ہو تو کچھ زیادہ پرامید نہیں رہا جاسکتا۔ 
بھارت میں انتخابات کا موسم شروع ہوچکا ہے۔ انتہا پسند ہندوؤں پر اس وقت شدید دباؤ ہے۔ کیسا دباؤ؟ ووٹ بینک کو برقرار رکھنے کا‘ اور کون سا! چار برس کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی کی کارکردگی قابلِ رشک نہیں رہی۔ ایسے میں ووٹ بینک کو مصنوعی نوعیت کے اقدامات سے برقرار رکھنے کا آپشن رہ گیا ہے۔ انتہا پسند ہندو اگر انتخابات کے محاذ پر فتح چاہتے ہیں تو اُنہیں ایک طرف تو بھارتی مسلمانوں کے خلاف فعال رہنا پڑے گا اور بیرونی محاذ پر پاکستان کو نشانے پر رکھنا پڑے گا۔ نریندر مودی یوں زیادہ پریشان ہیں کہ ایک طرف تو پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے دباؤ ہے اور دوسری طرف کانگریس نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ 
بھارت میں اندرونی سیاست کے بہت سے تقاضے ہیں‘ جنہیں کوئی بھی سیاسی جماعت آسانی سے نظر انداز نہیں کرسکتی۔ پاکستان سے معاملات میں خصوصی طور پر محتاط رہنا پڑتا ہے۔ بہت کچھ دیکھنا اور سوچنا پڑتا ہے۔ بائیں بازو کے سوا تمام ہی بھارتی سیاست دان عمومی سطح پر غیر منطقی اور غیر اخلاقی طریقوں سے بھی ووٹ بینک برقرار رکھنے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ 
کیا پاکستان اور بھارت کے پاس ایک دوسرے کو اپنانے کے سوا کوئی آپشن ہے؟ بادی النظر میں اس سوال کا ایک ہی جواب ہے ... یہ کہ ایک دوسرے سے دور رہنے کا آپشن ہے‘ جو اب تک بخوبی اپنایا گیا ہے۔ ٹھیک ہے ‘مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایک دوسرے کو نہ اپنانا کوئی اچھا آپشن ہے۔ زمینی حقیقتیں اپنی جگہ ہیں‘ جنہیں کوئی بھی تبدیل کرنے کی پوزیشن میں ہے‘ نہ نظر انداز کرنے کا متحمل ہوسکتا ہے‘پھر بھی ایک دوسرے کے نزدیک آنے ہی کا آپشن بچا ہے۔ دونوں جوہری طاقت ہیں۔ معمولی نوعیت کی جھڑپیں اگر کبھی منطقی حد سے بڑھ گئیں ‘تو پورا خطہ خاک و خون کی نذر ہونے میں دیر نہیں لگائے گا۔ 
ڈیڑھ دو عشروں سے بھارت مخمصے کی حالت میں ہے۔ اُس کا ایک بنیادی بحران یا مسئلہ یہ ہے کہ دورِ جدید کے تقاضوں کو نبھانے والی تعلیم تو اُس نے بخوبی حاصل کرلی ہے‘ مگر تربیت کا گراف زیادہ بلند نہیں کیا جاسکا۔ بات ہو رہی ہے اخلاقی اور معاشرتی تربیت کی۔ بھارتی معاشرے میں پڑھے لکھے لوگوں کی کمی نہیں‘ مگر جب سوچ کو بدلنے اور زمینی حقیقتوں کو لگے لگانے کی بات آتی ہے تب سبھی کچھ صفر کی منزل پر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ بھارت اکیسویں صدی میں علاقائی نہیں بلکہ عالمی طاقت بننے کے خواب دیکھ رہا ہے‘ مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ اندرونی طور پر بہت کچھ خرابی کا شکار ہے۔ معاشی اور معاشرتی ناہمواری اتنی ہے کہ کسی طور کم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ ایک طرف انتہائی مالدار طبقہ ہے اور دوسری طرف انتہائی عُسرت زدہ طبقہ۔ مڈل کلاس اگرچہ اچھی خاصی ہے‘ مگر آبادی کے تناسب سے وہ خاصی چھوٹی ہے۔ ایسے میں بھارتی قیادت کو کسی بڑے کردار کے لیے تیار ہونے میں غیر معمولی مشکلات کا سامنا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان مشکلات کو دور کرنے کی بجائے پیچیدہ تر کر نے پر زور دیا جارہا ہے۔ 
سیاست کا پیٹرن تبدیل کیے بغیر بھارت آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ایک طرف تو وہ علاقے کا بڑا بننا چاہتا ہے اور دوسری طرف بڑپّن کا حق ادا کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان کے سوا تمام پڑوسیوں کو دباکر‘ دبوچ کر رکھنے کی پالیسی پر مستقل عمل ہو رہا ہے۔ چند ایک معاملات میں تھوڑے بہت فوائد سمیٹ کر بھارتی قیادت سمجھتی ہے کہ اس نے پورے خطے کو اپنا غلام بنالیا۔ نیپال اور سری لنکا کے معاملے میں بھارت کی رشیہ دوانیوں سے دنیا واقف ہے۔ بنگلہ دیش پر اُسے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی ‘کیونکہ بنگلہ دیشی قیادت ہمت ہارچکی ہے‘ ہتھیار ڈال چکی ہے۔ جب بھی عوامی لیگ کی حکومت آتی ہے‘ بنگلہ دیش کی پالیسیاں بھارت کی بھونڈی چاپلوسی کی منزل پر پہنچ کر سکون کا سانس لیتی ہیں۔ ایک بس پاکستان رہ گیا ہے‘ جو کسی نہ کسی طرح اور کسی نہ کسی حد تک بھارت کو منہ دینے کی پوزیشن میں ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ ہم آسانی سے ہار ماننے کو تیار نہیں۔ 
بھارتی معاشرہ صدیوں پرانی نفسی الجھنوں سے اب تک جان نہیں چھڑا سکا ہے۔ ایک طرف ذات پات کا نظام ہے اور دوسری طرف مذہبی اقلیتوں سے متعلق شدید نوعیت کا تعصب۔ ان دو چکیوں میں بہت کچھ پس رہا ہے‘ مگر کسی کو بظاہر کچھ خاص پروا نہیں‘ جو باتیں صدیوں سے بھارتی سرزمین کے باشندوں کو غیر معیاری زندگی کی طرف دھکیلتی رہی ہیں اُنہی کو لگے لگائے جیے جانے کی روش پر گامزن رہنے کو زندگی سمجھ لیا گیا ہے۔ 
بھارتی معاشرے اور سیاست دونوں کا بنیادی پیراڈائم تبدیل نہیں ہو رہا۔ بنیاد پرست اور انتہا پسند ہندو آج بھی‘ یعنی اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے اواخر میں بھی روش بدلنے کو تیار نہیں۔ ملک بھر میں مذہبی بنیاد پر شدید انتشار پیدا کرنے اور نفرت و تعصب کی فضاء پیدا کرنے سے وہ باز نہیں آرہے۔ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف جاکر وہ ہندو اکثریت کا اعتماد جیتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ بھارت کے عام ہندو کو شدید خوف میں مبتلا رکھا جائے۔ اس کوشش میں وہ اب تک کامیاب رہے ہیں۔ ملک کے بیشتر حصوں میں عام ہندو مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حوالے سے خوفزدہ رہتا ہے اور اپنا خوف دور کرنے کے لیے وہ انتہا پسند ہندوؤں کا سہارا لیتا ہے۔ 
رہی سہی کسر پاکستان کا ہوّا کھڑا کرکے پوری کرلی جاتی ہے۔ انتہا پسند ہندو اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کے نام پر ہر الٹی سیدھی بات کہی اور منوائی جاسکتی ہے۔ یہ سدابہار معاملہ ہے۔ جب کہنے کو اور کچھ نہیں ہوتا تب پاکستان پر چاند ماری کی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اب بدلنا چاہیے۔ محض مخاصمت پروان چڑھاکر معاملات کو کب تک ٹالا اور گھسیٹا جائے گا۔ 
بھارت کے پالیسی میکرز کی سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آرہی کہ انتشار کو پروان چڑھاکر معاملات زیادہ دیر تک ٹالا نہیں جاسکتا۔ پاکستانی نژاد کینیڈین طارق فتح کو بھارت میں ہاتھوں ہاتھ لیا جارہا ہے‘ کیونکہ وہ پاکستان ہی نہیں‘ بلکہ مسلمانوں اور اِس سے بھی ایک قدم آگے جاکر اسلام کے خلاف انتہائی زہریلی باتیں کرتا ہے۔ بھارت کے مسلم حکمرانوں کے بارے میں بے بنیاد باتیں کرکے وہ معاشرے میں انتشار کو ہوا دے رہا ہے۔ انتہا پسند اس صورتِ حال پر بغلیں بجارہے ہیں۔ کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ طارق فتح جیسے لوگوں کو بروئے کار لاکر معاشرے میں صرف دیواریں کھڑی کی جاسکتی ہیں‘ مصالحت کی فضاء کو پروان نہیں چڑھایا جاسکتا۔ 
یہ بحث بالائے طاق رکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر ہونے سے کسے زیادہ فائدہ پہنچے گا۔ اصل اہمیت اس نکتے کی ہے کہ خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے دونوں ممالک مل بیٹھیں۔ سیاست کے علاوہ تجارت‘ ثقافت اور سیاحت کے شعبوں میں بھی اشتراکِ عمل بڑھایا جانا چاہے۔ ماضی کو بھلاکر مستقبل کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے میڈیا کو مثبت کردار ادا کرنا ہے‘ تاکہ فاصلے ختم ہوں اور ملنے کے آپشن کو اپنانے کے حوالے سے سنجیدگی اختیار کی جائے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں