زندگی کیا ہے‘ اس کے تقاضے کیا ہیں اور ان تقاضوں کے مطابق جینے کے ڈھنگ کون سے ہیں اس طرف ہم میں سے کم ہی لوگوں کا دھیان جاتا ہے۔ سبب سیدھا سا ہے‘ یہ کہ ہم زندگی کو سنجیدگی سے لیتے ہی نہیں۔ جو کچھ کائنات کے خالق نے عطا کیا ہے اْس کے بارے میں غور کرنے اور حقیقی مفہوم میں شکر گزار ہونے کی توفیق ہی نصیب نہیں ہوتی۔ قدرت کا اصول یہ ہے کہ اس کی طرف دو قدم چلیے تو مزید چار قدم چلنے کی توفیق اس کی طرف سے عطا کی جاتی ہے۔ ہم اپنے حصے کے دو قدم اٹھانے کے لیے تیار ہی نہیں۔ ایسے میں قدرت کو ہماری دل جُوئی سے کیا غرض؟
زندگی کو محض تماش بینی کا درجہ دینے والے بالآخر کون سے گڑھے میں گرتے ہیں یہ سبھی جانتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اتنا جانتے ہوئے بھی زندگی بسرکرنے کا ڈھب بدلنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔
کیوں؟ یہ سوال اہم ہے۔ اس ایک لفظ کے جواب میں جو کچھ سوچا اور کہا جاسکتا ہے اسی کی بنیاد پر طے ہوگا کہ ہم چاہتے کیا ہیں اور کچھ چاہتے بھی ہیں یا نہیں۔ یہ پورا معاملہ گھر کی مرغی دال برابر کے مصداق ہے۔ ہمیں اللہ کے فضل و کرم سے وہ سب کچھ میسر ہے جس کے حصول کے لیے بہت کچھ کرنا اور خرچ کرنا پڑتا ہے۔ ہم اپنے وجود ہی پر ایک اچٹتی ہوئی سے نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ ہر چیز لاکھوں‘ کروڑوں کی ہے۔ ہاتھ‘ پیر‘ آنکھیں‘ کان‘ ناک‘ ہونٹ‘ دل‘ جگر‘ گردے ... سبھی کچھ مفت مل گیا ہے۔ ان میں سے کچھ بھی خراب ہوجائے یا جسم سے الگ کرنا پڑے تو متبادل پر لاکھوں خرچ بھی ہوں اور اچھی خاصی تکلیف بھی جھیلنی پڑے۔
آج عام پاکستانی اچھی خاصی بے دماغی اور ''فراغی‘‘ کی حالت میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ بے دماغی یہ ہے کہ کچھ ہوش ہی نہیں کہ ماحول میں کیا ہو رہا ہے اور اپنا وجود اس سے کس حد تک اور کس طور متاثر ہو رہا ہے۔ صرف جیے جانے سے غرض ہے اور وہ بھی یوں کہ جینے کا حقیقی لطف لینا ہے نہ کچھ سوچنا ہے۔ جب کچھ سوچنا ہی نہیں تو زندگی سی نعمت بخشنے والے خالق کا شکر ادا کرنے کا خیال کہاں سے آئے؟
فراغی کا معاملہ یہ ہے کہ پورے معاشرے نے شاید یہ طے کرلیا ہے کہ دیگر تمام معاملات پر فارغ رہنے کو ترجیح دی جائے گی۔ اور ایسا ہی کیا جارہا ہے۔ دنیا کا دستور ہے کہ بہت محنت کرنے پر تھکن طاری ہوتی ہے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ کام کرنے سے بھی آرام کیا جاتا ہے اور کام کرنے کے بعد بھی۔ اور سچ تو یہ ہے کہ رہی سہی کسر پوری کرنے کے لیے کام کے دوران بھی آرام کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا تاکہ سند رہے!
ایک ڈیڑھ عشرے کے دوران کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں عجیب ہی رواج پروان چڑھا ہے کہ رات رات بھر جاگتے رہیے۔ نئی نسل فضول شب بیداری کی نذر ہوتی جارہی ہے۔ ؎
اس کاروبارِ شوق کا انجام کچھ نہیں
مصروفیت بہت ہے مگر کام کچھ نہیں
نئی نسل کو رات رات بھر گھر سے باہر رہنے میں لطف محسوس ہونے لگا ہے۔ اکثریت ان کی ہے جو دن بھر فارغ رہتے ہیں کیونکہ انہیں کام پر بھی نہیں جانا ہوتا اور کوئی تعلیمی سرگرمی بھی نہیں ہوتی۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ کسی جواز کے بغیر رات کالی کرنے والوں میں وہ بھی ہوتے ہیں جنہیں صبح اٹھ کر کام پر جانا ہوتا ہے۔ رات رات بھر جاگنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ دفتر‘ فیکٹری یا دکان میں لوگ اونگھتے پائے جاتے ہیں۔ اگر وہ جاگے ہوئے دکھائی بھی دیں تو ذہنی طور پر خاصے سوئے ہوتے ہیں یعنی دماغ خاصا سْنّ رہتا ہے۔
ہم اتنے فراغت پسند کیوں ہوگئے ہیں؟ زندگی کو بھرپور انداز سے بسر کرنے کے نام پر ہم کچھ نہ کرنے کے عادی ہوکر خوش ہیں کہ زندگی کا حق ادا ہو رہا ہے۔ دنیا تو بدن توڑ محنت کے بعد فراغت ڈھونڈتی ہے‘ آرام کرتی ہے۔ خدا ہی جانے کہ ہم کون سی آرام پسند و آرام طلب مٹی سے بنائے گئے ہیں کہ محنت طلب سرگرمیوں کے نزدیک بھی نہیں پھٹکتے اور آرام کے طالب رہتے ہیں؟ زندگی ہم سے بہت کچھ چاہتی اور مانگتی ہے۔ ہم بہت کچھ کر بھی سکتے ہیں۔ اہلیت‘ مہارت اور سکت سے کہیں بڑھ کر اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم کچھ کرنا چاہتے بھی ہیں یا نہیں۔ اگر کچھ کرنے کا ارادہ اور نیت ہی نہ ہو تو زمانے بھر کی مہارت اور سکت بھی ہمارے کسی کام کی نہیں۔ دنیا دیکھ کرحیران ہوتی ہوگی کہ ہم کیسے ''فراغ زادے‘‘ ہیں کہ زندگی ایسی نعمت کو اپنے ہی پیروں تلے روند رہے ہیں اور اس کا ذرا سا افسوس بھی نہیں۔ گویا بقول جون ایلیا ع
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
ہرمعاملے میں بے دلی اور بے حسی نمایاں ہے۔ کام میں جی نہیں لگتا اور وقت ضائع کرنے والی ہر سرگرمی ہمیں جان و دل سے پیاری ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر خود کو زندگی سے بے حد محبت کرنے والا ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتے ہیں مگر جب اس نام نہاد لگاؤ کو ثابت کرنے کی بات آئے تو ارادہ و عمل کے کس بل نکل جاتے ہیں۔ ہر زمانہ عمل ہی کا رہا ہے۔ باتیں بنانے والوں کو بالآخر ناکامی‘ ہزیمت اور گم نامی کے گڑھے میں گرنا پڑتا ہے۔ عمل ہی کی کسوٹی پر پرکھے جانے کی صورت میں معلوم ہو پاتا ہے کہ کس نے زندگی کا حق ادا کیا ہے اور کون محض اداکاری کرتا رہا ہے۔ ہر دور میں ہر معاشرہ فکر و عمل کے بہترین توازن سے متصف ہونے ہی پر کچھ کرسکا ہے‘ کچھ پاسکا ہے۔ ہمارے لیے بھی یہی کلیہ ہے۔ استثنیٰ کسی طور نہیں مل سکتا۔ قوم کے جن افراد کی رگوں میں جوان خون دوڑ رہا ہے ان سے عمل ہی نہیں‘ حسنِ عمل کی بھی طلب ہے۔ قوم کو عمل درکار ہے۔ جن میں توانائی ہے‘ کچھ کرنے کی سکت ہے وہ ''فراغ زادے‘‘ اپنا وقت اتنی آسانی اور ''خوب صورتی‘‘ سے ضائع کر رہے ہیں کہ دیکھ کر دانتوں تلے انگلی دبالینے کو جی چاہتا ہے۔
معاشرہ نازک دور سے گزر رہا ہو تو بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے اور عمل کے مرحلے سے بھی بخوبی گزرنے کی تیاری کرنا پڑتی ہے۔ ایسے میں ہر قدم سنبھل کر اٹھایا جاتا ہے۔ میر تقی میرؔ نے کہا تھا ؎
میرؔ صاحب! زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار
حالات کی روش ہماری دستار کو گرانے ہی کی متمنی نہیں‘ اسے خاک آلود کرنے پر بھی بضد ہے۔ ایسے میں ہمارے پاس بدل جانے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ اور بدلنا بھی یوں ہے کہ اصلاحِ احوال ہو۔ ہر قدم سنبھل سنبھل کر اٹھانا ہے کیونکہ کوئی ایک غلط قدم بہت پیچھے دھکیل سکتا ہے۔ وقت کو ضائع کرنے والی ہر بات سے ہمیں گلو خلاصی یقینی بنانی ہے۔ ایسا کیے بغیر ہم ایساکچھ بھی نہیں کر پائیں گے جس کے نتیجے میں دنیا ہماری طرف متوجہ ہو‘ ہمیں سراہے۔ وقت کا ضیاع روکنا ہر سطح پر ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ ذہنوں سے بے جا فراغت پسندی کو کھرچ کر پھینکنے کی ضرورت ہے۔ اس نیک کام میں جتنی تاخیر کی جائے گی اتنی ہی خرابی پیدا ہوگی۔