"MIK" (space) message & send to 7575

’’کاش‘‘ کا دائرہ

''انتہائے کمال‘‘ کہیے کہ لوگ گزرے ہوئے زمانے میں بھی یوں سانس لیتے ہیں کہ دیکھنے والے دم بخود رہ جاتے ہیں۔ ہر دور کا انسان تین زمانوں میں رہتا آیا ہے۔ گزرا ہوا زمانہ فکری ساخت سے چمٹا رہتا ہے اور آنے والے زمانے کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہونا بھی انسانی مزاج کا حصہ ہے۔ رہ گیا زمانۂ موجود ... تو جناب‘ اُس کا ہونا بھی عجیب ہی کیفیت کا حامل ہے۔ وقت لمحہ لمحہ مستقبل اور پھر ماضی میں تبدیل ہو رہا ہے۔ اگر حال کو ڈھونڈنے نکلیے تو کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔ اس حوالے سے جتنا سوچیے ذہن اُتنا ہی الجھتا جاتا ہے۔ 
ہم میں سے کون ہے جو یہ نہیں جانتا کہ گزرا ہوا زمانہ ہمیں کچھ بھی نہیں دے سکتا؟ کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں ملے گا جو گزرے ہوئے زمانے میں جینے پر راضی ہو مگر حیرت انگیز المیہ یہی تو ہے کہ ہم میں سے بیشتر گزرے ہوئے زمانے میں زندہ رہتے ہیں۔ 
ماضی پرست ہونا انسانی فطرت کا عمومی رجحان اور رویہ ہے جسے بہت زیادہ بُرا بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ماضی سے جُڑے بغیر ہم حال کو سمجھ سکتے ہیں‘ نہ مستقبل سے جُڑ سکتے ہیں۔ اگر زندگی بسر کرنے کا کوئی اچھا ڈھنگ ہے تو یہی کہ تینوں زمانوں کو اچھی طرح سمجھا جائے۔ اچھی طرح سمجھنے کے بجائے لوگ بیک وقت تینوں زمانوں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ماضی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ باقی دونوں زمانوں پر حاوی رہتا ہے۔ اگر گزرا ہوا زمانہ اچھا ہو‘ تب انسان اُسے یاد کرکے خوش ہوتا رہتا ہے اور اگر بُرا ہو تو اُس کی تلخ یادیں حافظے کی جان نہیں چھوڑتیں‘ فکر و عمل کی رگوں سے خون نچوڑتی رہتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی خوش گوار ہو یا ناگوار ... دونوں ہی صورتوں میں انسان کو بے حال کرکے چھوڑتا ہے۔ یادیں حسین ہوں‘ تب بھی عمل سے دور لے جاتی ہیں اور تلخ ہوں‘ تب بھی دل کو کچوکے لگاکر عمل سے دور رکھنے کا باعث بنتی ہیں۔ 
گزرا ہوا زمانہ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ اُس کی تفہیم سے ہم آنے والے دور میں کچھ کر گزرنے کی تحریک پائیں۔ جو لوگ اس طریق پر عمل کرتے ہیں‘ وہ فائدے میں رہتے ہیں۔ بیتے ہوئے لمحات؛ اگر حافظے میں ہر دم تازہ رہیں تو انسان کو آنے والے زمانے کے لیے تیاری کے مرحلے سے دور رکھتے ہیں۔ ہر دور اپنے ساتھ بہت کچھ لے کر آتا ہے اور بہت کچھ چھوڑ بھی جاتا ہے۔ ہمیں انتخاب در انتخاب کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے‘ تاکہ انہماک کو درہم برہم کرنے والی ہر بات کو اپنے وجود سے دور کریں اور عمل کی طرف لے جانے والے تمام معاملات کو بخوبی یاد رکھیں۔ 
بات صرف ہمارے معاشرے کی نہیں‘ دنیا بھر کے معاشروں میں اکثریت کو ماضی میں رہنا پسند ہے۔ ماہرین گزرے ہوئے زمانے کو ہر حال میں ایک خاص حد تک یاد رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ گزرا ہوا زمانہ حافظے کی جان نہیں چھوڑتا۔ بہت کچھ ہے ‘جو ہمارے حافظے کے ساتھ ساتھ فکری ساخت سے بھی چمٹا رہتا ہے۔ یہ معاملہ ایسا نہیں ہے کہ ماہرین کے مشورے سے درست ہو جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم زندگی بھر گزرے ہوئے زمانے کے پنجرے میں قید رہتے ہیں۔ 
ماضی کی بات کیجیے تو ''کاش‘‘ کلیدی لفظ ہے؛ اگر ہم اچھا وقت گزار چکے ہوں تو موجودہ دور کی خرابیوں کے مقابل اُس اچھے وقت کے یادگار لمحات کے بارے میں سوچ سوچ کر کڑھتے رہتے ہیں۔ کڑھنے کا عمل کبھی کبھی اتنا تیز ہو جاتا ہے کہ حال بھی ٹھکانے پر نہیں رہتا اور مستقبل تو خوفزدہ ہوکر دور کسی کونے میں دُبک جاتا ہے۔ 
آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب اچھی طرح گزارا جانے والا وقت یاد آ آکر انسان کو بے حال کرتا رہتا ہے تو پھر بُری طرح گزرنے والا یا گزارا جانے والا وقت ہمارے حافظے اور فکری ساخت پر کس حد تک اثر انداز ہوتا ہوگا! ماضی کی تلخ یادیں ہمارے حافظے اور فکری ساخت سے اِس بُری طرح چمٹی رہتی ہیں کہ اُن سے مکمل گلو خلاصی میں زمانہ لگ جاتا ہے۔ یہ خالص شعوری عمل ہے یعنی انسان کو ایک واضح فیصلہ کرنے کے بعد اُس پر عمل بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس پورے عمل میں کہیں بھی پلٹنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ذرا سی چُوک ہوئی اور ساری محنت غارت سمجھیے۔ 
وقت کا کام گزرنا ہے‘ گزر جاتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ وقت کو گزارنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جب چُھری کو خربوزے پر چل ہی جانا ہے تو خربوزے کو کیا پڑی ہے کہ چُھری پر جا گِرے؟ مگر حیرت انگیز اور افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ بیشتر انسان بیشتر وقت ایسا ہی کر رہے ہوتے ہیں! وہ اپنے طور پر گزرنے والی چیز کو بزور گزارنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اس کا بھیانک نتیجہ بھی بھگتتے ہیں۔ مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ بھیانک نتائج بھگتنے پر بھی انسان سبق نہیں سیکھتا‘ اصلاحِ احوال پر مائل نہیں ہوتا۔ 
ہر دور کے انسان کو کاش کے دائرے میں گھومتے رہنا مرغوب رہا ہے۔ بات سیدھی سی ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں کچھ کرنا نہیں پڑتا۔ انسانی مزاج کا ایک واضح پہلو عمل سے دور رہنا ہے۔ عمل کی طرف جانے کیلئے انسان کو بہت زور لگانا پڑتا ہے۔ بھری دنیا میں ایسے لوگ شاید تناسب میں 5 فیصد بھی نہ ہوں جنہوں نے عمل پسند رویہ بخوشی اپنایا ہو۔ لوگ زندگی بھر محنت کرتے ہیں ‘مگر مجبوری کا سودا جان کر‘ سر پر دَھرا ہوا بوجھ سمجھ کر۔ ایسی حالت میں کام کرنے کا لطف جاتا رہتا ہے۔ مزا تو جب ہے کہ انسان عمل کو خوشی کے ساتھ اپنائے اور ایسا کرنے والے ہی جانتے ہیں کہ اِس رویے میں کیا لطف پنہاں ہے۔ 
انسان زندگی بھر بے عقلی کو بروئے کار لاتا ہے اور پھر اُس کے ناپسندیدہ نتائج بھگت کر افسردہ بھی رہتا ہے۔ کاش کے دائرے میں گھومنے والے وہ ہیں‘ جو گزرے ہوئے زمانوں میں کی جانے والی حماقتوں کو یاد کرکے روتے رہتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اُنہیں صرف رونا اچھا لگتا ہے‘ اپنی طرزِ فکر و عمل میں اصلاح کی فکر دامن گیر نہیں رہتی۔ وہ درست راہ پر گامزن ہونے کے حوالے سے کبھی سنجیدہ نہیں ہوتے۔ گزرے ہوئے زمانے پر تاسّف کا اظہار کرتے رہنا اُنہیں اس لیے اچھا لگتا ہے کہ اِس حوالے سے کچھ کرنا نہیں پڑتا۔ کاش کے دائرے میں گھومنے کے بجائے اگر وہ اپنے گزرے ہوئے زمانے اور اُس زمانے میں کیے جانے والے اعمال کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں تو اصلاحِ احوال کی صورت نکلتی ہے۔ 
وقت کا ہر دم یہ تقاضا ہے کہ ہم گزرے ہوئے لمحات کو بھول کر آنے والے لمحات کے بارے میں سوچیں۔ آنے والے لمحات کے بارے میں سوچنے کے حوالے سے توازن لازم ہے۔ جو لمحات اس وقت گزر رہے ہیں‘ اُن کی بہتر تفہیم اور متعلقہ افکار و اعمال کی روشنی ہی میں اس امر کا تعین ہوگا کہ آپ کے آنے والے لمحات کیسے ہوسکیں گے‘ یعنی مستقبلِ بعید کے دامن میں آپ کے لیے کیا ہوگا۔ جو زمانہ گزر چکا ہے‘ اُس کی اصلاح کسی بھی طور نہیں کی جاسکتی۔ اس حوالے سے تاسّف وقت‘ صلاحیت اور توانائی تینوں کا ضیاع ہے‘ اور کچھ نہیں۔ آپ کاش کے دائرے سے جس قدر جلد نکل آئیں ‘آپ کے لیے اُتنا ہی بہتر ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں