زمانہ ہی کچھ ایسا ہے کہ قدم قدم پر الجھن کا سامنا ہے۔ ذہن ابھی ٹھیک سے سلجھ بھی نہیں پاتا کہ پھر الجھ جاتا ہے۔ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے‘ وہ دل و دماغ پر یوں اثر انداز ہوتا ہے کہ حواس تادیر قابو میں نہیں رہتے۔ آج کا ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی تو ہے کہ حواس پر حملے بہت زیادہ ہو رہے ہیں۔ قدم قدم پر ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے ‘جو کسی نہ کسی طور ہمارے حواس تک پہنچ کر اُنہیں مختل کردیتا ہے۔
فی زمانہ حواس کو قابو میں رکھنے میں وہی کامیاب ہوسکتا ہے‘ جس نے ایسا کرنے کی باضابطہ تربیت پائی ہو۔ عام آدمی کا حال یہ ہے کہ قدم قدم پر کسی نہ کسی بات کا اثر لیتا ہے‘ سوچتا ہے اور متعلقہ حقائق جانے بغیر کسی نتیجے تک پہنچ جاتا ہے اور کوئی رائے قائم کرلیتا ہے‘ پھر کچھ ہی دیر میں رائے غلط ثابت ہونے لگتی ہے‘ تو وہ کسی اور نتیجے تک پہنچتا ہے۔ یوں رائے اور نتیجہ بدلنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ کچھ لوگ زندگی بھر یہی کرتے ہیں۔ اُن کی کسی رائے پر کوئی بھروسا نہیں کرتا۔ اُن کے اخذ کیے ہوئے نتیجے پر کسی کو اعتماد نہیں ہوتا۔
جو کچھ ہم دیکھتے ہیں ‘اُس میں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے ‘جو محض دھوکا دیتا ہے اور بہت حد تک یہ دھوکا بھی ہم خود کھاتے ہیں۔ علامہ اقبالؔ نے کہا تھا: ؎
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نُور دل کا نُور نہیں
ہماری آنکھ پوری حقیقت کو نہیں دیکھتی۔ دیکھ ہی نہیں سکتی‘ جو کچھ ہمیں دکھائی دیتا ہے‘ وہ حقیقت کا محض ایک جُز ہوتا ہے‘جو کچھ ہم دیکھتے ہیں ‘اُس کا تجزیہ کرکے کسی نتیجے تک پہنچنے کی صورت میں ہم حقیقت کو کسی حد تک سمجھنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ یہ وصف ہر انسان میں نہیں پایا جاتا۔ بیشتر معاملات میں یہ ایک ہنر ہے ‘جو سیکھنا پڑتا ہے۔ جس طور کسی بچے کو سکول میں بہت کچھ خاص توجہ کے ساتھ سکھایا جاتا ہے‘ بالکل اُسی طور زندگی بھر ہمیں بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے‘ تاکہ اہم معاملات میں متوازن فیصلے کرنا آسان ہو۔
جو کچھ ہمارے سامنے ہوتا ہے ‘وہ پورا سچ نہیں ہوتا‘ حقیقت کا مکمل عکس نہیں ہوتا۔ بہت کچھ ایسا ہے ‘جو ہم دیکھ تو لیتے ہیں‘ مگر سمجھ نہیں پاتے۔ ذہن سوچتا ہی رہ جاتا ہے۔ جب تک سیاق و سباق کا سِرا ہاتھ نہیں آتا تب تک ہم حقیقت کو سمجھنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ یہی سبب ہے کہ عموماً آنکھ دھوکا دے جاتی ہے: ؎
کھا رہی ہے قدم قدم پہ فریب
اس نظر کی بساط ہی کیا ہے
جو کچھ دکھائی دیتا ہے‘ اُس کی بنیاد پر کسی بھی معاملے میں حتمی رائے قائم کرلینے سے معاملات الجھ جاتے ہیں۔ علامہ اقبالؔ ہی کا مشورہ ہے: ؎
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وَا کرے کوئی
آنکھ کا کام محض دیکھنا ہے‘ جو کچھ آنکھ نے دکھایا ہو‘ اُس پر آنکھ بند کرکے بھروسا کرلینا سر بہ سر نادانی ہے۔ ہم میں سے بیشتر یہ نادانی زندگی بھر کرتے رہتے ہیں۔ ہم زندگی بھر حواسِ خمسہ‘ یعنی کسی بھی چیز کو جاننے کے پانچ بنیادی ذرائع (دیکھنا‘ سُننا‘ سُونگھنا‘ چکھنا اور چُھونا) کے محتاج رہتے ہیں۔ ان پانچوں میں سے ہر حِس ہمیں کسی نہ کسی نئی بات کا پتا دیتی ہے۔ جو کچھ حواسِ خمسہ کے ذریعے ہم تک پہنچتا ہے ‘وہ ذہن کیلئے خام مال کا درجہ رکھتا ہے۔ حواسِ خمسہ کی مدد سے ملنے والی معلومات کا ذہن تجزیہ کرتا ہے اور کسی منطقی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کوشش ہی کی بنیاد پر یہ بھی طے ہوتا ہے کہ ہم اپنے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوسکے ہیں یا ہوسکتے ہیں۔
آنکھ اپنا کام کرتی ہے اور ذہن اپنے حصے کے فرائض انجام دیتا ہے۔ حواسِ خمسہ میں سب سے اہم آنکھ ہے۔ چُھونے‘ چکھنے‘ سُونگھنے اور سُننے کے لیے کسی چیز کا قریب ہونا لازم ہے۔ آنکھ کا معاملہ یہ ہے کہ یہ پورے ماحول کو دیکھتی ہے اور فاصلوں کو ذرا خاطر میں نہیں لاتی۔ 14 کروڑ 96 لاکھ کلو میٹر دور واقع سُورج کو جاننے کے لیے آنکھ بھر دیکھ لینا کافی ہے۔ اُس کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے چُھونے کی ضرورت نہیں۔ پس ‘ثابت ہوا کہ زمین کے ماحول اور اُس سے باہر کی کیفیت کو جاننے کے لیے آنکھ کا کردار بہت اہم ہے‘ مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ کردار سب کچھ نہیں ہے۔ بہت کچھ دیکھنا تو آنکھ کے لیے ممکن ہے‘ سمجھنا ممکن نہیں۔ فہم و ادراک ذہن کا منصب ہے۔ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے ‘وہ ذہن تک پہنچتا ہے اور ہمارے فہم کے دائرے کو وسعت دینے کا وسیلہ بنتا ہے‘ مگر خود آنکھ کچھ زیادہ نہیں سمجھ پاتی۔ اُس کے مقدر میں‘ بظاہر‘ الجھن ہی الجھن لکھی ہے: ؎
الجھتی جارہی ہے ہر قدم پر
مرے ہمدم! نظر کچھ بھی نہیں ہے
ایسے میں لازم ٹھہرتا ہے کہ جو کچھ دیکھا جائے‘ اُسے حتمی حیثیت میں نہ لیا جائے۔ آنکھ پر مکمل بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ یوں بھی آنکھ کا کام صرف دیکھنا اور الجھنا ہے۔ اُس پر بھروسا کرنے والے اپنے آپ کو جان بوجھ کر دھوکا دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو کچھ آنکھ کی معرفت ہم تک پہنچتا ہے ‘اُسے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے یا نہیں۔ شان الحق حقیؔ مرحوم نے خوب کہا ہے: ؎
دل کی توفیق سے ملتا ہے سراغِ منزل
آنکھ تو صرف نظاروں ہی میں کھو جاتی ہے
انسانی مزاج کی ایک بنیادی کمزوری یہ ہے کہ وہ دستیاب معلومات ہی کو سب کچھ سمجھ لیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دستیاب معلومات کا خالص غیر جانب داری سے تجزیہ کرنے کے بعد کسی منطقی نتیجے تک پہنچنا ہوتا ہے۔ یہ کام ذہن کا ہے۔ گویا حواسِ خمسہ کی مدد سے حاصل ہونے والی معلومات کو بروئے کار لانے‘ کسی منطقی نتیجے تک پہنچانے کے لیے لازم ہے کہ ذہن اپنا کام پوری توجہ اور لگن سے انجام دے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے‘ جب ذہن پر غیر ضروری بوجھ لادنے سے گریز کیا جائے۔
معیاری زندگی بسر کرنا‘ اُسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ہم ظاہر کی آنکھ سے تماشا کرنے کی روش ہی کو سب کچھ سمجھنے کی ذہنیت ترک کریں اور ذہن کو متحرک کرنے کی عادت اپنائیں۔ ذہن اگر اپنا کردار پوری لگن اور دیانت کے ساتھ بروقت ادا کرے تو بہتر زندگی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ذہن ہی ہمیں بتاتا ہے کہ جو کچھ آنکھ نے دیکھا ہے‘ وہ ہے کیا؟ آنکھ جب نظاروں میں کھو جاتی ہے‘ تب ذہن ہمیں راہ سجھاتا ہے۔
زندگی کو ڈھنگ سے بسر کرنے کے لیے سنجیدگی درکار ہے۔ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے‘ اُس پر مکمل بھروسا کرنے کے بجائے دل کی آنکھ سے وہ سب کچھ دیکھنا ہے‘ جو ہے تو سہی‘ مگر آسانی سے دکھائی نہیں دیتا۔ زندگی کو حقیقی معنویت سے ہم کنار کرنا ہے تو لازم ہے کہ ہم وہ سب کچھ بھی جاننے کی کوشش کریں‘ جو آنکھ میں کی دسترس میں نہیں۔ قدرت نے ہمیں ذہن عطا کیا ہے۔ یہ حقیقت تک رسائی میں معاونت کرتا ہے۔ آنکھ شے کی حقیقت کو نہیں دیکھ پاتی: ؎
اے اہلِ نظر! ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا