جہاں ذہن کا استعمال ترک کردیا گیا ہو‘ وہاں صرف افتراق و انتشار پر مبنی بے حواسی و بے نظمی رہ جاتی ہے۔ ایسی کیفیت کو لوگ عموماً بدنظمی کہہ جاتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ بدنظمی میں بھی بُرا ہی سہی‘ بہرحال نظم ہوتا تو ہے۔ بات ایسی کیفیت کی ہو رہی ہے‘ جس میں نظم پایا ہی نہ جاتا ہو۔
معمولی درجے کا بھی دیدۂ بینا نصیب ہو تو دیکھنے کی کوشش نہ کرنے پر بھی بہت کچھ دکھائی دے جاتا ہے۔ قدم قدم پر ایسی کہانیاں بکھری پڑی ہیں‘ جن میں ہمارے لیے عبرت کا سامان ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم کچھ سیکھنے پر مائل ہوتے ہیں یا نہیں۔
یہ قصہ سلیم الحسن خاں کا ہے۔ وہ ''جانے مانے‘‘ پروفیشنل تھے۔ تعلق ٹیکسٹائل کے شعبے سے تھا اور زمانہ وہ تھا‘ جب ٹیکسٹائل سے تعلق رکھنے والے ماہرین معاشرے میں غیر معمولی احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ سلیم الحسن خاں کے لیے بھی بھرپور انداز سے پنپنے کی پوری گنجائش موجود تھی۔ انہوں نے تین عشروں تک بھرپور محنت کی اور اِس دوران بیوی‘ سات بیٹوں اور دو بیٹیوں کی کفالت کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی محنت کی مکمل حلال کمائی سے تین مکان بھی خریدے۔
جب اتنا کچھ ہو جائے‘ تو بہت سوں کے لیے بہت کچھ آسان ہو جاتا ہے۔ کرائے کے مکانوں میں رہنے والے زندگی کی دوڑ میں آگے نکلنے کی لگن پیدا نہیں کر پاتے۔ وہ قدم قدم پر حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں۔ کسی بھی دور میں کرائے پر رہنے والوں کا بنیادی المیہ یہ رہا ہے کہ وہ خود کو بہتر زندگی کیلئے تیار کرنے کی پوزیشن میں نہیں آ پاتے۔ مستقل بے گھری اور بے دری تعاقب میں رہتی ہے۔ ایسے میں سلیم الحسن خاں پر اللہ کا خاص فضل ہوا کہ اُنہوں نے اپنے عہدِ شباب ہی میں ذاتی محنت سے تین مکان خرید کر اولاد کو بے گھری کے عذاب سے بچالیااور معاملہ صرف تین ذاتی گھروں کا حامل ہونے تک محدود نہ رہا۔ سلیم الحسن خاں کی آمدن اچھی تھی ‘اس لیے اولاد قدرے آرام و آسائش سے پروان چڑھتی رہی۔ سب کا کھانا پینا اچھا تھا۔ اُن کے لیے لباس اور ضرورت کی دیگر اشیاء بھی اعلیٰ معیار کی ہوتی تھیں۔
یہ تصویر کا محض ایک رُخ ہے۔ سلیم الحسن خاں کی محنت شاقّہ نے اولاد کے لیے بہت کچھ حاصل کیا‘ مگر معاملہ مجموعی طور پر پرورش تک محدود رہا‘ تربیت کی منزل تک تک نہ پہنچ سکا۔
سلیم الحسن خاں کی پوری توجہ کمانے پر مرکوز رہی۔ وہ اپنے عہدِ شباب میں اے ٹی ایم کے مانند تھے۔ اہلِ خانہ کو جتنا مال درکار ہوتا تھا‘ وہ اُن کے ذریعے میسر ہو جاتا تھا۔ جب ایسی آسانی ہو تو کمانے کون جائے؟ عام طور پر ایسے گھرانوں میں جو کچھ ہوا کرتا ہے‘ وہی سب کچھ سلیم الحسن خاں کے گھرانے میں ہوا۔ اُن کی ذات اور پوری جدوجہد محض کمانے تک محدود رہی۔ ایسے میں وہ بچوں کی موثر تعلیم اور اُس سے کہیں بڑھ کر قابلِ رشک تربیت یقینی بنانے پر توجہ مرکوز نہ کرسکے۔ اور اِس کمزوری کا وہی نتیجہ برآمد ہوا جو بالعموم برآمد ہوا کرتا ہے۔
ہمارے معاشرے کی عمومی روش یہ ہے کہ باپ اچھا کما رہا ہو تو اولاد کچھ کرنے پر زیادہ توجہ نہیں دیتی اور خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ کر مزے سے بہتی چلی جاتی ہے۔ باپ کو بھی خیال نہیں آتا کہ یہ دریا سدا بہتا نہیں رہے گا۔ کہیں نہ کہیں دھارا کمزور بھی پڑے گا۔ تب کیا ہوگا؟
تب ... یعنی آنے والا دور۔ یہ ایک لفظ ہے ‘مگر افسوس کہ ہمارے ہاں اس حوالے سے سوچنے کی ذہنیت اب تک خاصی کمزور اور پس ماندہ ہے۔ سلیم الحسن خاں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ اپنی پروفیشنل لائف کے 'پیک آور‘ میں اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے کہ ؎
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
گزرتے ہوئے وقت کا بہتر فہم یا ادراک ہو تو انسان آنے والے زمانے کیلئے بہتر منصوبہ سازی کرتا ہے۔ سلیم الحسن خان ‘صرف کمانے تک محدود رہے‘ اس لیے اولاد کی بہتر تعلیم اور اُس سے بھی بلند درجے کی تربیت پر خاطر خواہ توجہ مرکوز نہ کرسکے۔ اولاد جب بہتر تعلیم و تربیت ہی سے محروم رہی‘ تو حالات سے مطابقت رکھنے والی سوچ کو پروان چڑھانے والی ذہنیت کہاں سے لاتی؟ مستقبل کی بہتر تیاری کے لیے جو ذہن درکار ہوا کرتا ہے ‘وہ اولاد کے پاس تھا ہی نہیں۔ اس کا نتیجہ شدید بے عملی کی شکل میں برآمد ہوا۔ سلیم الحسن خاں کماتے رہے‘اولاد کھاتی رہی اور وقت گزر گیا۔
پھر وہ لمحہ آیا‘ جو دل و دماغ کو اچانک سُنّ کردیا کرتا ہے۔ سلیم الحسن کے قویٰ مضمحل ہوئے۔ وہ تھکن سے چُور ہوئے اور بیٹھ رہنے کا سوچنے پر مجبور ہوئے۔ تب اُنہیں اندازہ ہوا کہ گھر کا پورا بوجھ عملاً وہی اٹھا رہے تھے۔ بیٹے جوان تو ہوگئے تھے‘ مگر گھر کی ذمہ داری عملاً اُن کے کاندھوں پر نہ تھی۔ ذمہ داری کا بوجھ نہ ہونے کے باعث وہ زندگی کے بارے میں سنجیدہ بھی نہ تھے۔ اُن کی عملی زندگی ''کام چلاؤ‘‘ انداز کی تھی۔ سلیم الحسن خاں تو بھرپور محنت کرتے آئے تھے ‘تاہم اُن کی اولاد عملی سطح پر ع
جو مل گیا اُسی کو مقدّر سمجھ لیا
کے اصول کی بنیاد پر جی رہی تھی۔ کسی کے دل میں کچھ بننے کی لگن تھی‘ نہ کچھ کرنے کی۔ پیروں تلے زمین اور سَر پر چھت آسانی سے میسر ہو تو انسان آسانیوں کے آغوش میں جُھولتا ہے۔ اور اگر کھانے کو بھی مل رہا ہو تو سونے پر سہاگہ کہیے۔ ایسے ماحول میں سنجیدگی کبھی ڈیرے نہیں ڈالتی۔ سلیم الحسن خاں کے گھر میں بھی یہی ہونا تھا اور یہی ہوا۔ ایک شخص نے سات بیٹوں کو پالا‘ مگر اُن میں سے کوئی ایک بھی اپنے پیروں پر ڈھنگ سے کھڑا نہ ہوسکا۔ معیاری تعلیم اور مثالی نوعیت کی تربیت کا شدید فقدان زندگی کو عبرت ناک پس ماندگی کے گڑھے میں دھکیل گیا!
یہ سب کیوں ہوا؟ کیا سلیم الحسن خاں نے محنت میں کوئی کسر‘ کوئی کمی چھوڑی تھی؟ ہرگز نہیں۔ محنت تو اُنہوں نے ایسی کی تھی کہ دنیا دیکھتی تھی‘ دنگ رہ جاتی تھی اور مثال دیا کرتی تھی۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ سلیم الحسن خاں سے وہی غلطی سرزد ہوئی‘ جو ایسے کیسز میں بالعموم سرزد ہو جایا کرتی ہے۔ جب کوئی اپنی لیاقت اور محنت سے بہت اچھا کما رہا ہوتا ہے‘ تب اُس کے ذہن میں یہ بات گھر کر جاتی ہے کہ معیاری زندگی کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے‘ یعنی زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے زیادہ کمانے ہی کو کافی تصور کرکے اطمینان کی چادر اوڑھ لی جاتی ہے۔ سلیم الحسن خاں اپنے حصے کا دوسرا اور نسبتاً اہم تر کام بھول گئے تھے۔ اولاد کے پیٹ میں نوالے ڈالنا کافی نہیں‘ اُس کی تعلیم و تربیت پر متوجہ رہنا بھی لازم ہے۔ زندگی کُلیت کا نام ہے۔ ہم کسی ایک پہلو پر متوجہ رہتے ہیں اور دیگر پہلوؤں کو نظر انداز کر بیٹھتے ہیں۔
کسی کے نصیب میں وارد ہونے والے اچھے وقت کے بہت سے تقاضے ہوتے ہیں۔ رزق میں فراخی اور کشادگی اس لیے ہوتی ہے کہ اولاد کو بہتر زندگی کے لیے تیار کیا جائے۔ اللہ کی طرف سے عطا کیے جانے والے اس موقع کو محض کھانے پینے کی چوکھٹ پر قربان نہیں کیا جاسکتا۔ کفالت گھریلو ذمہ داریوں کا محض ایک حصہ ہے۔ بچوں کی اصل کفالت تو انہیں عمل پسند بنانا اور حقیقت پسندی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی تحریک دینا ہے۔ جب رزق کشادہ ہو ‘تب والدین اور بالخصوص والد کو یہ بنیادی فریضہ فراموش یا نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔