"MIK" (space) message & send to 7575

یہ سب تو ٹھیک ہے، مگر

کراچی کا حلیہ ایک بار پھر درست کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اِس بار سارا زور تجاوزات کے ختم کئے جانے پر ہے۔ شہر بھر میں تجاوزات کی بھرمار رہی ہے۔ اب ان کا صفایا کیا جارہا ہے۔ اور یہ صفایا جس انداز سے کیا جارہا ہے اُس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ معاملہ وہ نہیں جو دکھائی دے رہا ہے۔ ع 
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے 
در حقیقت کس چیز کی پردہ داری ہے‘ یہ تو کچھ دنوں میں طشت از بام ہو ہی جائے گا‘ مگر جو کچھ اس وقت دکھائی دے رہا ہے وہ یہ بتا رہا ہے کہ تجاوزات کے نام پر جو کچھ بھی کیا جارہا ہے وہ شہر کا بھلا چاہنے سے کہیں بڑھ کر کسی کی خوشی کے لیے ہے، فرمائشی پروگرام ہے۔ ایک زمانے سے کراچی کی حالت یہ رہی ہے کہ جو کچھ دکھائی دیتا آیا ہے وہ حقیقت نہیں بلکہ بہت کچھ ہے جو چھپا ہوا ہے، دبا ہوا ہے۔ کبھی شہر کو دہشت گردوں کے حوالے کیا گیا، کبھی بھتہ خوروں کے۔ کبھی ٹارگٹ کِلرز کی حکمرانی رہی تو کبھی اغوا برائے تاوان کے گینگز چلانے والوں کی۔ کم و بیش ڈھائی عشروں تک شہر لاوارث سا تھا۔ سوچنے اور لکھنے والے توجہ دلا دلاکر تھک گئے ‘مگر بات نہ بنی، دال نہ گلی۔ سٹیک ہولڈرز کے ہاتھوں شہر کا یہ حال رہا کہ ؎ 
اجنبی خوف فضاؤں میں بسا ہو جیسے 
شہر کا شہر ہی آسیب زدہ ہو جیسے 
پھر یوں ہوا کہ شہر کی تقدیر بدلنے کا عمل شروع ہوا۔ یہ سب بظاہر کسی کی منصوبہ بندی کے بغیر تھا۔ جو سٹیک ہولڈر بنے پھرتے تھے وہ اپنے دام میں آگئے۔ جب وہ اپنی چالیں چل چکے تو ایک چال رب نے چلی۔ مکافاتِ عمل کا قانون نافذ ہوا۔ پہیہ الٹا گھوما تو بہت سوں کا سب کچھ یوں گیا کہ وہ دیکھتے ہی رہ گئے۔ دیکھتے رہنے سے زیادہ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔ 2004 ء میں جب بینکوں اور قومی بچت کے اداروں نے منافع کی شرح برائے نام کردی‘ تب لوگوں نے ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری شروع کی۔ کراچی میں پلاٹس اور مکانات کی قیمتیں دیکھتے ہی دیکھتے آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ لوگوں نے محسوس کیا کہ اگر منافع ہے تو پراپرٹی کے دھندے میں۔ اور یوں لاکھوں افراد نے اپنا سرمایہ بینکوں اور قومی بچت کی سکیموں سے نکال کر پراپرٹی سیکٹر میں لگایا۔ جب ''بڑے‘‘ اس معاملے میں کودے تو معاملہ ہاتھ سے نکل گیا۔ محض پانچ سات لاکھ روپے والے اپارٹمنٹس دیکھتے ہی دیکھتے دگنی مالیت کے ہوگئے۔ یہی حال پلاٹس کا تھا۔ کہنے کو یہ سب کچھ بہت خوش آئند تھا‘ مگر بہت جلد لوگوں کو اندازہ ہوگیا کہ یہ سب کچھ مصنوعی تھا۔ ایک غبارہ تھا جسے حد سے زیادہ پُھلایا گیا تھا۔ جب یہ غبارہ پھٹا تو عام آدمی کے لیے سنبھلنا دشوار ہوگیا۔ ''پراپرٹی ببل‘‘ کے ہاتھوں عام آدمی کے لیے کرائے پر رہنا جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا۔ جب اپارٹمنٹس اور مکانات کی قیمتیں غیر معمولی رفتار سے بڑھیں تو کرائے بڑھائے جانے لگے۔ اس نکتے پر کوئی غور نہیں کرتا کہ پراپرٹی کی قیمت بڑھنے سے کرائے داروں کی تنخواہیں نہیں بڑھتیں۔ اُن کے لیے تو انتہائی معمولی سطح کا گزارا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔ 
ایک زمانے تک کراچی میں بہت کچھ ہونے دیا گیا۔ آبادی بڑھتی گئی اور بڑھتی ہوئی آبادی کو ذہن نشین رکھتے ہوئے ٹاؤن پلاننگ پر نظر ثانی کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ جو شہر کے سیاہ و سفید کے مالک تھے وہ شہر کے چہرے پر سیاہی ملنے کے عمل میں محض شریک نہیں بلکہ انتہائی جوش و خروش کے ساتھ متحرک رہے۔ کچی آبادیوں کی تعداد بڑھتی گئی مگر کبھی اس حوالے سے پلاننگ نہیں کی گئی، عصری تقاضوں کے مطابق خاطر خواہ اقدامات کی ضرورت پوری شدت سے محسوس نہیں کی گئی۔ پانی سر سے گزرا تو سب ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھے۔ ع 
ہوش جاتے رہے تو ہوش آیا 
کراچی کے بنیادی ڈھانچے پر دباؤ ایک زمانے سے بڑھتا رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی بنیادی سہولتوں کے نظام کو تہس نہس کرتی رہی ہے۔ ملک کے کونے کونے سے آنے والوں کو ڈھنگ سے بسانے اور انہیں شہر کے لیے کوئی باضابطہ معاشی کردار ادا کرنے کے قابل بنانے پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ تجاوزات قائم ہونے دی گئیں۔ جو لوگ شہر سے بے حساب کماتے تھے وہ ٹیکس ادا کرنے کے معاملے میں صفر کی منزل پر کھڑے تھے۔ کراچی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے مگر ہڈی کو بھی تو مضبوطی درکار ہے۔ یہ مضبوطی مالیات سے آتی ہے۔ کراچی کے لیے مالیاتی کردار ادا کرنے میں بخل سے کام لیا جاتا رہا۔ شہر کے بنیادی باشندے ہی سارا بوجھ اٹھاتے رہے ہیں۔ ملک کے کسی بھی باشندے کو کہیں بھی آباد ہونے کا حق ضرور حاصل ہے ‘مگر جہاں وہ آباد ہو وہاں کا حق بھی تو ادا کرے۔ کسی بھی شہر یا قصبے کو محض کمائی کا ذریعہ سمجھ کر تو گنڈیری کی طرح چُوسا نہیں جاسکتا۔ کوئی اگر کہیں آکر آباد ہو رہا ہے تو اُسے ایک باضابطہ نظام کے تحت بسایا جانا چاہیے۔ کراچی میں ڈھائی تین عشروں سے سلسلہ یہ ہے کہ افغان باشندے بھی بہت مزے سے سکونت ہی اختیار نہیں کرتے رہے، کاروبار بھی دھڑلّے سے کرتے آئے ہیں۔ کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں کہ کوئی کہاں سے آیا ہے، کون ہے اور اُس کے پاس جو ڈھیروں دولت ہے وہ کہاں سے آئی ہے۔ ''منی ٹریل‘‘ کی دُہائی دینے والے اس حوالے سے یکسر خاموش رہے ہیں۔ 
کراچی کو صاف کیا جارہا ہے، سسٹم کے تحت لایا جارہا ہے۔ یہ اچھی بات ہے مگر سوال یہ ہے کہ جنہوں نے شہر کو ڈھائی تین عشروں تک برباد ہونے دیا اُن کا محاسبہ ہوگا یا نہیں۔ سرکاری زمینوں پر غیر قانونی تعمیرات کی اجازت دینے والے سرکاری افسران کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی یا نہیں؟ شہر بھر میں ہزاروں دکانیں ڈھائی گئی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ یہ دکانیں غیر قانونی تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں یہ دکانیں غیر قانونی تھیں ‘مگر انہیں قانونی ظاہر کرکے بیچا گیا تھا۔ اس کام میں سرکاری مشینری کے جو پُرزے ملوث تھے اُن کے بھی تو کان کھینچے جانے چاہئیں۔ اُن کی کھال کھینچی جانے ہی سے آئندہ ایسے سلسلۂ واقعات کی روک تھام ممکن ہوسکے گی۔ 
کراچی میں تجاوزات کا بازار غیر معمولی سطح پر گرم تھا۔ لوگ کہیں بھی خالی جگہ دیکھتے ہی اُس پر قابض ہوجایا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ اب رکنا ہی چاہیے تھا۔ اور اچھا ہے کہ اِس سلسلے کو روکا ہی نہیں، ختم کیا جارہا ہے ‘مگر اس کے نتیجے میں بے روزگاری کا جو طوفان کھڑا ہوگا اُس کے بارے میں سوچنا بھی لازم ہے۔ اگر یہ سب کچھ کیا جانا تھا تو اس حوالے سے عوام کو اعتماد میں لینے کی بھی ضرورت تھی‘ تاکہ معاملات متوازن رہتے۔ اب کیفیت یہ ہے کہ تجاوزات کے ذریعے کروڑوں، اربوں کمانے والے تو ایک طرف ہوگئے ہیں اور ہزاروں دکانوں اور کارخانوں کے ختم کئے جانے سے لاکھوں افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔ یہ لوگ اس پوزیشن میں نہیں کہ پریشان ہوئے بغیر ڈیڑھ دو مہینے بھی گزار سکیں۔ سماجی حلقے یہ خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ تجاوزات ختم کرنے کے نام پر شہر بھر میں بہت سی معاشی سرگرمیوں کو اچانک ختم کردیئے جانے سے جو بے روزگاری پیدا ہوگی اُس کی کوکھ سے سٹریٹ کرمنلز کی نئی کھیپ بھی جنم لے سکتی ہے۔ اچانک روزگار چِھن جانے سے سٹریٹ کرائم کی وارداتوں کا گراف بلند ہوسکتا ہے۔ شہر کے سٹیک ہولڈرز ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو اس بدلی ہوئی اور بم کی خطرناک کیفیت کے پیش نظر آگے بڑھ کر معاملات درست کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ شہر دوبارہ خرابی کی نذر نہ ہو۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں