"MIK" (space) message & send to 7575

… اب ایسی بھی کیا جلدی ہے؟

وقت پَر لگاکر اُڑ رہا ہے۔ آج عمومی تاثر یہ ہے کہ وقت کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہے۔ یہ تاثر سراسر درحقیقت یکسر بے بنیاد ہے۔ وقت سُست رفتار ہوتا ہے‘ نہ تیز رفتار اور سائنس دان تو یہ بھی کہتے ہیں کہ حتمی تجزیے میں وقت کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ ہمارے ماحول سمیت پوری کائنات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ہمیں وقت کے گزرنے کا احساس ہوتا ہے؛ اگر سب کچھ تھم جائے‘ کہیں کوئی تبدیلی رونما نہ ہو‘ تب ہم وقت کے حوالے سے کیا رائے قائم کریں گے؟ 
بہر کیف‘ وقت کے گزرنے کی رفتار ‘چونکہ ہمیں خاصی تیز محسوس ہو رہی ہے‘ اس لیے اب ہر معاملے میں قیامت خیز تیزی آگئی ہے۔ لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی تیزی کو زندگی کا حصہ بنانے پر مجبور ہیں۔ 
جب ہر معاملہ ہی تیز رفتاری کی راہ پر گامزن ہونے کو تُلا ہے تو پھر خواہشیں بھلا کیوں پیچھے رہیں؟ محض وقت کو نہیں‘ بلکہ ہماری خواہشوں کو بھی پَر لگ گئے ہیں۔ اس نئی حقیقت کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ آج ہم ہر معاملے میں تمام منطقی مدارج و مراحل کو یکسر نظر انداز کرکے راتوں رات کامیابی حاصل کرنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ آج کے پاکستانی معاشرے کا حال یہ ہے کہ لوگ کسی بھی شعبے میں قدم رکھنے سے قبل ہی طے کرلیتے ہیں کہ آن کی آن میں اُس کے بلند ترین مقام پر پہنچنا ہے! نئی نسل کی مجموعی کیفیت یہ ہے کہ اگر کوئی کرکٹ کی دنیا میں نام کمانا چاہتا ہے تو باضابطہ ذہن بنانے سے پہلے ہی خود کو چھوٹا موٹا پستول نہیں‘ بلکہ توپ سمجھنے لگتا ہے! کسی کو اگر باؤلر بننا ہے تو گیند تھام کر رن اپ لینے سے پہلے ہی وہ ''چشمِ تصور کی آنکھ‘‘ سے خود کو عمران خان اور وسیم اکرم کے مقام پر دیکھتا ہے! بیٹسمین بننے کے خواہش مند نوجوان بیٹ تھامنے کے بعد کریز پر پہنچنے سے پہلے خیالوں ہی خیالوں میں شاہد آفریدی کی طرح دے دھنا دھن چوکے اور چھکے مارنے لگتے ہیں! 
جو لوگ گلوکاری کی طرف جانا چاہتے ہیں ‘وہ کبھی اس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ یہ فن دراصل ایک ایسا سمندر ہے ‘جس کی گہرائی اور گیرائی کا کسی کو ٹھیک ٹھیک اندازہ نہیں۔ عجلت کے ماروں کی خواہش صرف یہ ہوتی ہے کہ ادھر وہ مائکروفون سنبھالیں اور اُدھر لوگ اُنہیں ویسی دلچسپی سے سُنیں جیسی دلچسپی سے مہدی حسن اور محمد رفیع کے شاہکار گیت سُنا کرتے ہیں! 
یہی حال دوسرے بہت سے شعبوں کا بھی ہے۔ کوئی اگر شعر کہنا شروع کرتا ہے‘ تو ہدف یہ طے کرتا ہے کہ لوگ میرؔ و غالبؔ کو بھول جائیں! اور اگر مصنف کی حیثیت سے نام کمانے کی دُھن ہے تب بھی بھرپور تیاری کیے بغیر ہی بڑے بڑے لکھاریوں سے آگے نکل جانے کی خواہش صاف دکھائی دیتی ہے۔
معاملہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی پانا ہے راتوں رات پانا ہے اور بھرپور محنت کیے بغیر پانا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ کسی بھی شعبے میں راتوں رات بھرپور کامیابی حاصل ہو جائے...؟ 
ہم جب بھی کسی معاملے میں منطقی مدارج کو ایک طرف ہٹانا یا skip کرنا چاہتے ہیں ‘تب ہر معاملے میں واقعات کی ترتیب بگڑ جاتی ہے اور پھر ہم چاہیں کہ نہ چاہیں‘ معاملات محض خرابی کی طرف جاتے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ ڈھائی تین گھنٹے کی فلم کو فاسٹ فاروڈ کرکے محض پندرہ بیس منٹ میں دیکھا جائے تو؟ کچھ بھی سمجھ میں نہ آئے گا اور دیکھنے کا لطف بھی جاتا رہے گا‘ جو چیز ڈھائی گھنٹے میں دیکھنے کے لیے بنائی گئی ہے‘ وہ پندرہ بیس منٹ میں نہیں دیکھی جاسکتی۔ راتوں رات سب کچھ پانے کی تمنا کا بھی تو یہی معاملہ ہے۔ بہت کچھ بہت تیزی سے کرنے اور حاصل کرنے کا نتیجہ بالعموم ناکامی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ ہم زندگی بھر‘ بظاہر کسی جواز کے بغیر‘ شدید عجلت پسندی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ 
کسی بھی شعبے میںکسی کی شاندار کامیابی دیکھ کر ہم تحریک تو پاتے ہیں‘ مگر اُس تحریک کو بروئے کار لاکر کچھ کرنے کے حوالے سے ہماری بیشتر کوششیں غیر منطقی سوچ کا مظہر ہوتی ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم محض عجلت کے اسیر رہتے ہیں۔ خواہش صرف اتنی ہے کہ جو کچھ بھی حاصل ہونا ہے وہ راتوں رات حاصل ہو جائے۔ عام آدمی اداکاروں سے بہت متاثر ہوتا ہے۔ نئی نسل کا یہ حال ہے کہ ٹی وی یا سنیما کی سکرین پر جسے بھی دیکھتی ہے ‘اُس کی دیوانی ہو جاتی ہے اور اُس جیسا بننا چاہتی ہے۔ جو لوگ کسی کی اداکاری سے متاثر ہوکر اداکاری کی طرف جانے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ وہ اگر ایک دن کی شوٹنگ دیکھ لیں تو سارا نشہ ہرن ہو جائے۔ شوٹنگ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ محض ایک سین کو جاندار بنانے کے لیے کتنے لوگوں کو کتنی جان مارنی پڑتی ہے۔ 
ایک اداکاری پر کیا موقوف ہے‘ ہر شعبہ محنت مانگتا ہے۔ فی زمانہ مسابقت اس قدر ہے کہ انسان غیر معمولی محنت کیے بغیر آگے بڑھ ہی نہیں سکتا۔ اداکاری ہو یا گلوکاری‘ چیزیں بنانے کا فن ہو یا بیچنے کا‘ افسانہ نگاری ہو یا شاعری‘ تدریس ہو یا بخیہ گری‘ معمولی نوعیت کی دکان داری ہو یا اعلیٰ درجے کا پھیلا ہوا کاروبار ... ہر شعبے میں انسان کو غیر معمولی محنت کرنی پڑتی ہے۔ 
نئی نسل کو خاص طور پر یاد رکھنا ہے کہ کسی بھی حوالے سے مہارت کا حصول ایک خاص منطقی ٹائم فریم کا طالب ہوتا ہے۔ ہزار میں دو تین افراد ایسے ہوتے ہیں جو بہت تیزی سے بہت کچھ سیکھ پاتے ہیں اور ایسا بھی اُس صورت میں ہوتا ہے جب وہ کام میں دوسروں سے تین گنا دلچسپی لے رہے ہوں۔ عام آدمی کی صلاحیت و سکت کا دائرہ محدود ہوتا ہے اور کام کرنے کی لگن معمول ہی کی سطح پر رہتی ہے۔ 
کسی بھی شعبے میں پیش رفت کے لیے منطقی رفتار کے ساتھ آگے بڑھنا لازم ہے۔ انسان عجیب حیوان ہے۔ وہ تمام منطقی مراحل کو skip کرکے آگے بڑھتا ہے اور پھر اِس خرابی کے نتائج بھی بھگتتا ہے۔ یاد رکھیے‘ حقیقی اور بھرپور کامیابی اُسی وقت ہاتھ لگتی ہے جب ہم تمام منطقی مراحل سے گزرتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر منطقی مراحل کو نظر انداز کیا جائے تو صرف ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ ایسے میں تھوڑی بہت کامیابی نصیب ہو بھی جائے تو زیادہ لطف نہیں دیتی۔ 
کسی بھی شعبے کے تمام معاملات کو مرحلہ وار سمجھنا ہی حقیقی کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔ کسی کھیل میں مہارت حاصل کرنی ہو یا کسی ہنر میں‘ کوئی معمولی سا کام سیکھنا ہو یا پیچیدہ فن ... ہر معاملہ ہم سے صبر اور تحمل کا طالب ہوتا ہے۔ اگر ہم بیشتر معاملات کو غیر معمولی تیزی سے سمجھنا اور برتنا چاہیں تو بہت سی چیزیں آپس میں الجھ کر رہ جاتی ہیں۔ جست لگاتے رہنے کا عمل بالآخر تمام معاملات کو آپس میں اِس طور الجھا دیتا ہے کہ ہمارے لیے کچھ بھی سمجھنا ممکن نہیں رہتا۔ 
نئی نسل کو کیریئر کے حوالے سے یہ نکتہ خاص طور پر ذہن نشین رکھنا ہے کہ غیر ضروری طور پر اختیار کی جانے والی غیر معمولی تیزی کچھ بھی نہیں دے پاتی‘ بلکہ بہت کچھ لے لیتی ہے۔ مشغلہ ہو یا پیشہ‘ مہارت ایک خاص وقت تک تواتر سے محنت اور مشق کرنے کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔ کچھ بننے اور کر دکھانے کے لیے توازن اور تحمل کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ اپنے لیے خلوص کے ساتھ ساتھ تحمل بھی لازم ہے۔ عبدالحمید عدمؔ نے خوب کہا ہے ؎ 
عدمؔ ! خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے 
ستم ظریف بہت جلدباز ہوتے ہیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں