تاریخ کا ہر دور طاقت کے حصول اور استعمال سے عبارت رہا ہے۔ طاقت کے ضروری یا غیر ضروری استعمال سے جو کچھ ہوتا ہے وہ بھی انسان نے خوب بھگتا ہے۔ طاقت ہی سے تاج کا تصور بھی وابستہ ہے یعنی حکمرانی۔ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس۔ جس کے پاس طاقت اُسی کے ہاتھ میں اقتدار بھی۔ یہی دنیا کی ریت رہی ہے۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ ہاں‘ انداز تھوڑا سا تبدیل ہوگیا ہے۔ کل تک طاقت حاصل کرچکنے کے بعد اس کا بے محابا استعمال لازم سمجھا جاتا تھا۔ اب معاملات کی تھوڑی بہت پردہ پوشی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
بعض فلمی مکالموں پر موتی پرونے اور کوزے میں دریا بند کرنے کا گماں ہوتا ہے۔ سکرین پر بولے جانے کے لیے جو کچھ لکھا جاتا ہے اُس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے کبھی کبھی لکھنے پر غیر معمولی توجہ دی جاتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ پوری فلم بہت محنت اور توجہ سے لکھی جاتی ہے اور پھر اُسے شاہکار کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔ پرتھوی راج کپور اور دلیپ کمار کی شہرہ آفاق فلم ''مغلِ اعظم‘‘ کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ معیار اور کاروبار دونوں لحاظ سے اسے آج بھی بھارت کی سب سے بڑی فلم تسلیم کیا جاتا ہے۔ فلم کے مکالمے امان اللہ خان‘ کمال امروہوی‘ ابرار علوی اور اختر الایمان نے مل کر لکھے۔ ایک ایک جملہ لافانی تھا۔ پروڈیوسر کے آصف نے اقتدار کے ایوان میں دل کا مقام واضح کرنے کی کوشش کی اور یہ کوشش خوب تھی۔
فلم کے ایک منظر میں ہیروئن انار کلی (مدھو بالا) کی مخالف اور شاہی خاندان کی خاصی منہ چڑھی کنیز بہار (نگار سلطانہ) سنگ تراش کے پاس جاتی ہے اور اُسے کوئی شاہکار تخلیق کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ اُس کی باتوں سے تحریک پاکر سنگ تراش (مراد) کہتا ہے ''میں ایک ایسا شاہکار (مجسمہ) بناؤں گا جس کے قدموں میں بادشاہ اپنا تاج‘ سپاہی اپنی تلوار اور انسان اپنا دل رکھ دیں!‘‘۔ اس ایک جملے میں خدا جانے کیا کیا سمودیا گیا ہے۔ دنیا میں آج تک جتنی بھی کشمکش ہوئی ہے وہ تاج ہی کی خاطر تو رہی ہے۔ سر پر تاج سجانے کے لیے تلوار کا سہارا لیا جاتا ہے اور پھر تاج کو برقرار رکھنے کے لیے تلوار ہی بروئے کار لائی جاتی ہے۔ تاج کو بچانے کے لیے تلوار کے بے لگام استعمال سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ تاج اور تلوار کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ اب بھی ایسا ہی ہے۔ پہلے لوگ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کے لیے خوب طاقت جمع کرتے ہیں اور جب اقتدار مل جاتا ہے تو اُسے بچانے کے لیے مزید طاقت جُٹانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
معاشرے اُن کے دم سے پنپتے ہیں جو تاج اور تلوار پر دل کو ترجیح دیتے ہیں۔ بادشاہ کسی بھی قوم یا ملک کا سربراہ ہوتا ہے۔ سربراہ کو قائد بھی ہونا چاہیے۔ اگر وہ قائد بھی ہو تو ٹھیک ورنہ بات بنتی نہیں۔ تلوار والوں کو صرف تلوار سے غرض ہوتی ہے یعنی طاقت بڑھاتے جانے سے مطلب ہوتا ہے۔ تاج اور تلوار والے عمومی سطح پر اِس بات کی چنداں پروا نہیں کرتے کہ اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول کے لیے وہ جو کچھ کرتے ہیں اُس کے کس پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں یا ہوتے ہیں۔ ؎
دریا کو اپنی موجوں کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیان رہے
جنہیں اقتدار حاصل کرنا اور برقرار رکھنا ہو اُن کے لیے کسی بھی چیز کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اقتدار کو برقرار رکھنے کی خاطر وہ تلوار کو یوں استعمال کرتے ہیں کہ انسانوں پر قیامت گزر جاتی ہے۔ چشمِ فلک نے ہر دور میں ایسے بیسیوں تماشے دیکھے ہیں اور اب بھی دیکھ ہی رہی ہے۔ جنہیں حکم چلانا ہو وہ کہاں باز آتے ہیں؟ وہ دل کی کب سنتے ہیں؟
بادشاہ کے پاس صرف تاج ہوتا ہے۔ اُس کی دنیا تاج کو سر پر سجائے رکھنے اور بچائے رکھنے تک محدود ہوتی ہے۔ یہی اُس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہوتا ہے۔ جن کے ہاتھوں میں تلوار ہو وہ تلوار سے آگے کچھ بھی کہاں دیکھتے ہیں؟ طاقت کا نشہ جب جادو کی طرح سر چڑھ کر بولتا ہے تو انسان کی سمجھ میں اور کچھ نہیں آتا۔ تمام معاملات گھوم پھر کر تلوار تک محدود ہوکر رہ جاتے ہیں۔ جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہو وہ صرف بھینس کو نہیں ہانکتا بلکہ پوری دنیا کو بھینس سمجھ کر ہانکنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ طاقت کا یہی سب سے گندا پہلو ہے۔
ہم بھی اب تک تاج‘ تلوار اور دل کی کشمکش میں الجھے ہوئے ہیں۔ ایک طبقہ ہے جو اقتدار کے ایوانوں پر متصرف ہے اور کمزور پڑنے کا نام نہیں لیتا۔ کمزور کیسے پڑے؟ تمام فیصلے وہی کرتا ہے اور‘ ظاہر ہے‘ اپنے مفاد میں کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ زیادہ سے زیادہ طاقتور ہوتا جاتا ہے۔ تاج اور تلوار کا ہمیشہ اتحاد رہا ہے۔ یہ اتحاد کمزور پڑے تو دونوں کے لیے مشکلات ہی مشکلات رہ جاتی ہیں۔ آج بھی یہ اتحاد ہی ایک دوسرے کی بقا کا ضامن ہے۔ ''مغلِ اعظم‘‘ کے مکالمہ نگاروں نے کہا تھا کہ بادشاہوں کے پاس صرف تاج ہوتا ہے اور سپاہیوں کے پاس صرف تلوار۔ وہ ان دونوں چیزوں سے آگے کچھ بھی نہیں دیکھتے۔ دل البتہ صرف انسانوں کے پاس ہوتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے‘ صرف اقتدار اور طاقت کا سوچنے والوں کو کس درجے میں انسان سمجھا جائے؟
اقتدار کیا صرف سر پر تاج سجانے کے لیے ہوتا ہے؟ یا تلوار کیا صرف اس لیے ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ طاقت کا حصول یقینی بناکر اُس کا جیسا تیسا مظاہرہ کیا جاتا رہے؟ یقیناً ایسا نہیں ہے۔ اللہ کی طرف سے جنہیں اقتدار ملتا ہے یا طاقت بخشی جاتی ہے اُنہیں بہت کچھ سوچنا اور کرنا ہوتا ہے۔ اُن کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ طاقت اور اقتدار کو اللہ کی عطا سے زیادہ متعلقین کی آزمائش سمجھا جانا چاہیے۔ ریاست اور معاشرے کا نظم و نسق چلانے کا موقع قدم قدم پر جوابدہی کے بوجھ سے بھی اَٹا ہوا ہے۔ جن کے ہاتھ میں معاشرہ دیا جاتا ہے حساب کتاب کے ذریعے اُن کی گردن بھی ناپی جائے گی۔ جتنی طاقت اُتنی ذمہ داری۔ اللہ کا تو یہی اصول ہے۔
آج کا پاکستانی معاشرہ دل والوں یعنی انسانوں کی زبوں حالی کا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں پر متصرف ہوکر زیادہ سے زیادہ طاقت کا حصول یقینی بنانے کی کوشش کرنے والوں کو اب تک اس بات کا ذرّہ بھر احساس نہیں کہ اُن سے صرف جواب طلبی نہیں ہوگی بلکہ بھرپور جواب طلبی ہوگی۔ اشرافیہ نے معاشرے کو جس نہج تک پہنچایا ہے اور جو خرابیاں پیدا کی ہیں اُن پر سخت باز پرس ہوگی۔ اور جب ایسا ہوگا تب کوئی حیلہ کارگر ثابت نہ ہوگا۔ رب کے حضور کس کی چلتی ہے؟ ایسے میں کیا یہ قرینِ دانش نہیں کہ ہوش کے ناخن لیے جائیں اور اللہ کی طرف سے معاشرے کی خدمت کے لیے عطا کیے جانے والے موقع کو خدمت ہی کے لیے بروئے کار لایا جائے؟
تاج اور تلوار والوں کو اگر انسانوں کی صف میں شامل ہونا ہے تو سینے میں دل پیدا کرنا ہوگا۔ جب تک دل پیدا یا بیدار نہیں ہوگا تب تک کسی بھی بات کا احساس نہیں جاگے گا۔ جنہیں عوام کی خدمت اور حفاظت کے لیے (اللہ کی طرف سے) چُنا گیا ہے وہ اپنے حصے کا کام کماحقہ کریں تو ریاست جنت نظیر ہوجائے۔ جو خدمت کا موقع دے کر آس لگائے بیٹھے رہتے ہیں اُن کی حق تلفی سے بڑھ کر کوئی بدبختی نہیں ہوسکتی۔ دل والوں کی امنگوں اور امیدوں کا تاج اور تلوار والوں کو جس قدر جلد احساس ہو جائے معاشرے اور ریاست کے لیے اُسی قدر اچھا ہے۔ دیر ہوجائے تو ٹوٹے ہوئے تارے مہِ کامل بننے نکل پڑتے ہیں۔