انسان آخری سانس تک پیچیدگیوں پر مشتمل مراحل سے گزرتا ہے یا یوں کہیے کہ گزرنا ہی پڑتا ہے۔ کوئی بھی ‘اس ابدی و عالم گیر کُلیے سے مستثنیٰ نہیں؛ اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اُس کی زندگی میں کوئی پیچیدگی نہیں ‘تو وہ یا تو انتہائی سادہ لوح ہے یا پھر جھوٹ بول رہا ہے۔ ویسے جھوٹ بولے جانے کا امکان زیادہ ہے۔
ہر دور بہت سی نعمتیں اور ساتھ ہی ساتھ بہت سی الجھنیں بھی لے کر آتا ہے۔ ہم‘ جس دور میں جی رہے ہیں‘ اُسے گزشتہ تمام ادوار کا خلاصہ سمجھیے۔ گزشتہ تمام ادوار میں جو کچھ انسان کو مرحلہ وار نصیب ہوتا رہا‘ وہ آج بیک وقت میسر ہے اور پریشانیوں کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ گزشتہ تمام ادوار کی الجھنیں بھی ایک پلیٹ فارم پر آگئی ہیں۔ آج کا انسان ایک طرف غیر معمولی آسانیوں سے ہم کنار اور دوسری طرف غیر معمولی مشکلات سے دوچار ہے۔
آج کے انسان کو سب سے بڑھ کر جس الجھن کا سامنا ہے‘ اُس کا تعلق ذہن سے ہے۔ ذہن پر حملوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کل تک سب کچھ ایک خاص حد میں رہا کرتا تھا۔ ابلاغِ عامہ کے ذرائع نے جب تک غیر معمولی اور عقل کو دنگ کرنے والی نوعیت کی ترقی نہیں کی تھی تب تک زندگی قدرے آسان تھی۔ سب کچھ طے شدہ حدود میں ہوا کرتا تھا۔ جس قدر جاننا چاہیے تھا‘ وہ انسان کو آسانی سے معلوم ہو جاتا تھا۔ ہر معاملے کی تہہ میں اترنے سے گریز کیا جاتا تھا اور پھر یوں بھی تھا کہ ابلاغِ عامہ کے ذرائع 24 گھنٹے ‘یعنی ہر وقت زندگی کا حصہ نہ تھے۔ انسان کو ہر وقت محض جاننے کی ضرورت تھی نہ شوق۔ 24/7 کی ذہنیت پروان نہ چڑھنے کی بدولت سماجی سرگرمیوں اور ذاتی مشاغل کیلئے بھی خاصا وقت میسر تھا۔ بہت کچھ یا سبھی کچھ پانے کی ہوس نے خطرناک شکل اختیار نہیں کی تھی۔ لوگ اپنے لیے بہت کچھ چاہتے تھے ‘مگر اس نیت کے ساتھ نہیں کہ دوسروں کو کچھ نہ ملے۔ کہا جاسکتا ہے کہ تب زندگی مجموعی طور پر متوازن اور مستحکم تھی۔ وہ خوب صورت اور پُرسکون دن اب محض حافظے کا حصہ ہیں۔
آج بہت کچھ اس طور بدل گیا ہے کہ کہیں کہیں تو سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ جو اب دکھائی نہیں دے رہا وہ تھا کیا۔ اپنے معاشرے ہی کی مثال لیجیے۔ ہم نے ایک زمانے تک ایسی زندگی بسر کی کہ پی ٹی وی پر رات 9 بجے کا خبرنامہ دیکھنے اور سُننے کے بعد پُرسکون نیند کو اولین ترجیح کا درجہ حاصل تھا۔ گھر سے باہر ‘یعنی ہوٹلوں پر بیٹھنے اور راتیں خواہ مخواہ کالی کرنے کا رجحان پروان نہ چڑھا تھا‘ یعنی زندگی قدرے سادہ اور پُرسکون تھی۔
فطری علوم و فنون میں ترقی کا گراف بلند ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی میں الجھنوں کا گراف بھی بلند ہوتا چلا گیا۔ جہاں ترقی ہوتی ہے ‘وہاں پیچیدگیاں بھی ہوتی ہیں۔ ترقی کا عمل زندگی میں بہت سی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرتا ہے۔ جب کچھ نیا ہوتا ہے تو پہلے سے موجود حقیقتیں تبدیل ہوتی ہیں یا وجود کھو بیٹھتی ہیں۔ ترقی کے عمل میں انسان بہت کچھ پاتا ہے اور دوسری طرف بہت کچھ کھو بیٹھتا ہے۔ یہ عمل انتہائی فطری ہے۔
آج کوئی بھی معاشرہ دن رات رونما ہونے والی تبدیلیوں کی زد میں آنے سے محفوظ نہیں۔ انفرادی سطح پر بھرپور کامیابی یقینی بنائے رکھنے کیلئے ہر انسان کو غیر معمولی انہماک کے ساتھ محنت کرنی پڑتی ہے۔ ایسا کیے بغیر چارہ نہیں۔ خود کو کامیابی سے ہم کنار رکھنا ہر انسان کیلئے ایک مستقل چیلنج ہے۔ اس چیلنج کا سامنا کرنے کیلئے انسان کو بہت کچھ دیکھنا‘ سُننا‘ پڑھنا اور سوچنا پڑتا ہے۔ ترقی کا عمل ہر انسان سے بھرپور توجہ کا طالب ہے۔ کسی ایک بڑے پہلو کو نظر انداز کرنے سے بہت کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔
فطری علوم و فنون میں پیش رفت کا عمل تیزی سے جاری ہے اور اس کے نتیجے میں انسان کے ذہن پر مرتب ہونے والے دباؤ میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ آج کا انسان ذہنی الجھنوں کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ حواس پر ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں کوئی ٹھوس رائے قائم کرنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ ہم چاہیں کہ نہ چاہیں‘ بہت کچھ دیکھنا‘ پڑھنا اور سُننا پڑتا ہے اور پھر اُس پر ردعمل بھی فطری ہوتا ہے۔ ردعمل کے بعد مستحکم سوچ اپنانے کی طرف جانا پڑتا ہے۔ یہ عمل ذہن پر شدید دباؤ ڈالتا ہے۔ یوں ذہنی الجھنیں بڑھتی ہیں۔ آج کوئی بھی انسان ہر معاملے میں اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اُسے بہت سے امور میں دوسروں کی رائے کو تسلیم کرکے ایسا بہت کچھ کرنا پڑتا ہے‘ جو اُس کی مرضی کا نہیں ہوتا۔
مغربی معاشروں میں جب ترقی کا عمل تیز ہوا تھا تب معاشرتی سطح پر بھی بہت کچھ تبدیل ہونے کا عمل شروع ہوا تھا۔ یہ تبدیلی بہت پہلے بھانپ لی گئی تھی اور پھر آنے والی الجھنوں سے بہتر طور پر نمٹنے کی حکمتِ عملی بھی تیار کرلی گئی تھی۔ کوئی بھی معاشرہ نفسی الجھنوں سے بہتر طور پر اُسی وقت نمٹ سکتا ہے‘ جب متعلقہ شعبے کے ماہرین بڑی تعداد میں موجود ہوں اور عمل نواز سوچ کے ساتھ متحرّک بھی ہوں۔ امریکا اور یورپ کے معاشروں نے فطری علوم و فنون میں غیر معمولی پیش رفت یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ معاشرتی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات کو قابو میں رکھنے کیلئے بھی بھرپور منصوبہ بندی کی۔ لکھنے والوں کی ایک بڑی کھیپ تیار کی گئی ‘تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیچیدہ تر ہونے والے معاملات پر معیاری مطبوعہ مواد آسانی سے میسر ہو۔ مغربی معاشروں کا عام آدمی اپنی زندگی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ہاتھوں محض بدحواس نہیں ‘بلکہ کبھی کبھی تو بے حواس بھی ہو جاتا تھا۔ ایسے میں لازم تھا کہ اُس کی راہ نمائی کی جاتی‘ اُسے تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے بارے میں جامع انداز سے بتایا جاتا اور ایسی تدابیر سُجھائی جاتیں ‘جن پر عمل کرنے کی صورت میں اُس کی الجھنیں کم ہوتیں۔ یہ شعبہ لکھنے والوں نے سنبھالا اور خوب سنبھالا۔
یہ تو ہوا عمومی نوعیت کا معاملہ اور جن لوگوں کی نفسی ساخت تبدیلیوں کے اثرات غیر معمولی حد تک قبول کرتی اور اس کے نتیجے میں بگڑنے لگتی‘ اُن کے لیے باضابطہ علاج کا اہتمام بھی لازم تھا۔ اس کے لیے عملی نفسیات (سائیکیٹری) کے ماہرین کی کھیپ تیار کی گئی۔ یہ ماہرین تحلیلِ نَفسی (پوری گہرائی و گیرائی کے ساتھ کیا جانے والا ذہن کا تجزیہ) کے ذریعے اُن لوگوں کو معمول کی زندگی کے لیے تیار کرتے تھے‘ جن کے ذہن میں الجھنوں کا گراف کچھ زیادہ ہی بلند ہو جاتا تھا۔
آج ہمارا معاشرہ بھی اُس مقام پر ہے ‘جہاں عام آدمی کو نَفسی اُلجھنوں سے نجات پانے کے لیے غیر معمولی نوعیت کی راہ نمائی درکار ہے۔ ایک طرف تو لکھنے والوں کو معاشرے کی یہ ضرورت پوری کرنے کے لیے دل جمعی سے اور بہت لکھنا ہے اور دوسری طرف اعلٰی تعلیم کے اداروں کو نَفسی الجھنوں سے نمٹنے میں مدد دینے والے ماہرین بڑی تعداد میں تیار کرنے ہیں‘ تاکہ ہر سطح پر ماہرین کی خدمات میسر رہیں اور عام آدمی کے لیے معمول کی زندگی بسر کرنے کے قابل ہونا ناممکنات میں سے نہ ہو۔ مجموعی طور پر پورے معاشرے کو اور خصوصی طور پر عام آدمی کو ذہنی الجھنوں سے نمٹنے میں مدد دینے کیلئے تحلیلِ نَفسی کے ماہرین کی خاصی بڑی کھیپ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ فی الوقت علاج کی یہ قسم بہت مہنگی ہے۔ اس شعبے میں عام آدمی کیلئے اخراجات کا گراف بھی نیچے لانا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ تو‘ صاحب ...تحلیلِ نَفسی لازم ٹھہری!