سیانے کہتے ہیں کہ انسان کو خوش رہنا چاہیے۔ کوئی سبب نہ ہو تب بھی! کیوں؟ ذہن کو اس کیوں کا جواب چاہیے۔ کوئی سبب نہ ہو تو انسان کیوں اور کیونکر خوش رہے؟ خوش رہنا انسان کے لیے بے حد ضروری‘ بلکہ ناگزیر ہے ‘مگر کوئی سبب بھی تو ہو‘ جو لوگ خوش ہونے اور خوش رہنے کا کوئی سبب تلاش کرتے یا جواز مانگتے ہیں‘ اُن سے سیانوں کا سوال یہ ہے کہ انسان بے ارادہ‘ کسی خواہش کے بغیر اداس اور بیزار بھی تو رہتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کوئی سبب نہ ہو تو بیزار یا اداس رہنے کی دلیل کیا ہے؟ اس حوالے سے انسان خاموش رہتا ہے اور سوچتا بھی نہیں۔ کوئی کہے کہ بھائی! خوش رہا کرو تو فوراً خوش رہنے کا جواز تلاش کرنے کی مہم شروع کردی جاتی ہے‘ مگر بلا جواز اداس اور بیزار رہنے کا کوئی جواز تلاش کرنے یا سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔
بات عجیب سی ہے ‘مگر عجیب لگنی نہیں چاہیے۔ انسان ایسا ہی تو ہے۔ اُس کے بیشتر افکار و اعمال کسی سبب یا جواز کے محتاج نہیں ہوتے۔ وہ کسی بھی حوالے سے کچھ بھی سوچ اور کرسکتا ہے اور کرتا ہی ہے۔ زندگی کا کوئی مقصد یا جواز نہ ہو تو انسان بھٹک جاتا ہے۔ جب ہم کسی خاص مقصد کے تحت زندہ رہتے ہیں تب اس قابل ہو پاتے ہیں کہ زندگی کا حق ادا کرنے کے حوالے سے اپنی سی کوشش کرسکیں۔
بہتر زندگی بسر کرنے کے حوالے سے اُصولِ تجاذب پر بنائی جانے والی معروف فلم ''دی سیکریٹ‘‘ میں مارسی شِموف کی رائے بھی شامل ہے۔ مارسی شِموف نے 2008 ء میں ''ہیپی فار نو ریزن‘‘ لکھی تھی۔ یہ کتاب غیر معمولی مقبولیت سے ہم کنار ہوئی۔ انہوں نے لکھا ہے کہ زندگی بھر غم اور خوشی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ہر ماحول میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیںجن پر کوئی بھی صورتِ حال زیادہ اثر انداز نہیں ہو پاتی۔ معاملہ بے حِسی کا نہیں‘ تربیت کا ہے۔ جنہوں نے اچھی اور بُری صورتِ حال کو پورے ہوش و حواس اور استقامت کے ساتھ برداشت کرنے کی تربیت پائی ہو وہ کسی بھی غم سے زیادہ رنجیدہ نہیں ہوتے اور کوئی بھی خوشی اُنہیں اتنا خوش نہیں کردیتی کہ آپے سے باہر ہوجائیں اور کسی کی حق تلفی کر بیٹھیں۔ ایسے لوگ ہر صورتِ حال میں پُرسکون رہتے ہوئے کام کرتے ہیں اور بیشتر معاملات میں اُن کا رویہ متوازن رہتا ہے۔
مارسی شِموف نے ہمالیہ کے ایک انتہائی بلند گاؤں کے باشندوں کو دیکھا تو حیران رہ گئی۔ یہ سب لوگ بیشتر معاملات میں انتہائی خوش تھے اور کسی بھی بے جا خواہش کے غلام نہ تھے۔ اُن کے پاس بہت خوش رہنے کا بظاہر کوئی ٹھوس اور قابل ذکر جواز نہ تھا‘ مگر پھر بھی اُن کی زندگی میں مسرّت بے پایاں تھی۔ مارسی شِموف نے اس حوالے سے تحقیق کی اور پھر یہ کتاب لکھی۔ مصنفہ اچھی خاصی تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچیں کہ انسان اگر خوش رہنا چاہے‘ تو اس کیلئے کسی سبب یا جواز کی کوئی ضرورت نہیں۔
ہم اپنے ماحول کا جائزہ لیں تو قدم قدم پر ایسے لوگ ملیں گے جن کے نصیب میں بہت کچھ لکھا ہے۔ وہ اپنے شعبے میں کامیاب ہیں‘ دولت مند ہیں۔ خوش ہونے کے دیگر اسباب بھی میسر ہیں‘ مگر اس کے باوجود اُن کی زندگی میں ہمیں مسرّت برائے نام دکھائی دیتی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ دولت لازمی طور پر مسرّت کا سامان نہیں کرتی؛ اگر کسی نے طے کرلیا ہے کہ اُسے خوش نہیں رہنا ہے‘ تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اور کوئی بھی چیز اُسے خوش نہیں رکھ سکتی۔ خوش وہی رہتا ہے ‘جو خوش رہنے کو اپنے مزاج کا حصہ بناتا ہے۔
بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ جب اُن کے پاس دولت ہو تو خوشی بھی ہونی چاہیے اور لوگوں کو بھی اُن کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ یہ سوچ بے بنیاد ہے۔ لوگ اپنے طور پر بہت کچھ طے کرلیتے ہیں‘ مثلاً :یہ کہ دولت ہو تو خوشی بھی ساتھ ساتھ ہونی چاہیے‘ مگر کیوں؟ خوشی کا دولت سے کیا تعلق؟ اگر ایسا ہو تو پھر دنیا میں کوئی بھی خوش دکھائی نہ دے۔ ڈھونڈنے پر ہمیں ایسے بہت سے لوگ مل جائیں گے‘ جن کے حصے میں دو وقت کی روٹی سے بڑھ کر دولت نہیں آئی‘ مگر انہوں نے کبھی اس کمی کو محسوس ہی نہیں کیا اور جس حال میں رب نے رکھا ہے ‘اُس میں خوش ہیں۔ یہ خوشی بنیادی طور پر اس لیے ہے کہ وہ کسی کی بہت سی دولت دیکھ کر حسد نہیں کرتے اور محرومی کے احساس کو اپنے دل میں پنپنے نہیں دیتے۔
اس دنیا میں ایسے لوگ کم ہیں جو کسی صورتِ حال کو تبدیل کردیں۔ ہاں‘ منفی معاملات میں کسی حد تک یہ ممکن ہے۔ خرابی پیدا کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی‘ مگر معاملات کو بھلائی کی طرف لے جانے کے لیے انسان کو غیر معمولی محنت کرنا پڑتی ہے۔ آپ کسی بھی صورتِ حال کو تبدیل کرسکتے ہیں؟ کوئی بھی جواب دینے سے پہلے اتنا یاد رکھیے کہ ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔ ایسے میں دانش کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے آپ کو صورتِ حال کے مطابق تبدیل کرلیجیے۔ یہ کام یقینا ممکن ہے۔ کامیاب زندگی بسرکرنے والے بیشتر افراد ایسا ہی کرتے ہیں۔ صورتِ حال کے مطابق خود کو تبدیل کرکے خوش رہنا ایک ہنر جو سیکھنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں ‘جیسا دکھائی دیتا ہے۔
مارسی شِموف کہتی ہیں کہ عمومی سطح پر ہمارے 80 فیصد خیالات منفی ہوتے ہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے تمام خدشات درست ثابت نہیں ہوں گے ‘مگر پھر بھی ہم اُن پر انحصار کرتے ہیں۔ منفی سوچ کی واضح ترین علامت یہ ہے کہ انسان اپنی کسی بھی ناکامی کے لیے دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرائے۔ حتمی تجزیے میں تو انسان خود ہی قصور وار ہوتا ہے۔ ہمیں معاملات کی تفہیم کے حوالے سے رونے پیٹنے اور شِکوے گِلے کرنے والا رویہ اپنانا نہیں چاہیے۔ اس راستے پر گامزن رہنے سے ہم ہر معاملے میں رونے پیٹنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔
انسان اگر واقعی خوش رہنا چاہے‘ یعنی اس کا ارادہ کرلے تو بہت سے چھوٹے معاملات اُسے بڑی اور پائیدار شادمانی کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ کسی کی مدد کرنے سے ہم خوش ہوتے ہیں۔ اسی طور کسی کو معاف کردینا بھی ہمارے لیے مسرت کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ خوش اور پُرسکون رہنے کے لیے عبادت کا سہارا لیتے ہیں۔ یہی معاملہ آگے جل کر مجاہدۂ نفس میں تبدیل ہوکر ابدی نوعیت کی مسرّت کا سامان کرتا ہے۔ کسی بڑے مقصد کا تعین کرکے اُس کے حصول کی کوشش سے جُڑ جانا بھی ہمیں بے حد خوشی دیتا ہے۔ ایسی حالت میں ہمارے بیشتر معاملات متوازن رہتے ہیں۔ مقصدیت سے زندگی کا معیار بھی بلند ہوتا ہے اور بے پایاں مسرّت کا سامان بھی ہوتا ہے۔ بہت سوں کو خدمتِ خلق میں سُکون ملتا ہے اور یہ سُکون وسیع تر مسرّت کا سامان کرتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان منفی سوچ رکھنے والوں کی صحبت اختیار نہ کرے‘ جو لوگ ایسا کرتے ہیں‘ اُن کی زندگی میں حقیقی مسرّت کا سامان نہیں ہو پاتا۔
خوب سوچیے گا تو حتمی تجزیے میں یہی پائیے گا کہ خوش رہنا پختہ ارادے کی بنیاد پر کیے جانے والے فیصلے کا نام ہے؛ اگر آپ چاہیں گے کہ خوش رہنا ہے تو خوش رہ پائیں گے اور اگر اس کے برعکس چاہیں گے‘ تو جو کچھ ہوگا وہ اِس کے برعکس ہوگا‘تو جناب!آپ ہی کو فیصلہ کرنا ہے کہ خوش رہنا ہے یا نہیں؟۔