"MIK" (space) message & send to 7575

… عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

زندگی ہمیں بار بار اُس موڑ پر لاتی ہے جہاں سے کئی راہیں نکل رہی ہوتی ہیں۔ ہمیں بہترین راہ منتخب کرنا ہوتی ہے۔ ذرا سے چُوکے اور گئی بھینس پانی میں۔ زندگی کا یہی پہلو سب سے حسین اور مشکل ہے۔ اصغرؔ گونڈوی نے کہا تھا ؎ 
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے 
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے! 
زندگی ہمارے لیے بار بار چیلنج کا اہتمام کرتی ہے۔ قدم قدم پر ایسی صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے‘ جو ہمیں سُکون کا سانس نہیں لینے دیتی۔ ایسے میں انسان کبھی کبھی تنگ بھی آ جاتا ہے‘ بیزاری سی محسوس کرنے لگتا ہے۔ کسی کے لیے تمام معاملات آسان نہیں ہوتے۔ ہو بھی نہیں سکتے۔ زندگی مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا ہی تو نام ہے۔ اصغرؔ گونڈوی کے شاگردِ رشید جگرؔ مراد آبادی نے کہا ہے ؎ 
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے 
اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے 
آج ہر پاکستانی کو جگرؔ مراد آبادی کا یہ شعر رگِ جاں میں اُتار لینا چاہیے‘ بالخصوص پاک چین دوستی کے حوالے سے۔ ہم کھونٹا بدلنا چاہتے ہیں‘ مگر مغربی دنیا ایسا ہونے نہیں دے رہی۔ ہم چاہتے ہیں کہ بدلتی ہوئی دنیا میں خود کو یوں بدلیں کہ اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنا ممکن ہو جائے‘ مگر ایسا ہو نہیں پارہا۔ ہو بھی کیسے؟ ایسا ہونے نہیں دیا جارہا۔ ہمیں راہ بدلنے سے روکا جارہا ہے۔ پوری کوشش کی جارہی ہے کہ ہم جہاں ہیں وہیں رہیں‘ جس تھان سے بندھے ہیں ‘اُسی سے بندھے رہیں۔
کراچی میں چینی قونصلیٹ کو نشانہ بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی‘ جو بھرپور انداز سے ناکام بھی بنادی گئی۔ تین دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتارنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ دو پولیس اہلکاروں نے جان کا نذرانہ پیش کیا اور کوئٹہ سے ویزا کے حصول کے لیے آئے ہوئے باپ بیٹا بھی جان سے گئے۔ پاک چین دوستی کے جسم پر چرکہ لگانے کی یہ کوئی پہلی کوشش نہیں تھی۔ متعدد انجینئر اور دیگر چینی باشندے موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں۔ چینی قیادت اس بات کو سمجھتی ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی تکمیل تک بہت کچھ ہوگا‘ متعلقہ ریاستوں کو آپس میں لڑانے اور ایک دوسرے سے یکسر بدگمان رکھنے کی بھرپور کوشش کی جاتی رہے گی۔ 
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ جن ممالک کے مفادات کی راہ میں حائل ہو رہا ہے‘ وہ اب ''کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘‘ والی ذہنیت کے ساتھ میدان میں ہیں۔ پاکستان سات عشروں سے مغرب کو ذہن نشین رکھتے ہوئے پالیسیاں مرتب کرتا رہا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ہم کم و بیش مکمل طور پر مغرب کے خوشہ چین رہے ہیں۔ دوسری طرف اہلِ مغرب نے دوستی اور اشتراکِ عمل کے نام پر ہم سے کھیلنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ 
اکیسویں صدی کے آتے آتے بہت کچھ بدل چکا تھا۔ سوویت یونین کی تحلیل نے عالمی سیاست کے حرکیات ہی کو تبدیل کردیا۔ پاکستان کے لیے بھی لازم ہوگیا کہ بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے نئی سوچ اپنائے‘ کچھ ایسا کرے ‘جس سے مفادات کا بہتر انداز سے تحفظ ممکن ہو۔ کم و بیش ڈیڑھ عشرے کے دوران پاکستان نے کوشش کی ہے کہ راستہ بدلے اور زیادہ بارآور نوعیت کے بین الاقوامی تعلقات یقینی بنائے۔ امریکا اور یورپ کے لیے یہ سب کچھ ناقابلِ یقین اور اُس سے کہیں بڑھ کر ناقابلِ برداشت ہے۔ پاکستان اپنے محلِ وقوع کے اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ مغرب کسی بھی صورت پاکستان کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ 
ہم نے کئی عشروں کی ''دوستی‘‘ اور ''اشتراکِ عمل‘‘ کے نتائج بھگت کر اُن کی روشنی میں جو کچھ محسوس کیا ہے‘ اُسے جگرؔ مراد آبادی کے شاگردِ عزیز حبابؔ ترمذی نے یوں بیان کیا ہے ؎ 
ستاروں میں الجھ کر رہ گئی ہے 
یہیں تک ہے نظر کی دسترس کیا؟ 
اب ہوش آیا ہے‘ تو اندازہ ہوا ہے کہ ستاروں سے آگے بھی کئی جہان ہیں۔ ہماری نظر ستاروں میں الجھ کر رہ گئی تھی۔ یہ کیفیت ختم ہوئی ہے تو کچھ دکھائی دیا ہے اور سمجھ میں آرہا ہے کہ بہت کچھ کیا جاسکتا ہے‘ مگر کیسے؟ یہ سوال اہم ہے‘ کیونکہ ہم اپنی ڈگر سے ہٹیں یہ محض ہماری مرضی کی بات نہیں رہی۔ بہت کچھ ہے ‘جو داؤ پر لگا ہوا ہے۔ راستہ بدلنا اب ریاستوں کی سطح پر ایک بہت بڑا فن ہے۔ سب سے بناکر رکھنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ ہر کمزور ریاست کو کسی نہ کسی کے آغوش میں بیٹھنا ہی پڑتا ہے۔ پاکستان کے لیے بھی سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ کسی کے آغوش میں جانے سے اپنے آپ کو کس طور روکے۔ امریکا اور یورپ کی دریوزہ گری سے ہمیں کیا ملا ہے؟ صرف ذِلّت‘ اور کیا! سات عشروں تک ہم زمینی حقائق کے خلاف جاکر ‘یعنی قریب ترین طاقتوں چین اور روس کو نظر انداز کرکے ہزاروں میل دور کے یورپ اور اُس سے بھی آگے کے امریکا کی خوشہ چینی میں مصروف رہے۔ ؎ 
لوگ سمجھاتے رہ گئے دل کو 
ہوش جاتے رہے تو ہوش آیا 
اب ہوش آیا ہے ‘تو ہم امریکا اور یورپ دونوں ہی سے دور ہونا چاہتے ہیں ‘مگر دونوں ہمارے ہوش ٹھکانے لگانے کے درپے ہیں۔ پاک چین اشتراکِ عمل جس قدر بڑھتا جاتا ہے امریکا اور یورپ کی ناراضی کا گراف بھی اُسی قدر بلند ہوتا جاتا ہے۔ بالخصوص چین کے معاملے میں امریکا کچھ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ پاکستان کا حکمران طبقہ اب تک مغرب‘ بالخصوص امریکا کا حاشیہ بردار ہے۔ راہ بدلنا ممکن نہیں ہو پارہا۔ 
اب تک جو نہ ہوپایا‘ وہ اب ہر حال میں ہونا ہے۔ ایسا کیے بغیر چارہ بھی نہیں۔ پاکستان کے لیے ناگزیر ہوچکا کہ اپنا راستہ بدلے‘ زمینی حقائق کو تسلیم کرے‘ علاقائی بنیاد پر سوچنے کی روش اپنائے اور چین و روس سے مل کر اپنے لیے معاشی اور سفارتی اعتبار سے ''اسٹریٹجک ڈیپتھ‘‘ کی گنجائش پیدا کرے۔ بچپن میں آپ نے وہ کہانی تو ضرور پڑھی ہوگی جس میں ایسے طلسمات کا ذکر کیا گیا ہے جس میں مڑ کر دیکھنے والا پتھر کا ہو جاتا تھا۔ ہمیں بھی اب سفارتی معاملات میں ایسے ہی طلسمات کا سفر درپیش ہے۔ مڑ کر دیکھنا سخت منع ہے۔ اگر اب ہم گھبرائے اور خوفزدہ ہوئے تو سمجھ لیجیے پتھر کے ہوئے۔ 
خوف کو ایک طرف ہٹاکر پورے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ راستے میں کانٹے بچھانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں گی‘ جنہیں اپنے مفادات کی فکر لاحق ہے‘ اُن سے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پیک) ہضم نہیں ہو پارہا۔ اچھی بات یہ ہے کہ اُدھر سی پیک کے دشمن کمر کس چکے ہیں اور ادھر چین و روس بھی فُل سوئنگ میں ہیں۔ ایسے میں ہمیں بھی اپنے حصے کا کام کرنا ہے یعنی ڈٹے رہنا ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے مفادات کو ہر حال میں زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی ٹھان لیں اور جو ٹھان لیں اُس پر عمل بھی کر گزریں۔ 
پاک چین دوستی کی راہ بھی کٹھن ہے اور سفر کو ہر حال میں روکنے کی خواہش رکھنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ یہ سب اس لیے بھی مزید ناقابلِ برداشت ہوچلا ہے کہ پاکستان اور چین کے ساتھ ساتھ روس اور ترکی جیسے متمول ممالک ہی نہیں ‘بلکہ سری لنکا جیسی کمزور ریاستیں بھی حقیقی تبدیلی کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی تگ و دَو میں مصروف ہیں۔ ایسے میں ہمیں نظر کی دسترس پر نظر رکھنی ہے۔ ساتھ ہی فرمودۂ اقبالؔ بھی ذہن نشین رہے ؎ 
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں 
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں