بالآخر وہی منزل آ پہنچی ‘جس کا ڈر تھا اور جس سے کتراکر گزر جانے کا سوچا جارہا تھا۔ قوم پریشان تھی کہ ملک چلے گا کیسے؟ حکومت کے دعوے تھے کہ دھیرج رکھو‘ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اہلِ وطن دھیر کیسے دھریں‘ جبکہ اُنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ بجلی اُنہی پر گرنی ہے اور اب گرتی دکھائی بھی دے رہی ہے۔
کہا جارہا تھا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس نہیں جائیں گے۔ قوم کو بحران سے خبردار تو کردیا گیا تھا‘ مگر ساتھ ہی ساتھ یقین بھی دلایا گیا تھا کہ بحران سے اپنے طور پر نمٹا جائے گا‘ یعنی آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونے سے گریز کیا جائے گا‘ مگر جناب ع
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
وزیر اعظم کے مخالفین ''یو ٹرن‘‘ کے حوالے سے اُنہیں تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے عبدالغفور حیدری کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی اور حکومت دونوں نے اتنے یو ٹرن لیے ہیں کہ یہ لفظ افادیت اور ''طلسم‘‘ کھوچکا ہے۔ اب کوئی اور لفظ تلاش کیا جانا چاہیے۔ ہم مودبانہ عرض کریں گے کہ اس بار حکومت نے یو ٹرن کی بجائے‘ کیو ٹرن لیا ہے! Q برائے Qarz!
پیر کو وزیر خزانہ اسد عمر نے ''مژدۂ جاں فزا‘‘ سنایا کہ وزیر اعظم نے آئی ایم ایف سے فوری مذاکرات کی منظوری دے دی ہے اور منظوری ملتے ہی آئی ایم ایف سے رابطہ بھی کرلیا گیا۔ سنا ہے کہ 10 دن کے اندر باضابطہ بات چیت ہوگی اور پیکیج طے ہوگا۔ اب کون سا پیکیج طے ہونا ہے؟ چند روز قبل آئی ایم ایف کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کر تو لیا ہے اور یہ ٹیم ''نیپرا‘‘ کے ہیڈ کوارٹرز بھی گئی تھی۔ کیا اب بھی کچھ باقی ہے‘ جسے سمجھنے کی کوشش کی جائے؟ سب کچھ تو طے کر ہی لیا گیا ہوگا‘ پھر یہ مذاکرات کا ناٹک کیوں؟ بقول جون ایلیا ؎
آپ‘ تم‘ وہ‘ مگر ... یہ سب کیا ہے؟
تم مِرا نام کیوں نہیں لیتی
قوم سبھی کچھ سمجھتی اور جانتی ہے۔ دلوں اور نیتوں کا حال تو صرف اللہ کو معلوم ہے ‘ مگر کیا کیجیے کہ جن کے ہاتھ میں ملک کے سیاہ و سفید کا اختیار ہے‘ اُن کی سوچ کا بھونڈا پن چھلک چھلک پڑتا ہے اور عام آدمی بھی بھانپ لیتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے ‘اُس کے نتیجے میں کیا ہونے والا ہے!
اِدھر آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لیے وزیر اعظم نے سُرخی مائل گرین سگنل دیا اور اُدھر ڈالر نے پُھدکنا شروع کردیا۔ ایک ہی دن کی بات ہے کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 129 سے پُھدک کر 134 تک جا پہنچی‘ جو کچھ پڑوس میں کم و بیش ایک ماہ سے ہو رہا ہے ‘وہ ہمارے ہاں بھی شروع ہوگیا۔ وہاں بھی روپے کی گراوٹ قابو میں نہیں آرہی۔
سٹاک مارکیٹ کا معاملہ البتہ مختلف‘ بلکہ حیرت انگیز ہے۔ بھارتی سٹاک مارکیٹ نے ایک ماہ کے دوران کئی بار غوطے کھائے ہیں۔ دو ایک مرتبہ تو منہ کے بل گری ہے۔ ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ ممبئی کی سٹاک مارکیٹ میں محض تین دن میں 1200 پوائنٹس تک کی گراوٹ آگئی اور سرمایہ کاروں کا اعتماد شدید مجروح ہوا! ہماری سٹاک مارکیٹ وکھری ٹائپ کی ہے۔ یہ صورتِ حال کے خلاف چلتی ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے لیے نیاز مندی کا مظاہرہ کیا ہے اور اس کے نتیجے میں روپے کی قدر گری ہے‘ مگر ہماری سٹاک مارکیٹ اپنی مرضی کی چال چل رہی ہے۔ پیر کو وزیر اعظم کی طرف سے آئی ایم ایف سے بات چیت کے لیے دیئے گئے گرین سگنل کو سرمایہ کاروں نے واقعی گرین سگنل سمجھ لیا اور منگل کو 100 انڈیکس میں 700 پوائنٹس کا اضافہ ہوا! یہ چیز‘ میرے عزیز! فیضؔ نے شاید ایسی ہی کسی کیفیت کے لیے کہا تھا ؎
اِک طرزِ تغافل ہے سو وہ اُن کو مبارک
اِک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
یہ تماشا بھی صرف ہمارے ہاں ہوتا رہا ہے کہ سٹاک مارکیٹ حالات کے برخلاف ردعمل کا مظاہرہ کرتی ہے اور کچھ دن معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی آنکھوں میںدھول جھونکی گئی تھی‘ یعنی جو ردعمل دکھایا گیا وہ ''انجینئرڈ‘‘ تھا! آپ ہی سوچئے ‘ آئی ایم ایف کی ''مدد‘‘ سے ''اصلاحات‘‘ کی بات ہو رہی ہے‘ یعنی قرضے کے ذریعے استحکام پیدا کرنے کی مشق فرمائی جارہی ہے۔ ایسے میں استحکام کے کسی بھی خواب کو کیونکر شرمندۂ تعبیر کیا جاسکتا ہے؟
حکومت نے ابھی سے اپوزیشن کو کھیلنے کے لیے میدان دے دیا ہے۔ تنقید کا سلسلہ طعن و تشنیع تک آگیا ہے۔ اپوزیشن کے ''نو گزے پیر‘‘ لنگوٹ کس رہے ہیں۔ کچھ ہی دیر کی بات ہے کہ میڈیا کے ذریعے ایک بار پھر وہ سب کچھ دکھائی دے گا‘ جو ہم ڈیڑھ دو عشروں کے دوران دیکھتے آئے ہیں۔ اپوزیشن اور میڈیا دونوں کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے ابھی سے قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا شروع کردیا ہے۔ بہت سوں کے نزدیک ڈیم کا معاملہ بھی ٹرک کی بتی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ انتہائی سوچ ہے‘ مگر اتنا ضرور ہے کہ ملک کی انتہائی بنیادی ضرورت کے معاملے میں اپنائے جانے والے طریق سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔
مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے نان اِشوز کو اِشوز بنانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ احتساب کے نام پر بہت کچھ تیز رفتاری سے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تبدیلی کے نام پر انقلاب برپا کرنے کی خاطر برق رفتاری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ قوم حیران ہے کہ حکومت کی آنیاں جانیاں کس کھاتے میں ہیں۔ عوام کے بنیادی مسائل کے بارے میں اب تک کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی‘ جس سے ڈھارس بندھے‘ آنسو پونچھے جانے کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دے۔ آئی ایم ایف اور پاکستان کی ''پریم کہانی‘‘ 6 عشروں پر محیط ہے۔ قرضے کا پہلا پیکیج 1958ء میں لیا گیا تھا اور اُسی سال پہلا مارشل لا بھی آیا تھا۔ گویا قرضے کا یہ تعلق اس سال سَٹھیا گیا ہے! ہم نے آئی ایم ایف سے اب تک 21 بار قرض لیا ہے۔ اس کے باوجود کوئی واضح مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا؛ حالانکہ 21 دن میں تو چُوزے بھی انڈوں سے نکل آتے ہیں!
خیر‘ اس صورتِ حال سے ہمیں بلوچستان میں شاہ نورانی کا مزار یاد آگیا۔ جب شاہ نورانی کے مزار کی طرف جاتے ہیں‘ تو سب پہلے اُن کے ایک مرید یا خادم محبت فقیر کا مزار پڑتا ہے۔ یہاں فاتحہ خوانی کے بعد لوگ آگے بڑھتے ہیں۔ اِسے کہتے ہیں پہلی سلامی ِ فقیر۔ ہماری ہر (منتخب یا غیر منتخب) حکومت کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی رہا ہے۔ پہلی سلامی آئی ایم ایف کی بارگاہ میں ہوتی ہے۔ اس کے بعد ہی آگے بڑھنا نصیب ہوتا ہے!
کسی بھی صورتِ حال میں قرض آخری آپشن ہوتا ہے‘ یعنی جب بات نہ بن رہی ہو تو قرض لیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں قرض پہلا آپشن ہے اور اسے بھی ''اصلاح‘‘ کا پروانہ مان کر لیا جاتا ہے! آئی ایم ایف نے ہمیشہ یہی کہہ کر قرضوں کا پیکیج دیا ہے کہ اس سے پاکستانی معیشت کی اصلاح مقصود ہے! اور کتنی اصلاح ممکن ہوسکی ہے ‘تو ہم آپ سبھی جانتے ہیں۔ حکومت میں شامل اہلِ دانش سے اتنا شکوہ تو بنتا ہے کہ ؎
یہ کیا کہ چند ہی قدموں پہ تھک کے بیٹھ گئے
تمہیں تو ساتھ مِرا دُور تک نبھانا تھا!
جو کچھ ہو رہا ہے‘ اُس کے نتیجے میں جو کچھ ہوگا‘ اُسے بیان کرنے کے لیے ایک بار پھر فیضؔ کو زحمت دینا پڑے گی ؎
ہاں‘ تلخیٔ ایام ابھی اور بڑھے گی
ہاں‘ اہلِ ستم مشقِ ستم کرتے رہیں گے