ایک بار پھر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) خبروں میں ہے۔ ہونا بھی چاہیے کہ اِس ایک ادارے نے جو کچھ اب تک ہمارے معاملے میں کیا ہے اور اب بھی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے وہ ہرگز ایسا نہیں کہ آسانی سے نظر انداز کردیا جائے‘ بھلا دیا جائے۔ عمران خان نے دبئی جاکر آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ سے ملاقات کی اور پاکستان کے لیے کم و بیش 12 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکیج ممکن بنانے کے حوالے سے بات کی۔ اس ملاقات کے بعد وزیر اعظم نے کہا ہے کہ بنیادی معاملات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ یہ کہ آئی ایم ایف پاکستان میں پائیدار ترقی یقینی بنانے اور زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے طبقات کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے معیشتی ڈھانچے میں چند ایک بنیادی اصلاحات چاہتا ہے!
وزیر اعظم کو دبئی جانا پڑا ہے اور وہاں آئی ایم ایف کی ایم ڈی سے ملنا بھی پڑا ہے۔ یہ بجائے خود ایک حد تک قومی وقار کے منافی ہے۔ تنقید بھی شروع ہوچکی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ترجمان مولا بخش چانڈیو کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کا دبئی جاکر آئی ایم ایف کی سربراہ سے ملنا اس امر کا غماز ہے کہ اُنہیں اپنی اقتصادی ٹیم پر اعتماد نہیں رہا اور یہ بھی کہ ٹیم ناکام ہوچکی ہے۔ مولا بخش چانڈیو نے وزیر اعظم کے دبئی جانے اور آئی ایم ایف کی سربراہ سے ملنے کو اصولی طور پر انتہائی غلط قرار دیا ہے‘ کیونکہ اس نوعیت کی بات چیت وزرائے خزانہ کیا کرتے ہیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران خان کہا کرتے تھے آئی ایم ایف کے پاس جانا بھیک مانگنے کے مترادف ہے۔ تو اب اِس عمل کو کیا کہا جائے گا!
وزیر خزانہ اسد عمر کہتے ہیں لگتا ہے ‘ اب آئی ایم ایف سے جلد معاہدہ ہوجائے گا۔ ساتھ ہی ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہماری کوشش ہوگی آئی ایم ایف سے کیا جانے والا معاہدہ آخری ہو‘جو کچھ وزیر خزانہ کے ذہن میں تھا ‘وہ انہوں نے بیان کردیا ‘مگر اس قوم کی تقدیر میں کیا لکھا ہے‘ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ ویسے قوم اب ایسی گئی گزری بھی نہیں کہ کچھ اندازہ ہی نہ لگاسکے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اُس کے نتیجے میں کیا ہوگا۔
آئی ایم ایف سے راہ و رسم بڑھانے کے نتائج ہمیشہ خراب نکلے ہیں اور کیوں نہ نکلیں؟ کوئلے کی دلالی میں ہاتھ کالے ہی ہوا کرتے ہیں۔ ایک زمانے سے یہ تماشا پوری قوم ''ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنی دیکھ رہی ہے۔ اور اب ... بقولِ غالبؔ ؎
پھر جگر کھودنے لگا ناخن
آمدِ فصلِ لالہ کاری ہے
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے بارے میں کوئی بھی ایسی بات نہیں جو ڈھکی چھپی ہو۔ دنیا بھر کی تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں کو لگام دینے کے لیے بڑی طاقتوں نے چند انتہائی طاقتور ادارے قائم کر رکھے ہیں۔ آئی ایم ایف اُنہی میں سے ہے۔ اس ایک ادارے نے کئی ممالک کو قرضوں کے جال میں بُری طرح پھنساکر یوں برباد کیا ہے کہ پھر اُن میں دوبارہ ابھرنے کی ہمت ہی باقی نہ رہی۔ یونان کے معاملے میں آئی ایم ایف نے جو کچھ کیا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔
آئی ایم ایف کا ایک بنیادی طریقِ واردات یہ ہے کہ جس ملک کو تباہ کرنا ہو وہاں بہبودِ عامہ پر فنڈنگ رکوادی جاتی ہے۔ قرضوں کی شرائط رکھی ہی ایسی جاتی ہیں کہ متعلقہ ملک ایک بار گردن پھنسا بیٹھے تو پھر شکنجے سے نکل نہ پائے۔ جب بہبودِ عامہ سے متعلق امور میں فنڈنگ رکتی ہے ‘تو پورا معاشرہ اور بالخصوص پس ماندہ طبقات زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور یوں پورے معاشرے میں انتشار پھیلتا ہے۔ تعلیم اور صحتِ عامہ کو بھی خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے‘ تاکہ ابھرتی ہوئی قوم مزید ابھر نہ سکے اور قومی سطح پر رول بیک شروع ہو جائے۔
آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا طریقِ واردات ایسا نپا تُلا اور ماہرانہ ہے کہ غور کیجیے تو سفّاکی اور بے حِسی کی داد دینے کو جی چاہتا ہے! بربادی اس طور یقینی بنائی جاتی ہے کہ کہیں کسی خرابی کا نشان تک نہیں ملتا۔ بقول کلیم عاجزؔ ؎
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو!
ایک اہم سوال یہ ہے کہ ایسی کیا مجبوری ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے آگے دستِ سوال دراز کرنا ہی پڑا ہے۔ سعودی عرب‘ چین اور متحدہ عرب امارات کسی خطرناک شرط کے بغیر خاصے سستے قرضے فراہم کر ہی رہے ہیں۔ چین تو سرمایہ کاری بھی بڑھا رہا ہے اور تعلیم و صحتِ عامہ سمیت کسی بھی شعبے کو بظاہر نہیں چھیڑ رہا تو پھر کیا سبب ہے کہ آئی ایم ایف کی کاسہ لیسی کی جارہی ہے؟ ریاستی مشینری کی ایسی کیا مجبوری ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضوں کے معاملے میں ترکِ تعلق ممکن نہیں ہو پارہا؟ وہ کون سے ذاتی نوعیت کے مفادات ہیں‘ جن کے باعث آئی ایم ایف کی ''مہربانیوں‘‘ سے دامن چُھڑانا اب تک محض ایک خواب ہے؟ اپوزیشن چیخ رہی ہے کہ اُسے بتایا جائے آئی ایم ایف سے کن شرائط کے تحت قرضوں کا پیکیج لیا جارہا ہے۔ پیپلز پارٹی اس حوالے سے زیادہ پرجوش دکھائی دیتی ہے۔ مسلم لیگ ن بھی چاہتی ہے کہ آئی ایم ایف سے ہونے والی بات چیت اور قرضوں کی شرائط منظر عام پر لائی جائیں۔ معاشی امور کے ماہرین بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ موقع اچھا ہے‘ آئی ایم ایف سے دامن چھڑالیا جائے تاکہ ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہو اور ترقی کی راہ ہموار ہو۔
قوم حیران ہے کہ ہر طرف سے انتباہ کے پیغامات اور اشارے ملنے پر بھی ع
پھر تِرے کوچے کو جاتا ہے خیال
کے مصداق آئی ایم ایف کے در پر سجدہ ریز ہونے کی پوری تیاری کرلی گئی ہے۔ اِس ایک معاملے سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ استعماری قوتوں نے پاکستان کے قومی وجود میں کہاں کہاں پنجے گاڑ رکھے ہیں اور یہ کہ ہمارے لیے اِن گڑے ہوئے پنجوں کو نکالنا کس قدر دشوار ہے۔
غالبؔ ہی نے کہا تھا کہ ؎
پھر اُسی بے وفا پہ مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے
جس نے کئی بار بے وفائی کی ہو اُس پر مرنا کسی بھی اعتبار سے عقل کا سَودا نہیں۔ دانش کا تقاضا ہے کہ معاملات کو سمجھ لینے کے بعد اُن کی درستی پر مائل ہوا جائے۔ کئی دوست موجود ہیں‘ جو پاکستان کو کسی نہ کسی طور اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اُن سے معاملات بناکر رکھے جائیں تو استعماری قرضوں کا طوق گلے سے نکال پھینکنا کوئی بہت مشکل مرحلہ نہیں رہے گا۔ کئی ممالک نے ایسا کرکے خود کو مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ معیشتی اصلاحات پر زیادہ سے زیادہ متوجہ ہونے کی ضرورت ہے‘ تاکہ پائیدار ترقی کی طرف بڑھا ممکن بنایا جاسکے۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ سرمایہ کاری کا گراف بلند ہو‘ قرضوں کا نہیں۔ سرمایہ کاروں کو زیادہ تحریک و ترغیب دینے میں کچھ مضائقہ نہیں۔ تعلیم و صحتِ عامہ سمیت چند اہم شعبوں کا تعین کرکے اُن میں سرمایہ کاری کرائی جائے‘ تو کوئی سبب نہیں کہ ملک اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہو اور پائیدار ترقی ممکن بناکر معاشرے کو خوش حالی کی طرف لے جانے میں کوئی امر مانع ہو۔