دنیا الجھ کر رہ گئی ہے۔ الجھنی ہی تھی کہ بہت کچھ الجھا ہوا ہے۔ سب سے زیادہ الجھن تو تعلقات میں پائی جاتی ہے۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعلقات میں پائی جانے والی الجھن اور کشیدگی کا گراف بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ اِتنی تیزی سے اور اس قدر بڑے پیمانے پر ہوا ہے کہ اصلاحِ احوال کا سوچئے تو کوئی سِرا ہاتھ نہیں آتا۔
انسان بہت بدل گیا ہے۔ مسائل کی نوعیت اور شدت نے غضب ڈھایا ہے۔ جو کچھ سوچا بھی نہ تھا‘ وہ ہوچکا ہے۔ اقدار بدل گئی ہیں۔ اقدار کے بدلنے سے تعلقات کی نوعیت بھی ایسی تبدیل ہوئی ہے کہ پہچانی نہیں جاتی۔ سب کچھ صرف اور صرف زر کے گرد گھوم رہا ہے۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مالی آسودگی میسر ہو۔ مسائل کے حل کے لیے زر کا حصول لازم ہے‘ مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ محض زر سے سب کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ ہم زندگی بھر زیادہ سے زیادہ زر کے حصول کے لیے سرگرداں رہتے ہیں ‘مگر اس حقیقت پر غور کرنے سے گریزاں رہتے ہیں کہ زندگی ایسی نعمت اس لیے نہیں ملی کہ اُسے زر کی چوکھٹ پر سجدہ ریز رہنے پر مجبور کیا جائے۔
اقدار کے بگڑنے اور بدل جانے سے سب سے زیادہ نقصان تعلقات کو پہنچا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہر نوع کے تعلقات میں اخلاص کا تناسب قابلِ رشک و قابلِ فخر حد تک تھا۔ لوگ ہر معاملے میں مفاد کو اولیت نہیں دیتے تھے۔ زندگی صرف زر کے گرد نہیں گھومتی تھی۔ ہر معاملے میں یہ نہیں دیکھا جاتا تھا کہ کیا ملے گا اور کیا نہیں ملے گا۔ بیشتر معاملات میں اہمیت اس بات کو دی جاتی تھی کہ کوئی کسی کے لیے کس حد تک معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ لوگ‘ ایک دوسرے کے کام آنے کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ باقی تمام معاملات اِس کے بعد آتے تھے۔ زندگی مجموعی طور پر خلوص اور ہمدردی سے عبارت تھی۔ کوئی بیمار پڑ جاتا تھا تو لوگ صرف عیادت کے لیے آتے تھے‘ اُن کی آمد کسی اور مقصد یا نیت کے تحت نہیں ہوتی تھی۔
جب زر پرستی نے اپنا جال نہیں پھیلایا تھا تب تعلقات میں خلوص کے ساتھ ساتھ پاکیزگی بھی تھی۔ لوگ جائز و ناجائز کا پورا خیال رکھتے تھے۔ اُنہیں اپنی اخلاقی حدود کا بھی پورا خیال رہتا تھا۔ بشری تقاضے بھی ہوا کرتے تھے مگر اُن کا اثر اس قدر نہیں ہوتا تھا کہ باقی سب کچھ مِٹّی میں مل جائے۔ لوگ سہولتوں کے ساتھ آسائشیں بھی چاہتے تھے مگر اس معاملے میں جذبات اتنے بے قابو نہیں ہو جاتے تھے کہ حرام و حلال میں تمیز کا شعور باقی نہ رہے۔ لالچ کا گراف اتنا بلند نہیں ہوا تھا کہ باقی سب کچھ نیچے رہ جائے۔ لوگ اپنی مرضی کی زندگی بسر کرنے کیلئے بہت کچھ داؤ پر لگانے کے شوقین تھے نہ عادی۔ یہی سبب ہے کہ تب زندگی میں توازن اور استحکام تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان خطرناک حد تک بدل گیا ہے۔ خطرناک حد تک اس لیے کہ جو کچھ وہ سوچ اور کر رہا ہے‘ اُس سے دنیا کی خرابی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ سوچ کا انداز ہی بدل جائے تو معاملات اتنے بگڑ جاتے ہیں کہ کچھ کے کچھ دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اِس وقت یہی کیفیت ہے۔
ایک دور تھا کہ انسان میں غیر معمولی حساسیت پائی جاتی تھی۔ تب زیادہ زور اس نکتے پر دیا جاتا تھا کہ کسی نہ کسی طور تعلقات کو نبھایا جائے۔ لوگ تعلقات کا بھرم رکھنے کو اپنے لیے غیرت کا معاملہ تصور کرتے تھے۔ اس بات کو چنداں پسند نہیں کیا جاتا تھا کہ کسی ٹھوس جواز کے بغیر تعلقات کی بساط لپیٹ کر رکھ دی جائے۔ انا پرستی بھی ہوا کرتی تھی ‘مگر تعلقات کو داؤ پر لگانے والی انا پرستی کا مظاہرہ کرنے سے گریز کیا جاتا تھا۔ خاصی تلخ باتیں سہتے ہوئے تعلقات سلامت و توانا رکھنا نمایاں ترین ترجیحات میں شامل ہوا کرتا تھا۔ بات صرف اتنی تھی کہ احساس برقرار تھا۔ انسان صرف اپنے مفاد کو ذہن نشین نہیں رکھتا تھا ‘بلکہ دوسروں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کی فکر میں غلطاں رہا کرتا تھا۔ احساس وہ دولت ہے‘ جس کے دم سے لوگ ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
پھر وقت نے کروٹ بدلی اور بہت کچھ بدل گیا۔ انسان میں جب حساسیت کا گراف گِرا تو نئی اقدار نے جنم لیا۔ جب انسان نے خالص عملی سوچ اپنائی‘ یعنی ''پریکٹیکل‘‘ ہوگیا تو بہت کچھ اِس طور تبدیل ہوا کہ اُس سے پہلے کی دنیا ناپید سی ہوگئی۔ وقت نے ایسے ماحول کو جنم دیا‘ جس میں انسان تعلقات سے فوائد کشید کرنے کی طرف مائل ہوا۔ یہ نیا رجحان تھا‘ جو تیزی سے پروان چڑھا۔ دنیا نے جب خالص مادّہ پرستی کی شاہراہ پر سفر شروع کیا تب انسان نے ہر معاملے سے کچھ نہ کچھ فائدہ کشید کرنے کی ٹھانی۔ یہ نیا ذہنی سفر تھا۔ اس سفر کے ہر پڑاؤ میں انسان نے کوئی نہ کوئی فائدہ تلاش کرنا شروع کیا۔ سب کچھ فوائد سے نتھی کرنے کا رجحان پنپنے لگا۔ پریکٹیکل ہونے کا یہ مطلب لیا گیا کہ انسان صرف ایسے کام کرے جن سے کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہو۔ آج بھی پریکٹیکل کا ایک مفہوم یہ ہے کہ انسان بیشتر معاملات سے کچھ نہ کچھ فوائد کشید کرے‘ یعنی ہر وہ انسان پریکٹیکل کہلانے کا مستحق ہے جو تعلقات اور معاملات پر متوجہ ہوکر تمام ممکن فوائد کشید کرے۔
انسان کے معاملات پریکٹیکل اپروچ کی منزل تک نہیں رکے ہیں۔ بات اب‘ پروفیشنل ازم تک پہنچ گئی ہے۔ آج کی دنیا‘ پریکٹیکل سے ایک قدم آگے جاکر‘ پروفیشنل ہوگئی ہے۔ انسان جب پریکٹیکل تھا تب تعلقات سے فوائد کشید کرنے کا سوچا کرتا تھا اور اس میں بہت حد تک کامیاب بھی رہا کرتا تھا۔ اب‘ انسان پروفیشنل ہوچکا ہے۔ پروفیشنل اپروچ یہ ہے کہ انسان صرف وہی تعلقات استوار کرے‘ جن سے کچھ مل سکتا ہو‘ کوئی فائدہ کشید کیا جاسکتا ہو۔ وہ دور گیا کہ جب تعلقات کو own کرلیا جاتا تھا۔ اب ‘باضابطہ منصوبہ بندی کے تحت تعلقات کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے‘ یعنی تعلقات وہی ہونے چاہئیں ‘جن سے کچھ مل سکتا ہو‘ بگڑی بات بن سکتی ہو۔ جن تعلقات سے کچھ ملنے کی توقع نہ ہو‘ اُنہیں منصۂ شہود پر آنے ہی نہیں دیا جاتا۔
انسان نے ایموشنل سے پروفیشنل تک کا سفر اِس طرح طے کیا ہے کہ معاملات کچھ کے کچھ دکھائی دینے لگے ہیں۔ سب کچھ مفادات کی چوکھٹ تک آگیا ہے۔ انسان نے اپنے آپ کو محدود کرلیا ہے۔ انسان کو کائنات کی سی وسعت کے ساتھ خلق کیا گیا ہے۔ ہمیں قلب و نظر کی وسعت کے ساتھ جینا ہے۔ سوچ بدل کر خود کو محدود کرنا کسی بھی اعتبار سے قابلِ ستائش رویہ نہیں۔ اپروچ تبدیل کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اپنے وجود کو معنویت سے محروم اور محدود کردیں۔ ہمیں بعض معاملات میں واپسی کا سفر کرنا ہے۔ اچھا ہے کہ ہم ہر معاملے میں پروفیشنل نہ ہوں۔ اِسی طور بے جا طور پر پریکٹیکل ہونا بھی نفع کا سَودا نہیں۔ احساس کا پہلا نمبر ہے۔ جو احساس رکھتا ہے ‘وہ کبھی صرف اپنے مفاد کی خاطر نہیں جی سکتا۔ آج کے انسان کو اگر ڈھنگ سے جینا ہے تو دو قدم پیچھے جاکر اُسے حساس ہونا ہے۔ زر پرستی پر جب احساس حاوی ہوگا ‘تب ہی دنیا کو جینے کے لیے بہتر مقام بنانے کی راہ ہموار ہوگی۔