ہم کچھ کرنے اور کچھ پانے کے فراق میں اپنے وجود سے بہت دور ہوچکے ہیں۔ یہ طویل المیعاد عمل کا نتیجہ ہے۔ ہوش سنبھالنے کے بعد سے یہ سفر شروع ہو جاتا ہے‘ یعنی ہم کچھ کرنے کے لیے نکل پڑتے ہیں اور پھر اپنے آپ سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دنیا کے ہر انسان کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ باقی دنیا کے لیے تو دستیاب ہے‘ مگر اپنے وجود کے نزدیک آنے کا موقع مشکل سے مل پاتا ہے۔
ہر دور کے انسان کی خواہش رہی ہے کہ اُسے منفرد حیثیت میں شناخت کیا جائے اور اسی حوالے سے یاد بھی رکھا جائے۔ اس کے لیے بہت تگ و دَو کرنا پڑتی ہے۔ انسان اپنے آپ کو منوانے کے لیے بہت کچھ کرتا ہے۔ صلاحیت سب میں ہوتی ہے مگر محنت کرنے کا جذبہ ہر انسان میں نہیں پایا جاتا۔ لکھنے والوں نے اس نکتے پر بھی بہت کچھ لکھا ہے کہ انسان کے لیے اپنے وجود کو نظر انداز کرنا انتہائی خطرناک ہوا کرتا ہے۔ ہر انسان منفرد شناخت کے لیے کوشاں ضرور رہتا ہے ‘مگر اپنے ہی وجود کو نظر انداز بھی کر بیٹھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ دنیا اُسے دیکھے‘ پرکھے‘ سراہے اور چاہے۔ یہ خواہش بُری نہیں۔ کچھ لوگ منفرد شناخت یقینی بنانے کے لیے بہت محنت کرتے ہیں‘ اپنا پورا خیال رکھتے ہیں مگر عمومی سطح پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ شناخت تو چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ انہیں چاہا جائے‘ مگر وہ خود اپنے وجود کو چاہنے سے گریز کرتے ہیں۔
ہر دور میں اہلِ دانش نے انسان کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ دنیا میں گم ہوکر نہ رہ جائے‘ اپنے وجود کا بھی کچھ خیال کرے اور وقت نکال کر اپنے آپ سے بھی مل لیا کرے۔ اپنے آپ سے ملنا ہر اس انسان کے لیے لازم ہے جو کچھ بننا اور کر دکھانا چاہتا ہے۔ دنیا سے الگ ہوکر‘ تنہائی میں اپنے وجود سے ملنا انسان کے لیے بہت سے امکانات کے در کھولتا ہے۔ اپنے وجود سے ملاقات انسان کو سوچنے کی تحریک دیتی ہے۔ اخلاقی اور روحانی تربیت پر زور دینے والے کہتے ہیں کہ انسان کو یومیہ بنیاد پر یا پھر چند دنوں کے وقفے سے کچھ وقت کے لیے ایک طرف بیٹھ کر اپنے تمام معاملات پر غور کرنا چاہیے۔ جو لوگ بھیڑ بھاڑ سے دور‘ کسی گوشے میں بیٹھ کر اپنے بارے میں اور دنیا سے اپنے تعلق کے حوالے سے سوچتے ہیں وہی ڈھنگ سے جینے کی تیاری کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔
ایسی کتب کی کمی نہیں جن میں مشورہ دیا گیا ہے کہ اپنے وجود کو کسی بھی حال میں نظر انداز نہ کیا جائے۔ بہت سوں کا ہر معاملہ اپنے وجود کے گرد گھومتا رہتا ہے۔ یہ خود غرضی ہے۔ سوال خود شناسی کا ہے۔ اس منزل سے گزر کر ہی ہم ''خود نوازی‘‘ تک پہنچ پاتے ہیں۔ والکر پرسی نے ''لاسٹ اِن دی کاسموس‘‘ میں انسان کے اس بنیادی مسئلے پر بحث کی ہے کہ وہ کائنات کی ہر چیز پر متوجہ ہے اور اگر توجہ نہیں دے رہا ہے تو صرف اپنی ذات پر۔ انسان نے اپنی ذات کو اس قدر نظر انداز کر رکھا ہے کہ بعض حالات میں تو حیرت کم اور افسوس زیادہ ہوتا ہے۔ اپنے ماحول پر اُچٹتی سی نظر ڈالنے سے اندازہ ہوگا کہ لوگ دنیا بھر کی باتیں کرتے ہیں‘ ہر معاملے میں غیر ضروری طور پر دلچسپی لیتے ہیں مگر اپنے بارے میں سوچنے‘ اپنے معاملات کو درست کرنے کی فکر میں مبتلا ہونے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ولیم پرسی نے self یعنی اپنے وجود پر غور کرنے کی اہمیت واضح کی ہے۔ انسان حقیقی مفہوم میں کامیاب اُسی وقت ہوسکتا ہے جب وہ اپنے بارے میں سوچے‘ لاحاصل سرگرمیوں سے خود کو دور رکھے اور کائنات سے اپنے تعلق کو زیادہ سے زیادہ معنی خیز بنانے پر متوجہ ہو۔
انسان جس کیفیت میں اپنے وجود سے ملاقات کرتا ہے اُسے تنہائی کہتے ہیں۔ تنہائی کا مطلب اکیلا پن نہیں۔ اکیلا پن تو اس حالت کو کہتے ہیں جب انسان کا کوئی نہ ہو‘ کوئی اس کے بارے میں نہ سوچے اور اس کی مدد کے لیے آگے نہ بڑھے۔ تنہائی نعمت ہے اور اکیلا پن کسی بھی طور نعمت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تنہائی میں انسان اپنے آپ سے قربت یقینی بناتا ہے۔ کچھ دیر کے لیے اپنے ماحول سے تعلق کو معطل کرکے اپنے وجود کو اولیت دینا متوازن زندگی کے لیے لازم ہے۔
ہم تنہائی سے بھاگتے کیوں ہیں؟ آخر کیا سبب ہے کہ اپنے وجود کو کچھ وقت دینا ہمیں اچھا نہیں لگتا؟ بات کچھ یوں ہے کہ پورا ماحول ہی مل جل کر چلنے پھرنے اور ہر وقت کسی نہ کسی ہنگامے کی طلب میں رہنے سے عبارت ہوکر رہ گیا ہے۔ لوگ کچھ دیر کے لیے خاموش رہنے کو بھی گناہ کے درجے میں رکھنے لگے ہیں۔ ہر وقت موبائل فون پر کچھ نہ کچھ دیکھتے رہنا اور جو کچھ دیکھا یا سُنا ہو اُسے دوسروں تک پہنچانا اور تبادلۂ خیالات کے نام پر لایعنی باتیں کرنا کم و بیش ہر انسان کے لیے فطرتِ ثانی کا درجہ اختیار کرگیا ہے۔ لوگ یومیہ بنیاد پر کچھ دیر کے لیے گوشہ نشین رہنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ پورے وجود کو معنویت سے ہم کنار کرنے اور رکھنے کے لیے لازم ہے کہ انسان ایک خاص وقت کے بعد کچھ دیر کے لیے ماحول سے الگ ہو اور اپنے آپ کو میسر ہو۔ اپنی کارکردگی کا جائزہ لینے کی صورت میں ہم بہت سی ایسی باتیں سمجھ پاتے ہیں جو عام طور پر سمجھ میں نہیں آتیں۔ کچھ دیر کے لیے ہی سہی‘ اپنے آپ کو میسر ہونے سے ہم اپنی نفسی ساخت کی بہت سی الجھنوں کو سمجھنے اور سلجھانے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔
انسان جب ماحول سے مطابقت پیدا کرنے میں ناکام رہتا ہے تب لوگ بھی اُس میں دلچسپی لینا چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسی حالت میں وہ بیشتر آزمائشی لمحات میں خود کو تنہا پاتا ہے۔ ایسے میں ہمدردی کے دو بول بھی میسر نہیں ہو پاتے۔ یہ ہوتا ہے اکیلا پن۔ اکیلا پن انسان کی صلاحیتوں کو دبوچ لیتا ہے اور یوں شخصیت کے فروغ کی راہ مسدود ہوتی چلی جاتی ہے۔ تنہائی جتنی بڑی نعمت ہے‘ اکیلا پن اتنی ہی بڑی مصیبت ہے۔ انسان اکیلا رہ جائے تو نفسی ساخت بھی متاثر ہوتی ہے اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے امکانات بھی محدود ہوتے چلے جاتے ہیں۔ تنہائی کے لمحات انسان کو درست ذہنی حالت سے ہم کنار رہنے میں مدد دیتے ہیں جبکہ اکیلا پن انسان سے کچھ بننے اور کر دکھانے کی لگن چھین لیتا ہے۔
زندگی ہم سے قدم قدم پر ٹھہرنے‘ ماحول سے کچھ دیر کے لیے الگ ہوکر سوچنے اور اپنی کارکردگی کا جائزہ لینے کا تقاضا کرتی ہے۔ ہر کامیاب انسان کو اس مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ مستحکم زندگی کے لیے لازم ہے آپ کا وجود معنویت سے ہم کنار ہو۔ اس کے لیے تنہائی یقینی بناکر اپنے آپ سے ملنا لازم ہے۔ تنہائی میں اپنے آپ سے ملاقات آپ کو جسمانی اور روحانی توانائی بحال کرنے میں مدد کرتی ہے۔ اگر اپنے آپ سے ملنے کے لیے وقت نہ نکالا جائے تو آخر میں اکیلا پن رہ جاتا ہے۔ تنہائی سوچنے کی گنجائش پیدا کرکے منصوبہ سازی کے قابل بناتی ہے جبکہ اکیلا پن بیشتر معاملات میں بیزاری اور روکھے پن کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اوروں میں گم رہنا بالآخر انسان کو اکیلے پن کی چوکھٹ تک پہنچا دیتا ہے۔ اچھا ہے کہ شعور کا بروقت مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے وجود کے تقاضے نبھانے کی کوشش کی جائے۔ جو ہمہ وقت اوروں میں گم رہتا اور اپنے آپ کو نظر انداز کرتا ہو اُسے لوگ بھی آخرِکار نظر انداز ہی کردیتے ہیں۔